دو ہزار سال قبل رومی فوج کو سکاٹ لینڈ کے مقام انکٹوتھل میں شکست ہوئی۔ جاتے جاتے یہ قلعے کو جلا گئے، قابلِ استعمال اشیاء توڑ دیں اور خزانہ زمین میں دفن کر دیا۔ 89 سن میں دفن ہونے والا خزانہ 1961 میں ملا۔ نہیں، اس میں سونا چاندی نہیں تھے۔ فولاو اور لوہے کے لاکھوں کیل تھے۔ سات ٹن وزنی سامان میں بس یہی کچھ تھا۔ اگر یہ دشمن کے ہاتھ لگ جاتا تو یہ ہتھیار دشمن کے حوالے کرنے کے مترادف تھا۔ تاریخ کے اس دور میں ان کو بنانا آسان نہیں تھا۔ بڑا محنت طلب کام تھا۔ ان سے پگھلا کر کچھ بھی اور بنایا جا سکتا تھا۔
فولاد سازی کے اسرار نے بہت سے دیومالائی کہانیوں کو بھی جنم دیا ہے۔ رومیوں کی پسپائی کے بعد برطانیہ میں نظم و نسق بحال کر دینے کی علامت “ایکس کیلیبر” کنگ آرتھر کی تلوار تھی جس کو جادوئی طاقت اور برطانیہ کی آزادی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا۔ اس دور میں جب تلواریں میدانِ جنگ میں ٹوٹ جایا کرتی تھیں اور فوجی نہتا رہ جاتا تھا۔ اچھی کوالٹی کے فولاد کی تلوار جسے ایک طاقتور جنگجو لہرا رہا ہو، معاشرے میں امن اور نظم کا نشان تھا۔
فولاد پرانی ایجاد ہے لیکن پرسرار بھی ہے۔ کاربن اور لوہا دونوں وافر مقدار میں دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ لوہے میں ایک فیصد کاربن کا اضافہ اسے بہت مضبوط کر دیتا ہے۔ کاربن کا یہ اضافہ تانبے، ٹین یا کسی اور دھات کے ساتھ تو ایسا نہیں کرتا لیکن لوہے کے ساتھ اس کا ملاپ انتہائی مضبوط مرکب بنا ڈالتا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس کا پتا ہمیں صرف کوانٹم مکینکس کے بعد لگا۔ (کاربن لوہے کے کرسٹل کے بیچ میں گھس کر اس کو کھینچ دیتا ہے)۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ اگر اس میں کاربن کی مقدار زیادہ ہو جائے تو اس میں لچک ختم ہو جانے کی وجہ سے آسانی سے ٹوٹ جایا کرتا تھا اور اس سے ہھتیار یا اوزار نہیں بنائے جا سکتے تھے۔ لوہے کو آگ میں زیادہ دیر رکھ دیں یا چارکول کی مقدار زیادہ ہو جائے یا لوہا پگھل جائے تو کاربن کے ایٹم زیادہ تعداد میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایسے میٹیریل سے بنی تلواریں میدانِ جنگ میں ٹوٹ جایا کرتی تھیں۔ بیسویں صدی میں آ کر ہمیں فولاد بنانے کا طریقہ سمجھ میں آیا، اس سے پہلے صرف بار بار کی غلطیوں سے سیکھا گیا پراسس تھا جو ہر دفعہ کام نہیں کرتا تھا۔
اس میں سب سے زیادہ مہارت جاپان میں سمورائی کی تلوار بنانے والوں کی تھی۔ اس میں چند ہفتے لگتے تھے اور یہ ایک مذہبی رسم کا حصہ تھا۔ آمانو موراکومو نوسوروگی (آسمان پر بادل جمع کرنے والی تلوار) وہ دیومالائی تلوار تھی جس سے داستانوں کے عظیم جنگجو یاموتو ٹاکیرو نے ہوا کو قابو کیا تھا اور سب دشمنوں کو شکست دی تھی۔ کہانیان اور رسومات ایک طرف، جاپانیوں کے پاس دنیا کی بہترین تلواریں بنانے کا نسخہ پانچ سو سال تک رہا جب تک کہ جدید میٹلرجی نہیں آ گئی۔ اس تلوار کا دنیا بھر میں مقابلہ نہیں تھا۔
یہ ایک خاص قسم کے سٹیل سے بنتی تھیں جو تاماہاگانی کہلاتا تھا۔ جو بحرالکاہل کی سیاہ آتش فشانی ریت سے بنایا جاتا تھا۔ اس میں لوہے کی کچ دھات میگنیٹائیٹ تھی (جس مقناطیسی سوئی بنائی جاتی ہے)۔ اس کو چار فٹ اونچے، چار فٹ چوڑے اور بارہ فٹ لمبے برتن میں رکھا جاتا تھا۔ (آگ میں پکی ہوئی مٹی سے بننے والا یہ برتن ٹاٹارا کہلاتا تھا)۔ اس میں آگ دہکائی جاتی۔ سیاہ ریت اور چار کول کی تہیں بڑی احتیاط سے بچھائی جاتیں۔ اس بھٹی میں اس عمل کے لئے ایک ہفتہ لگتا تھا اور چار سے پانچ افراد کام کرتے جو یقینی بناتے کہ یہ درجہ حرارت ایک سطح پر رہے۔ اس کے لئے ٹاٹارا میں ہوا پھونکی جاتی۔ آخر میں ٹاٹارا کو کھول دیا جاتا اور اس کی راکھ، ریت اور چارکول سے ٹاماہاگانی سٹیل نکالا جاتا۔
اس میں سے نکلنے والا سٹیل کاربن کی ہر فیصد کی ورائٹی والا ہوتا۔ کچھ بہت کم اور کچھ بہت زیادہ۔ سمورائی کی مہارت اس میں تھی کہ وہ اس میں ہائی کاربن سٹیل اور لو کاربن سٹیل کو شناخت کر لیتے تھے۔ ہائی کاربن سٹیل سخت لیکن جلد ٹوٹ جانے والا جبکہ لو کاربن سٹیل نرم لیکن مضبوط۔ تلوار کو لو کاربن سٹیل سے بنایا جاتا اور اس کی دھار کو ہائی کاربن سٹیل سے، جس کی وجہ سے یہ دھار انتہائی تیز ہوتی۔ ان دونوں کے ملاپ سے انہوں نے وہ حاصل کر لیا جو کئی لوگوں کے خیال میں ممکن نہیں تھا۔ ایک تلوار جو کہ دوسری تلواروں اور زرہوں کا مقابلہ بھی کر سکتی ہو اور دھار بھی اس قدر تیز ہو کہ دشمن کا سر اڑا سکے۔ دونوں دنیاوٗں کے بہترین کا ملاپ۔ جو کہ ٹوٹتی نہ تھی اور سب کو کاٹ ڈالتی تھی۔ پانچ صدیوں تک یہ تلواریں دھات کی ٹیکنالوجی کا شاہکار رہیں۔ دھات سازی کے اس طریقے نے اس نے جنگجووٗں کی نئی روایات اور سمورائی کے کوڈ کو جنم دینے میں مدد کی اور جاپان کی شناخت بن گیا۔
میدانِ جنگ میں تلوار کیوں ٹوٹ گئی؟ اس میں کاربن کا تناسب ٹھیک نہ تھا۔
سمورائی کی تلوار پر
https://youtu.be/VE_4zHNcieM
کنگ آرتھر کی تلوار کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Excalibur