تلور کی کہانی
ایک دن ایک C5 گلیکسی طیارہ اونٹ، خادموں، شکروں، گاڑیوں اور دستی ہتھیاروں سے بھرا ہوا رحیم یارخان ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے تو شاہی محل سے لے کر ائیرپورٹ تک کا سارا علاقہ وہاں کے مقامی لوگوں کے لئے سختی سے ممنوع کر دیا جاتا ہے. سامان آرائش اور دیگر سامان ضرورت جب ترتیب پا جاتا ہے تو Gulf Stream پرائیویٹ بزنس جیٹ طیاروں کا ایک غول آتا ہے جن میں سے شاہی شہزادے نمودار ہو کر مہنگی ترین گاڑیوں میں بیٹھ کر ہتھیاروں سے لیس محافظوں کے ساتھ اپنے محل میں روانہہو جاتے ہیں.
.
ایک سے ڈیڑھ ہفتہ کے اس دورانیہ میں مشائخ کا بنیادی مشغلہ تلور کا شکار ہوتا ہے. یہ کھیل عام طور پر بعد از دوپہر شروع ہوتا ہے. اس میں شکرے، کتے، اونٹ، گھوڑے اور 4x4 گاڑیاں استمال ہوتی ہیں. آذان مغرب کے قریب شکار ختم ہو جاتا ہے. پھر مغرب کی با جماعت نماز ادا کی جاتی ہے. اس کے بعد تلور کی پکوائی شروع ہوتی ہے جس میں روسٹ، بار بی کیو، ہانڈی اور دیگر انداز شامل ہیں. ضیافت میں خشک میواجات سے بنا سبز ہریرہ، ٹھنڈا چھاچھ، تازہ پھل اور دیگر مشروبات دے جاتے ہیں. انواع و اقسام کا میٹھا دیا جاتا ہے اور پھر عشاء کی نماز با جماعت ادا ہوتی ہے. آخر میں مشائخ اپنے اپنے حجروں میں چلے جاتے ہیں.
.
حجروں میں کم سن غیر تجربہ کار دوشیزائیں موجود ہوتی ہیں جن کو تجربہ کار خادماؤں نے پہلے سے اچھی طرح ابٹن لگا کر عنبر اور مشک سے معطر پانی سے نہلایا دھلایا ہوتا ہے اور بالوں کی شیمپو سے صفائی کے بعد کنڈیشنر کر کے سکھایا ہوتا ہے. ان کو علاقائی انداز میں ملبوس کر کے سونے کے زیورات سے مزین کیا جاتا ہے. سختی سے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ شیخ کو ناراض بلکل نہیں کرنا ورنہ وہ تمہارے ماں باپ کو مروا دے گا. بیچاری نو عمر بچیاں کم علمی کی بنا پر کچھ بھی پیشن گوئی کرنے سے قاصر جب کسی اچھے خاصے مسٹنڈے شہزادہ کے سامنے پیش ہوتی ہے تو مجھے نہیں معلوم اس بچی کے کیا جذبات ہوتے ہوں گے. لیکن سیکورٹی پر مامور ایک شخص کے مطابق حجروں سے جو چیخیںے اور چلانے کی آوازیں آتی تھیں وہ کسی عقوبت خانہ سے کم نہیں ہوتیں. اسکو اگر ایک خونخوار باز کا کسی چوٹی سی فاختہ پر جھپٹنا کہئے تو غلط نہیں ہوگا
.
کئی بار بچیاں بیہوش ہو جاتی ہیں، لہو لہان ہو جاتی ہیں لیکن مشائخ اتنے بھی بے رحم یا سنگدل نہیں ہیں، حاضر سروس ڈاکٹروں اور نرسوں کی ایک ٹیم ہمہ وقت وہاں موجود ہوتی ہے اور ضرورت پڑنے پر ایمبولینس ان کو شہر میں واقع شیخ زائد بن سلطان ہسپتال بھی لے جاتی ہے. شائد اسی غرض سے یہ ہسپتال وہاں بنوایا تھا ورنہ بلوچستان اور سرحد میں بھی غربت ہے. الله کا شکر ہے مشائخ کا دھیان وہاں نہیں پڑا. ھسپتال میں یہ مضروب بچیاں اندرونی زخموں کی وجہ سے بعض اوقات کئی دن تک زیر علاج رہتی ہیں مگر ان میں سے اکا دکا نحیف الصحت بچیوں کی فوتگی بھی دیکھنے میں آتی ہے.
.
ان معصوم لڑکیوں کے والدین غربت کی سطح سے نیچے رہتے ہیں اس لئے ہمت کرنے کا سوچ بھی سکتے کہ کوئی مقدمہ کریں. میں نے جب سیکورٹی والے اہلکار سے دریافت کیا کہ تم کسی بین الاقوامی NGO کو کیوں نہیں بتاتے؟ تو بولا "صاحب میں مسنگ پرسن نہیں بننا چاہتا".
.
تلور کے شکار پر جو پابندی عاید تھی اس کو اٹھا لیا گیا اور کوئی NGO بھی نہیں بولی تو آج مجھے اس سیکورٹی اہلکار کی بات میں صداقت محسوس ہو رہی ہے.
.
میرے نزدیک تلور کے شکار کی اجازت در حقیقت کم سن لڑکیوں کی معصومیت کے شکار کا پروانہ تھا.
بشکریہ محمد وجاہت
https://m.facebook.com/home.php#!/story.php?story_fbid=1875515449351376&id=100006788177700
“