میں ٹیکسی کو پارکنگ میں لگانے کے بعد بینچ پر بیٹھ کر بئیر کا ٹن ہاتھ میں لیے آتے جاتے ہر طرح کے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ نوجوان، بوڑھے اور کچھ ایسے جو جوانی کو خیر باد کہہ رہے تھے، ان سب کے چہرے الگ، چہروں پر تاثرات الگ اور یقیناً ہر ایک کی کہانی بھی الگ۔۔۔
کوئی مستقبل کا اضطراب لیے تھا، کسی کو ماضی جکڑے ہوئے تھا اور کوئی حال کی تیز رفتار زندگی کے ماتحت روبوٹ جیسا سپاٹ چہرہ لیے چلا جا رہا تھا۔ میری نظر سے بہت کم لوگ ایسے گزرے جو ماضی، حال یا مستقبل کے گنجلکوں سے بے نیاز پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے، چہرے پر اطمینان و سکون لیے ٹہل رہے ہوں۔ شاید ان پُرسکون خوش نصیب لوگوں میں تو مَیں بھی شامل نہیں تھا۔ میں تو تینوں زمانےاپنے ناتواں اعصاب پر لادے بیٹھا تھا، یہ بھی خیال نہ رہا تھا کہ ہاتھ میں تھاما بئیر کا ٹھنڈا ٹن گرم ہوچُکا ہے۔ اور نجانے کب تک ایسے بے وجہ بیٹھا رہتا اگر مجھے فون پر ہیری سن سے سواری اٹھانے کے لیے نہ کہا جاتا۔
مجھے ایک سواری کو ہیری سَن سے نیو یارک سٹی پہنچانا تھا۔ طبیعت اتنی بوجھل ہو رہی تھی کہ بالکل بھی جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن جیب مجھے آنکھیں دکھا رہی تھی اور گھریلو ضروریات نے بھی گھنٹی بجائی تو مجھے اپنے جسم میں طاقت محسوس ہوئی جس کے بلبوتے پر میں اٹھ کر پارکنگ کی جانب بڑھنے لگا۔
جب “بی 332” پر پہنچا تو وہ پہلے سے دروازے پر موجود تھی۔ اس نے ٹیکسی کو دیکھتے ہی اپنا بیگ کاندھے سے اتارا اور پچھلا دروازہ کھول کر خود کو سیٹ پر گِرا لیا۔ بیگ دوسری طرف رکھا تو میں نے بیک ویو مِرر میں سے دیکھتے ہوئے پوچھا؛
“چلیں میڈم۔۔۔؟ ”
وہ چونک گئی۔۔۔ میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے کہا؛
“پاکستانی ہو؟”
میں نے مسکراتے ہوئے سر ہلادیا اور ٹیکسی روڈ کی طرف گھمالی۔ کچھ ہی فرلانگ کے فاصلے پر اس نے سوال کیا؛
“تمہیں کیسے پتہ تھا کہ میں بھی پاکستانی ہوں؟”
“جی مجھے یہ تو پتہ نہیں تھا، ابھی آپ نے بتایا۔”
“تو پھر اردو میں بات کس لیے کی؟”
اُس کی آنکھوں میں سوال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
“کیوں کہ آپ مجھے انڈین یا پاکستانی لگیں ۔”
“اچھا۔۔۔؟ میرے بارے میں ایسا اندازہ کیسے لگا سکتے ہو؟”
میں نے پیچھے کی جانب سر گھما کر اس پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے کہا؛
”آپ کی آنکھوں میں لگا کاجل دیکھ کر۔۔۔ آپ کے کالے بال۔۔۔ اور چہرہ۔۔۔”
اس نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا اور اپنے بیگ کو گود میں رکھ کر کچھ ٹٹولنے لگی؛
“کافی چالاک لگتے ہو تم۔”
“نہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ یہ تو صرف ایک اندازہ تھا۔”
میں نے مختصر سا جواب دیا۔
“ہوں۔۔۔ ٹھیک نشانے پر لگے تو ٹھیک اندازہ۔۔۔ ویسے غلط بھی ہوسکتا ہے”
اس نے کاندھے اچکائے۔
“جی جو غلط ہوتا ہے وہ تو اندازہ ہے ہی نہیں۔۔۔ وہ تو غلط فہمی ہے۔”
میں نے سگنل پر گاڑی روکتے ہوئے اسے بے تکا سا جواب دیا لیکن مجھے امید نہ تھی کہ وہ اس بے تکے جواب کو بھی سراہے گی؛
“واہ۔۔۔۔ بہت وِٹی ہو۔۔۔ کوئی اچھی جاب مل جانی چاہئے۔”
“یہ بھی تو اچھی ہے۔ اس میں کیا بُرا ہے؟”
“بُرا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ بے آرامی تو ہے ناں۔”
اس نے پھر ایک مرتبہ کاندھے اچکا کر بات کی۔
میں نے ٹیکسی چلانے کا جواز کچھ ایسے دیا کہ؛
” میڈم یہ سب سے اچھی اور آرام دہ جاب ہے۔ میرے جیسا بدمزاج کسی کے ماتحت کام کر ہی نہیں سکتا۔ جی چاہتا ہے سواری اٹھا لیتا ہوں نہ چاہے تو معذرت کر لیتا ہوں۔ کم از کم کوئی مجھ پر حکم تو نہیں چلا سکتا۔”
ابھی یہ بات میرے منہ سے نکلی ہی تھی کہ پچھلی سیٹ سے اسکی آواز آئی؛
“Stop! stop for a while…”
میں نے گاڑی کی بریک دبائی لیکن ابھی گاڑی کی رفتار کچھ ہی کم ہوئی تھی کہ اس نے ہنستے ہوئے کہا؛
“ارے چلاتے رہو۔۔۔ روک کیوں رہے ہو؟”
“کیوں کہ ابھی آپ نے کہا۔”
اس کے چہرے کی مسکراہٹ شرارت میں بدل گئی اور میں بھی بات سمجھ گیا۔ دونوں مسکراتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ اسکا ہر انداز مجھے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ مسکراہٹ میں ایک گہرائی تھی، آنکھوں میں ایک چمک سی تھی۔ جیسے وہ اپنے تاثرات کے ساتھ کئی باتیں کہہ جاتی ہو۔ میں نے بیک ویو مرر اس کے چہرے پر ٹکا دیا تھا۔
اس دوران ہماری باتوں کا دلچسپ سلسلہ تھوڑی دیر کے لیے بھی منقطع نہ ہوا۔ اس سے بات کر کے مجھے اچھا محسوس ہو رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی اپنی ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک تو ہم زبان تھی اس کے علاوہ اس نے بالکل بھی احساس نہیں دلایا تھا کہ مجھ سے جھجک رہی ہے۔ پاکستانی لڑکیوں میں جیسا روائتی پن ہوتا ہے وہ مجھے اس میں نظر نہ آیا تھا۔
میں محسوس کر رہا تھا کہ میری اس سے غیر معمولی بات چیت ہو رہی تھی۔ ٹیکسی چلاتے ہوئے مجھے دوسال ہو چُکے تھے لیکن آج تک اتنے نارمل طریقے سے نہ میں نے کسی کو ٹریٹ کیا تھا نہ ہی مجھے کسی نے۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو آپس میں لڑتے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، فون پر باتیں کرتے ہیں۔ میں سب کو بیک ویو مرر سے دیکھ کر کئی کہانیاں کشید کر سکتا ہوں لیکن مجھے آج تک اتنی دلچسپی کسی میں بھی محسوس نہیں ہوئی۔ گھر سے دور رہ کر اکثر تنہائی میں جی بھی کرتا تھا کہ کچھ بولوں، کسی سے کچھ کہوں۔۔۔ کئی سواریاں مجھے سے بات چیت بھی کرتی تھیں لیکن میری خشک طبیعت دیکھ کر چپ ہو رہتیں لیکن اس مرتبہ کچھ الگ تھا۔ میں سب کچھ کہتا چلا جا رہا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر بھی حیرانی تھی۔ سو باتوں کا یہ سلسلہ دلچسپ لگ رہا تھا۔ کچھ پتہ بھی نہ چلا کہ ہم نیویارک پہنچ چکے تھے۔
“ویسے تمہاری واپسی کب ہے؟” پچھلی سیٹ سے اسکی آواز آئی۔
“جی یہی کوئی شام چھے بجے ۔” میں نے زیادہ وقت کا مارجن رکھ کر بتایا کہ اگر وہ واپس میرے ساتھ جانا چاہے تو اچھے سفر کا ایک اور موقع مل سکتا تھا لیکن دوسری طرف خاموشی رہی تو میں نے کچھ انتظار کے بعد اس سے کہا؛
“اگر آپ کو جلدی یا کچھ دیر سے نکلنا ہے تو میں مینج کر سکتا ہوں۔”
“میں شاید چار بجے فری ہوجاؤں۔ لیکن۔۔۔”
“لیکن۔۔۔؟”
“لیکن یہ کہ اس وقت میں ساڑھے پانچ والی ٹرین بھی پکڑ سکتی ہوں۔۔۔ اور دوسرا لیکن یہ کہ اسٹیشن تک جانے کی ہمت کہاں رہے گی۔۔۔”
اس کے کھِلے ہوئے چہرے پر تھکان سی امنڈ آئی۔
اس دن طے یہی ہوا کہ ہم اکھٹے نیوجرسی واپس جائیں گے اور گئے بھی۔ راستے میں ایک پل کے لیے بھی خاموشی نہیں رہی، وہ ایک سیمنار سے واپس آرہی تھی اس نے ساری روداد سنا ڈالی۔ یہاں تک کہ اسے اپنی باس کے کپڑے بُرے لگے، ایک گنجے بزنس مین نے اس پر لائن مارنے کی مسلسل کوشش کی اور وہ اس کے ہاتھ نہ آئی جیسی عام باتیں بھی بتاتی رہی اور میں بیک ویو مررسے اسے دیکھتا رہا۔
وہ بہت بارونق چہرے والی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک سکون سا تھا اور ہنسی میں کچھ ایسا تھا کہ میری نظر بار بار اس کا ہنستا چہرہ دیکھنے کے لیے بہک جاتی۔ میں بھی جتنا بولنا چاہ رہا تھا وہ بول ہی رہا تھا۔ مجھے اس نے بتایا کہ یہ سیمینار اگلے چار روز مزیدچلے گا۔
گھر پہنچ کر وہ گاڑی سے اتری تو چلتے چلتے رک گئی پلٹ کر دیکھا تو میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
“کیا تم کل بھی مجھے پِک کر سکتے ہو؟ اِن فیکٹ کل بھی یہی ہوگا کہ میں ٹرین نہیں پکڑ سکتی اور جلدی پہنچنا ہے۔“
“جی جی کیوں نہیں، میرا تو کام ہی یہ ہے۔”
“اوکے تو ڈن۔۔۔ پھر آج صبح والے وقت سے پندرہ منٹ پہلے پہنچ جانا ۔”
اگلے دن دوبارہ گھر کے سامنے پہنچا تو ہارن بجانا پڑا کیوں کہ وہ باہر نہیں تھی؛
“ھیلو۔۔ کیسے ہو؟ بہت وقت پر پہنچے ہو۔”
“جی ڈیوٹی جو ہوئی۔”
مجھے نیو جرسی میں رہتے ہوئے دوسال کے قریب ہوچکے تھے مگر اس دوران میں نے اتنے بارونق پل نہیں دیکھے تھے۔ یہ سب زندگی سے بھرپور تھا۔ جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی شئیر کر سکتے تھے۔ کسی بھی موضوع پر کُھل کر بات کر سکتے تھے۔ میں نے اسی دوران محسوس کیا کہ میں کتنی زیادہ اونچی آواز میں قہقہے لگا رہا ہوں۔ دو دن سفر کے دوران آتے جاتے بہت کچھ کہنے اور سننے کو تھا بلکہ دوسرے روز تو اس نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بتایا۔ کیا اچھا لگتا ہے کیا بُرا ہم دونوں نے اس پر بات کی۔ پاکستانی انڈین گانے فلمیں۔۔۔ شاید ہی کچھ ایسا ہو کہ جس پر بات نہ ہوئی ہو۔
اور تیسرے دن میں حیران تھا جب اس نے مجھے نیویارک پہچنے سے کچھ پہلے کہا کہ وہ سیمینار اٹینڈ نہیں کرنا چاہتی، وہ چاہتی تھی کہ دن کہیں گھوم کر گزارا جائے۔ خوب باتیں ہوں کچھ کھایا پیا جائے۔ سو ہم نیویارک کی کئی جگہوں پر گھومتے گھماتے ایک چھوٹے سے ریسٹورانٹ میں آ کر بیٹھ گئے۔ مختلف باتیں ہونے کے بعد ہم تعلق کے موضوع پر بات کرنے لگے۔
اس نے کافی سنجیدہ انداز میں کہنا شروع کیا؛
“تعلق بنانے سے نہیں بنتے جبکہ رشتے ہم بنا لیتے ہیں اور کچھ ہماری ذات کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوست ہو جاتے ہیں۔ آہ۔۔۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو ایسے ان چاہے رشتوں سے الگ نہیں ہو پاتے۔”
“مجھے تو تعلق اور رشتے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔۔۔ ویسے بھی میں سمجھتا ہوں کہ رشتے ہی زندگی کا حاصل ہیں۔”
“اف۔۔۔” میری بات سُن کر اس کی پیشانی پر بل نمودار ہوئے؛
“ہم ہمیشہ زندگی سے کچھ حاصل کرنا ہی کیوں چاہتے ہیں؟ کیا زندگی بذاتِ خود ایک ماحصل نہیں ہے؟ اس میں رنگ ہیں، رونقیں ہیں، بہاریں ہیں، ہنسنا رونا سب کچھ ہے۔۔۔ اور کیا چاہیئے؟
ہم ضرورت کا ٹیگ لگا کر ہر ایک شے کو محدود کیوں کر دیتے ہیں؟ معیار کیوں مقرر کر دیتے ہیں؟ اصل حُسن کی تباہی تو یہی ہے۔”
اس کی باتیں سننے کے بعد میں خاموش تھا اور فقط اسے دیکھ رہا تھا، اسے سن رہا تھا۔۔۔ اور اس کی ذات کے اندر جھانکنے کی پوری کوشش میں تھا۔ اس دوران اس نے میری خاموشی کو دیکھتے ہوئے مجھے کہا بھی کہ آج اتنا خاموش کیوں ہو۔ کیا جواب دے سکتا تھا کہ میں تو خود اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
میرے اندر کے اکیلے پن کو ایک تسکین سی ملی تھی ایک عجیب راحت محسوس کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ تو جی میں آیا کہ میں اسے کہہ دوں۔۔۔ لیکن پھر اس ڈر سے چپ رہا کہ شاید وہ میرے جذبات کو ٹھیک طرح سمجھ نہ پائے اور اسے میری یہ بات ناگوار گزرے، سو خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ ابھی میرے پاس کچھ بھی کہنے کے لیے ایک اور دن تھا اگر نہیں تو آنے والے وقت میں کئی موقعے مل سکتے تھے۔ جو بھی تھا لیکن اتنا تو میں جان چکا تھا کہ میں اس کی جانب بھرپور انداز میں جھک چکا تھا۔ ماضی، حال اور مستقبل ان سب کا بوجھ اتار کر کہیں دور رکھ دیا تھا۔ ریسٹورانٹ پر بیٹھے میری خاموشی کو دیکھتے ہوئے وہ بھی خاموش ہو چکی تھی۔ پھر اس نے اچانک کہا؛
“ہمیں چلنا چاہیئے۔”
“لیکن ابھی تو شام ہونے میں کافی وقت پڑا ہے۔”
اس نے میری بات پر توجہ نہ دی اور بیگ اٹھا کر ریسٹورانٹ سے باہر نکل آئی۔ میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ ہم دونوں ٹیکسی میں سوار ہوکر نیوجرسی کی جانب بڑھنے لگے؛
“میں اکثر سوچتی ہوں کہ جہاں بھی نظر دوڑا کر دیکھ لیں، ہر شخص کسی ضرورت کے تحت ہمارے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔”
اس نے ہمارے درمیان حائل بدمزہ سی خاموشی کے بیرئیر کو توڑتے ہوئے کہا؛
“اکثر پیار اور خون کی بنیاد پر قائم رشتے بھی ضرورت پر۔۔۔ ضرورت مادی نا سہی جذباتی یا جسمانی سہی۔۔۔ لیکن ضرورت تو ہے۔ ہم انھیں حوصلہ دیں، ان کا خیال رکھیں۔ یہ بھی تو ایک ذمہ داری ہے”
اس نے لفظ ذمہ داری پر زور دیا اور بولنا جاری رکھا؛
”کام ہے۔۔۔ ٹاسک ہے۔۔۔ تو رشتہ پھر دراصل ہے کیا؟ اور اگر ہم ایسی توقع کسی سے رکھیں تو ہم نے بھی اسے ایک کام ہی سونپ دیا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟”
“مگر کچھ رشتے ایسی ضروریات سے ماورا بھی ہوتے ہیں۔” میں نے بھی سنجید ہ ہو کر جواب دیا۔
”وہ محض تعلق ہی ہوتے ہیں۔ رشتے نہیں۔ کیوں کہ رشتہ بنتے ہی کوئی نہ کوئی فرض یا ضرورت در آتی ہے۔ ہر رشتہ قائم ہوتے ہی حقوق و فرائض کی ایک لمبی لسٹ ساتھ لے کر آتا ہے۔۔۔ جسے ہم عمر بھر نبھاتے رہتے ہیں۔۔۔ صرف سادہ اور سیدھے تعلق عظیم ہیں، معتبر ہیں۔۔۔ لیکن ہیں کہاں؟"
میں نے مڑ کر ایک نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی وہ بالکل سنجیدہ تھی؛
”نہیں۔ اتنی بھی حقیقت پسند بن کر زندگی کے حُسن کو تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟”
“میں اور تم دو دن سے باتیں کر رہے ہیں۔۔۔ ڈھیر ساری باتیں۔۔۔ کیوں؟”
“آپ بتائیں گی تو بہتر بتا دیں گی۔”
“کیوں کہ مجھے بات کر کے اچھا لگتا ہے۔ اس میں نہ کوئی ضرورت ہے نہ مجبوری۔ اور نہ ہی تسلی دلاسہ دے کر عظیم بننے کی کوشش۔۔۔ اس تعلق کو ضرورتوں اور غرض کے کسی بھی خانے میں کیسے رکھ سکتے ہیں؟ تمہیں پتہ ہے اگر اس تعلق میں بھی کوئی رشتہ ہوتا تو یہ بھی ایک ضرورت میں بدل جاتا۔ کتنا بدنما بھدا۔۔۔ پھیکا اور بکواس بن کر رہ جاتا۔”
”ایسا نہیں بھی ہوتا۔۔۔ یوں کیا ملتا ہے آپ کو ہر چیز میں کوئی غرض تلاش کر کے؟ ایسی سوچ کے ساتھ تو انسان بالکل خالی ہاتھ رہ جائے۔۔۔”
اس نے میرر میں سے میری آنکھوں میں دیکھنا شروع کیا۔ جیسے اس کے پاس الفاظ ختم ہوگئے ہوں۔ جیسے وہ اس بات کو آگے نہ بڑھانا چاہتی ہو اور یہ خاموشی طول پکڑتی گئی۔۔۔ ہم بریج سے گزر رہے تھے، اس نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور سمندر کو دیکھنے لگی۔
میری نگاہ سامنے سڑک پر تھی جس پر سراب بن رہے تھے؛
“سامنے سراب دیکھ رہی ہیں آپ؟ یہ رشتے بھی اس سراب کی مانند ہیں۔ جیسے جیسے قریب جائیں، یہ مدھم سے مدھم تر ہوتے ہوتے ختم ہو جاتے ہیں۔ پاس آنے پر ان کا وجود بھلے نہ ہو۔۔۔ لیکن کچھ تو ہے جس کی وجہ سے ہم انھیں دیکھ سکتے ہیں۔”
میں نے بات مکمل کر کے مڑ کر دیکھا تو وہ پُل کے موٹے اور آہنی رسوں کے اس پار سمندر میں غرق ہوچُکی تھی۔
میں نہیں جانتا تھا کہ جب میں اگلی صبح اس کے گھر پہنچوں گا تو وہ میری طرف بڑھ کر کچھ جھک کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہے گی؛
“سنو۔۔۔ آج مجھے کہیں نہیں جانا۔ ”
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولوں وہ کہے گی کہ؛
” کل میں نے تمہاری آنکھوں میں ایک روشنی دیکھی ہے۔۔ وہ روشنی جو کسی بھی رشتے سے پہلے آنکھوں میں بھر آتی ہے۔۔۔ یہ اندھی روشنی رشتہ ہی ہے اور اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ضرورت بھی ضرور ہوگی۔۔۔ جسے شاید تم نہ دیکھ سکو لیکن میں دیکھ رہی ہوں۔۔۔ مجھے ضرورتیں نہیں چاہیئے۔۔۔ تھینکس۔۔۔”
اور میں کچھ نہ بول پاؤں گا۔۔۔ صرف اس کے چہرے کو دیکھتا رہوں گا۔
یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ پھر ٹیکسی سے الگ ہوکر اپنے موبائل سے نمبر ملائے گی اور کان کے ساتھ لگا کر کچھ دیر کے بعد کہے گی؛
“Hello…. I need taxi.”
٭٭٭٭٭