کشمیر کے باسیوں نے کشمیر کی خوبصورتی و دلکشی پہ بہت سی کتابیں لکھیں، کئیوں نے افسانے لکھے تو کئی ایسے ادیب ہیں جنھوں نے اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں میں جھنڈے گاڑھے۔ کئی اردو کہانیاں پڑھ کر ایسا لگا جیسے آنکھوں کے سامنے کردار نمودار ہو گئے ہوں۔ دل میں یہ تجسس پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ اتنے ادیب و شعراء ہمارے کشمیر میں کیسے پیدا ہو رہے ہیں ؟ ہمارے کشمیریوں کو اردو زبان میں اتنی مہارت کیسے حاصل ہے۔ کون کون سے ایسے ادارے ہیں جنھوں نے ادبی تعمیرات میں حصہ ڈالا۔ ان سب سوالات کا جواب مجھے تھوڑی دیر سے ملا لیکن آخر کار مل ہی گیا۔
شبیر احمد ڈار کی لکھی گئی تصنیف ” آزاد کشمیر کی ادبی انجمنیں اور طلوع ادب” نے ان سارے سوالوں کے جوابات بہت آسان الفاظ میں دے ڈالے۔ یہ کتاب آزاد کشمیر کے ادب کی کہانی ہے۔ ایک ایسی کہانی جس میں ایک ایک کردار کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اور ہر ایک کردار کی مکمل تفصیل بھی لکھی گئی ہے۔
کتاب کو محقق جناب شبیر احمد ڈار نے بہت مہارت سے ایسے ترتیب دیا کہ اس میں آزاد کشمیر کا اردو ادب شیشے کی مانند نظر آیا۔ کتاب تین اسباق پر مشتمل تھی اور ہر سبق میں ان کی تحقیق میں محنت واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ کتاب کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ الفاظ کا چناؤ محقق نے ایسا رکھا جو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکے۔ بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال سے گریز کر کے مصنف نے ایک سچا لکھاری ہونے کا ثبوت دیا جو اپنی بات عام آدمی تک پہنچا کر معاشرے سے جڑے رہنا چاہتا ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ کشمیر کی ادبی انجمنوں کے حوالے سے مکمل تفصیلات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں طلوع ادب کے قیام کا زکر تفصیل سے کیا گیا ۔ تیسرے اور آخری حصے میں آزاد کشمیر کی ادبی تنظیموں کی خدمات پر مشتمل ہے۔
ایک محقق کے یہ کتاب کھلی تجوری سے کم نہیں ہے۔آزاد کشمیر کے ادبی دور کی روداد کے بارے میں جاننے والے لوگوں کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہو گی۔یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کتاب کے مصنف ایک طالب علم ہیں اور انہوں ایم۔اے اردو کی تکمیل کے وقت مقالہ لکھنے کو افضل مانا اور تحقیق شروع کر دی۔ تمام تر صلاحیتیں کو استعمال میں لاتے ہوئے انہوں نے ایک شاہکار تیار کیا جو ادب سے جڑے لوگوں کے لئے ایک مشعل راہ ثابت کو گا۔ وہی تحقیقی مقالے کو انہوں نے عوام الناس کے لئے کتابی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کی اشاعت پر انہوں نے نا صرف اپنے اساتذہ اور والدین سے پزیرائی سمیٹی بلکہ بہت سی ادبی و ایم شخصیات نے بھی ان کو داد دی۔
یقیناً ایسے نواجوان ہمارے معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ دعا گو ہوں کہ یہ سلسلہ رکے نہ بلکہ کئی اور ایسے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار آ کر ادبی دور میں اپنا حصہ ڈالیں۔
مصنوعی ذہانت انسانی تخیل اور ادب کا مستقبل
مصنوعی ذہانت کا لفظ پہلی بار Dartmouthبرطانیہ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں معرض وجود میں آیا۔مصنوعی ذہانت یعنیArtificial...