محلّے کے ایک پرانے بچپن کے دوست نے فیس بک پے اطلاع دی کے ہمارے مشترکہ بچپن کے دوست اور محلے دار شاہد کے ابا "تلقین شاہ" کا انتقال ہوگیا، افسوس تو بہُت ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ مرحوم سے وابستہ بچپن کے کچھ واقعات بھی کسی فلم کی ریل کی طرح یاد کے پردہ سیمیں پر چلنے لگے۔
مرحوم قوی الجسّہ تھے۔ جناح کیپ اور سرسید احمد خان سے مقابلہ کرتی سفید داڑھی۔ مولانا طاہر اشرفی جیسی توند اور مولانا ظفر علی خان کی طرح ایک گرجدار آواز اُنکی شخصیت کا حصہ تھی۔ مغلظات سے پر "بلاغت" میں کسی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھے۔ ایک سرکاری ملازم اور مذہب سے انتہائی لگاؤ رکھنے والی شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ محلّے کی مسجد کمیٹی کے صدر بھی تھے اور اپنی دانست میں مذہب پہ حرف آخر اور عقل کل بھی۔ اسلام کے لیے جان دینے پے تو پتہ نہیں جان لینے پے آمادہ ضرور رہا کرتے تھے ۔
بتاتا چلوں کہ اس زمانے میری عمر کوئی آٹھ یا نو سال ہوگی۔ ملک میں ضیاء الحق مارکہ اسلامی نفاذ کا دور دورہ تھا۔ ٹی وی پی شریعت کے نفاذ کے پرچار اور محلّے کے عمومی مذہبی ماحول سے متاثر ہوکر باقاعدگی سے 5 نہیں تو 4 وقت تو مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا ۔
شاہد کے ابا کا نام تو یاد نہیں رہا لیکن ہم سارے بچے انہیں تلقین شاہ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ اب اس کی وجہ تسمیہ کا بھی ایک پس منظر ہے۔
چونکہ میرے والد صاحب ایک زمانے میں ریڈیو پر کام کرتے تھے تو ہمارے ہاں ٹی وی کی مقبولیت کے باوجود بھی ریڈیو پاکستان سننے کا بہت رواج تھا ۔ یقینا" لوگوں کو یاد ہوگا کے تلقین شاہ ستّر اور اسی دہائی میں جناب اشفاق احمد مرحوم ( اللہ انہیں جنت نصیب فرمائے ) کا مستقل ریڈیو سلسلہ ہوا کرتا تھا ہم بہن بھائی مزاحیہ پروگرام اطہر شاہ خان صاحب کا مزاحیہ سلسلہ "جیدی کے مہمان" ریڈیو پاکستان پر سنا کرتے تھے اور "تلقین شاہ" شاید اس کے بعد آیا کرتا تھا۔ جو ہمارے والدین شوق سے سنتے تھے لیکن چونکہ ہمارا بچپن تھا تو وہ ہمیں نام سے ہی اتنا بور لگتا تھا کے کبھی ہم نے سنا تو نہیں لیکن لفظ " تلقین" کے مفہوم سے بہرحال واقف ہوگئے۔
ایک مرتبہ دوستوں کے سامنے اُنہیں میں نے اس نام سے یاد کرلیا۔ مفہوم معلوم ہونے پر سب کو اتنا پسند آیا کے
اب شاہد کے ابّا پہ یہ نام مستقل چسپاں کردیا گیا۔ اور محلّے میں بچوں بوڑھوں، ہر کس و ناکس میں اسقدر مقبول ہوا کے فلم آئینہ اور مولا جٹ کی کھڑکی توڑ کامیابی کے بھی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کیونکہ شاہد کے ابّا ہر آنے جانے والے بچے اور بڑے کو سخت اور "بلیغ" الفاظ میں تلقین کیا کرتے تھے اور وہ بھی سب کے سامنے۔ اس لیے سب ہی اپنی بے عزتی پے اُن سے نالاں تھے اور انکو تلقین شاہ کے نام سے بلانا اُن کے متاثرہ افراد کو ایک خاص ذہنی تسکین دیتا تھا۔
سچ بات یہ ہے کہ کئی مرتبہ تو میں بھی ان کے ہاتھ لگا ایک مرتبہ وضو میں غلطی کرتے ہوئے مجھے اتنی بے دردی سے سب کے سامنے جھاڑا کے مجھے کافی خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ شاید غلطی سے نماز میں انکے آگے سے نکل گیا اس پر بھی مجھے ان کی سب کے سامنے ہی جھڑکیاں کھانی پڑیں۔ اسی طرح انہوں نے تراویح میں چھوٹے بچوں کی مسجد میں موجودگی پے بھی پابندی لگا دی۔ ویسے صحیح بات ہے شرارتیں تو کافی ہوتی تھیں۔ لیکن پھر سارے بچے گھر سے تراویح کا کہ کر رات کو گلیوں میں آوارہ گردی کیا کرتے تھے ۔
مرحوم بڑی دل جمعی سے اپنے ہیرے کی کنی جیسے جذبہ ایمانی سے ہم پھولوں کا جگر چھلنی کرتے رہے ۔ لیکن ہم بھی موقع ملنے پر پھول کی بجائے ببول بن کے اُنہیں چبھتے رہے اور ان پے تلقین شاہ کی آوازیں کس کے بھاگتے رہے اور وہ تھوک اڑاتے ہوئے مغلظات نکال نکال کر ہمارا ناکام پیچھا کرتے رہے۔
ویسے مزے کی بات ہے کے شرارتوں میں اُن کے بڑھاپے کی اولاد شاہد ہی ہم سب کا سرغنہ ہوا کرتا تھا ۔ اور اپنے ابّا کو اُنکی غیر موجودگی میں تلقین شاہ ھی بلایا کرتا تھا ۔ ویسے میں بھی سوچا کرتا تھا کے شاہد کا تلقین شاہ کے گھر میں مستقل رہنا اور استقلال سے تلقین شاہ کی بلاغت سے بھرپور نصیحتیں ، نستعلیقی مغلظات کی آمیزش کے ساتھ سننا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا ۔
پتہ نہیں شاید دوسرے دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں یا اُنکی بےجا تلقین کی وجہ سے میرا مسجد جانے سے میرا مسجد جا کے نماز پڑھنا بلکل ختم ہوگیا ۔
پھر شاہد کی گھر والے بھی کسی اور جگہ منتقل ہوگئے تھے تو سنا ہے کہ تلقین شاہ صاحب نے بریلوی دیو بندی فرقہ بندی کے چکر میں ایک مسجد میں مستقل تالا بھی لگوا دیا تھا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کے اگر وہ ہمیں اصل تلقین شاہ یعنی اشفاق احمد صاحب کی طرح محبت سے سمجھاتے تو پتہ نہیں میری زندگی کا راستہ کچھ اور ہوتا یہ نہیں میں اُنہیں اُن کے اصل نام سے ضرور یاد رکھتا ۔
خدا مرحوم کی مغفرت کرے اور اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور باقی تمام اُن جیسے "تلقین شاہوں " کو بھی پیار ، محبت اور دلیل سے اپنی بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین