(Last Updated On: )
تُرکوں کی بیداری سے متاثر ہو کر علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی معروف نظم ’’ طلوع اسلام‘‘تحریر کی۔ بانگ درا کی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ۳۰ مارچ ۱۹۲۳ء میں پڑھی گئی تھی، اس سلسلے میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ’’طلوع اسلام‘‘آخری طویل نظم ہے جو علامہ محمد اقبالؒ نے انجمن کے جلسے میں خود پڑھ کر سنائی۔بانگ درا کی ترتیب کے وقت، بہت سی دوسری نظموں کے برعکس،اس نظم کو بغیر کسی ترمیم کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔’’خضر راہ‘‘ کے آخری حصے میں اقبال نے مسلمانوں کے روشن اور پر امید مستقبل کی جو نوید سُنائی دی’’طلوعِ اسلام‘‘ اس کا تتمہ ہے۔۱۹۲۳ء کی صورت حال گذشتہ سال کے مقابلے میں حوصلہ افزا اور اطمینان بخش تھی۔
’’تُرکوں کو یونانیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ یہاں تک کی ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے عصمت پاشا کی سرکردگی میںسمر نا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح پر ہندی مسلمانوں نے زبردست خوشیاں منائیں اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے۔ تُرکوں کو مشرقی یونان اور ادرانہ بھی واپس مل گئے۔ایران بھی انقلابی تبدیلیوں کی طرف گامزن تھا۔ مصر سے برطانوی پروٹیکٹوریٹ ختم ہوا اور سعد از غلول پاشا کی قیادت میں مصر نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے مقابلے میں مجاہد ریف عبدالکریم کا پلہ بھاری تھا۔ ہندوستان میں تحریک ترکِ موالات زوروں پر تھی، جس کے متاثرین میں اسی فیصدمسلمان تھے۔ بیداری کی اس لہر نے ہندی مسلمانوں کے جذبات مین زبردست ہل چل مچا دی تھی، غرض یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسلمان ممالک سامراجیت اور غلامی کا جُوااپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لئے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں۔‘‘ (۱)
یہ نظم’’طلوع اسلام‘‘ اس زمانے میں لکھی گئی جب مصطفی کمال پاشا بے سرو سامانی کے باوجود یورپی سازشوں کی زنجیریں توڑ کر تُرکی کو آزاد کرا چکے تھے۔ایران رضا خان پہلوی کی رہنمائی میں زندگی کی نئی کروٹ لے رہا تھا۔افغانستان میں شاہ امان اللہ خان استقلال کی بنیاد پختہ کر چکے تھے۔ مصر میں سعد زاغلول پاشا کی قیادت میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔مغربِ اقصٰی میں غازی محمد بن عبد الکریم ہسپانوی افواج کو شکست دے رہے تھے۔غرض کہ اسلامی دنیا میں زندگی کی امید افزا لہریں دوڑ رہی تھیں۔ ہندوستان کے مسلمان بھی اپنی آزادی،تُرکی کی خلافت کی حفاظت اور عرب کی تطہیر کے لیے ولولہ انگیز قربانیاں دے رہے تھے۔ لہٰذا یہ نظم سراسرحیائے اسلام پر مسرت کے جذبات سے لبریز ہے۔ گویا حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے ملتِ اسلامیہ کی برتری کا جو خواب ۱۹۰۸ء میں دیکھا تھا، اس کی تعبیر کا آغاز ہو چکا تھا۔ آپ کی پیش گوئیاں عملی صورت اختیار کر کے نمودار ہونے لگی تھیں۔
’’علامہ اقبال اس کیفیت سے بے خبر نہ تھے۔’’ طلوع اسلام‘‘ اسی کیفیت کا پرجوش اور فن کارانہ اظہار ہے۔ غلام رسول مہرؔ کے بقول یہ نظم ’’سراسراحیائے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے۔‘‘ (۲)
’’طلوع اسلام‘‘اس ثروت مندی و زرخیزی کا، بانگ درا کی حد تک، سب سے بڑا نشان ہے۔‘‘ (۳)
نظم’’طلوع اسلام‘‘ایک ترانہ سرمدی، ایک نغمہ ٔ اہتزار اور ایک پیغمبرانہ بشارت کی حیثیت رکھتی ہے، پہلے بند کا آغاز کائنات فطرت کے مشاہدے پر مبنی ایک اشارے سے ہوتا ہے، جو بدلے ہوئے حالات سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے۔‘‘ (۴)
(i) حیات نو: دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۶۷)
’’یہی استعاراتی زبان اُن حالات کی تصویر کشی کے سلسلے میں استعمال کی گئی ہے، جنھوں نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ان پر عرصہ زیست تنگ کر دیا تھا، مگر اسی اضطراب اور تہلکہ خیزی نے ان کے اندر حیات نو کے آثار بھی پیدا کیے تھے۔‘‘(۵)
(ii) مسلماں کو مسلماں کر دیا۔۔۔۔۔۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان ِ مغرب نے
تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۶۷)
مسلمانوں کو فطرت کے عطیات کی بشارت دی گئی ہے۔
(iii) جہانِ نو کی نوید:’’آغاز ، عالم اسلام کے موجودہ حالات اور نت نئی رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرے سے ہوتا ہے عالم اسلام پر جنگ عظیم اوّل ( ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کا مثبت اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان طویل خواب سے بیدار ہو رہے ہیں۔ طوفاں مغرب نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ستاروں کی تُنک تابی صبح نو کا پیام دے رہی ہے، احیائے اسلام کے لئے مسلمانوں مین جو تڑپ اور لگن پیدا ہو رہی ہے، اسے دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار پھر اقوام عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوں گئے اور ساری دنیا کی فکری، تہذیبی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ یہ جہاں نو کی نوید ہے۔‘‘ (۶)
سر شک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا!
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۶۸)
یہاں علامہ اقبالؒ عالم اسلام کے عظیم ترین حادثے عرب ترک آویزش کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں:
(۱) عربوں نے ترکوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کیا۔
(۲) باہمی انتشار و افتراق سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔
(۳) وہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہو گئے۔
’’مگر اب تاریخ کے سٹیج پر منظر بدل رہا ہے، اگرچہ اُمت خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہو چکی ہے لیکن اب اس دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت آہ سحر گاہی کی حقیقت اے آگاہ ہو چکی ہے۔ ’’سر شک چشم مسلم ‘‘سے مراد دینی جذبہ و جوش اور احیائے اسلام کے لئے ایک ولولہ ، سوز و تڑپ اور لگن ہے۔‘‘ (۷)
؎ اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۶۸)
’’اقبال ؒکے خیال میں اب مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے، اگرچہ خلافت عثمانی کا خاتمہ ہو گیا مگر تُرک ایک نئے سفر اور نئی منزل کی طرف گامزن ہیں، باہمی اختلافات کے بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔‘‘ (۸)
شاخ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ شاعر نے مسلمانوں کو جہان نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہانِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا، چنانچہ ایک طرف تو اقبال دست بدعا ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں ’’چراغ آرزو‘‘روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصول مقصد کی خاطر سر بکف میدان جہاد میں نکل آئے۔دوسری طرف وہ اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ شاید میری نحیف آواز مُسلمانوں کے لیے بانگِ درا ثابت ہو۔
؎ کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ وبر پیدا
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۶۸)
(iv)کائنات میں مقام مسلم’’شاعر مسلمانوں کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا کر انھیں جہد و عمل پر اکسا رہا ہے، اس لئے وہ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ کائنات میں مقام مسلم کیا ہے؟اول: مسلمان خدا ے لم یزل کا خلیفہ اور نائب ہے اور ان ابراہیمی نسبت کی وجہ سے دنیا کی تہذیب و تعمیر اس کا فریضہ ہے۔دوم: مسلمان کو کائنات میں ’’مقصود فطرت ‘‘ہونے کے سبب جاودانی حیثیت حاصل ہے اس کے جہد عمل کی کوئی انتہا نہیں۔سوم: اللہ نے اسے نیابت الہٰی کے بلند درجے پر فائز کیا ہے تو یہ ایک آزمائش بھی ہے، کائنات کے مختلف النوع امکانات کو بروئے کار لانا اس کے فرائض میں داخل ہے۔چہارم: اس مقام و مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اب اسے نہ صرف ایک ملت کی حیثیت سے اپنی بقا و تحفظ کی فکر کرنی ہے بلکہ ایشیا کی پاسبانی کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔ ‘‘(۹)
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۰)
(v) مسلمان کا کردار۔۔ اہم خصوصیات:مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے ، جن کے تصور سے زمین اور پہاڑ لرز گئے تھے اور انھوں نے خلافت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ مسلمان کو اپنے عمل و کردار میں وہ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنا ہو گی،جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہو گا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لئے صداقت ،عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مگر خلوص عمل اور کردار کی پختگی کے لئے اقبال ؒنے چند اور خصوصیات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی اور ضروری چیز ایمان ہے۔‘‘ (۱۰)
؎ گمان آباد ہستی میں یقیں مردمُسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۰)
؎ جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر۲۷۱)
؎ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں ، نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۱)
؎ یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۲)
اس ایمان و ایقان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان میں کردار کی بعض خوبیاں پیدا ہوں، مسلمان کو اپنے کردار میں زور حیدرؓ، فقرِ بوذر ؓ اور صدق سلمانی ؓ پیدا کرنے کی ضر ورت ہے۔
مٹا یا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدرؓ، فقر بوذر ؓ ،صدق سلمانیؓ
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۰)
دور حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لئے’’ سیرت فولاد‘‘ کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔ مسلمان میں’’پروازشاہینِ قہستانی‘‘ بھی زورِ حیدر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی، کبھی ’’سیلِ تندرَو‘‘ کی ضرورت ہوتی اور کبھی ’’جوئے نغمہ خواں‘‘ کی۔
کوئی اندازہ کر سکتا اس کے زور بازو کا؟
نگاہ مر د مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۱)
یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۲)
اگر مسلمان ذوق یقیں، محبت فاتح عالم اور عمل پیہم کی صفات کو اپنا لے تو پھر’’ ولایت ، بادشاہی اور علم اشیاء کی جہانگیری‘‘ اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔پھر وہ صرف ایک’’ نگاہ‘‘ سے ایک دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکتا ہے، جہاد زندگانی میں مسلمان کی حیثیت نہ صرف یہ کہ فاتح عالم کی ہو گی، بلکہ یہ انگارۂ خاکی، روح الامین کی ہم سری کا دعویٰ بھی کر سکے گا مگر شرط وہی ہے۔
ترجمہ القران: فطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں: ’’حذر اے چیرہ دستیاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔‘‘ (۱۱)
(vi)انسانیت کا مستقبل ، مسلمان:’’مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد اقبالؒ کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے، ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان کا بلبل ہے، اس کا گیت گلستان کے لئے باد
بہاری کا حکم رکھتا ہے، ان کے نزدیک مسلمان کے لئے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابل لحاظ بات نہیں،آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا۔‘‘ (۱۲)
(vii)روشن مستقبل پر اظہار مسرت:’’ترکوں کی فتح عالمِ اسلام کے لئے ایک بہت بڑا سہارا تھی، یوںمعلوم ہوتا تھا، جیسے عالم اسلام انگڑائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔‘‘ (۱۳)
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے
( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۷۳)
بانگ درا میں علامہ محمد اقبالؒ ایک مفکر سے زیادہ فن کار،شاعر اور مصور نظر آتے ہیں۔’’طلوع اسلام‘‘بانگ درا کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں اقبالؒ کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اورعام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفا ہیم و معانی کے حامل ہیں۔
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے پہلے بند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں یہ حقیقت بیان فرماتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے مصائب کی رات ختم ہوگئی اور صبح نمودار ہوگئی ہے۔مشرق کی سرزمین جاگ اُٹھی ہے۔یورپ کی یورشوں نے مسلمانوں میں زیست کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ بے سروسامانی کے باوجود مُسلمان ہر جگہ کامیاب و کامران ہورہے ہیں۔ گویا اسلام کے مقدر کا اختر اوجِ ثریا پر بلند ہو کر چمک رہا ہے۔ یورپ سے اسلامی ملکوں کی فتح و تسخیر کا جو طوفان برپا تھا اس نے اُمت مسلمہ میں اپنی حفاظت کا خاص جوش و ولولہ پیدا کر دیا اور صحیح معنوں میں مُسلمان بن گے۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی( طلوع اسلام، کلیات اقبال، صفحہ نمبر ۲۶۷)
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے دُوسرے بند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں یہ حقیقت بیان فرماتے ہیں کہ ملّت اسلامیہ کے مصائب کی رات ختم ہوگئی اور صُبح نمودار ہوگئی ہے۔ہماری بہادر اور دلیراقوام (ایرانی، ترک اور افغانی) اب خوابِ غفلت سے بیدارہو چکی ہیں۔ اب ملتِ بیضا ایک
پلیٹ فارم پر اکھٹی ہو چکی ہے،یعنی رسولِ اکرمﷺ کی اُمت مسلمہ سے پھر سے پُر عزم اور حوصلہ مند لوگ بیدار ہورہے ہیں۔علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں کہ تُرکوں پر جو مصیبتیں نازل ہوئی ہیں، ہمیں اُن کا ماتم نہیں کرنا چاہیے،کیوں کہ مُصیبتیں اُٹھانے کے بعد ہی راحت و کشائش کا دور آتا ہے۔دنیا پر ُ حکمرانی اتنی مشکل نہیں ،جتنا زندگی کی حقیقتوں کو پہچاننا مشکل ہے۔
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا!
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے تیسرے بند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں یہ حقیقت بیان فرماتے ہیں کہ اس کا درجہ کتنا بلند ہے اور اس کے فرائض کس قدر عظیم الشان ہیں۔ اسلامی امہ ہی دراصل اقوامِ ایشیا کی محافظ ہے۔اب مسلمانوں کو پھر صداقت،عدالت اور شجاعت کا پیکر بن جانا چاہیے،اس لیے کہ دُنیا کی امامت قدرت اسی کے حوالے کر رہی ہے۔ملت اسلام کی تاریخ سے یہ بنیادی نکتہ آشکارا ہوتا ہے کہ ایشیا کی سر زمین میں جتنی قومیں آباد ہیں۔ ان کی حفاظت کرنے والا مسلمان کے سوا کوئی نہیں۔
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے چوتھے بند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں اُمت مسلمہ کے اوصاف و خصائص بیان فرماتے ہیں۔ مثلاََ اخوت اور محبت۔رنگ و نسل سے بے پرواہ ہوکر یہ فرزندانِ توحید کے ضامن ہیں۔ان میں زورِ حیدری یعنی حضرت علی ؓ کا زور ہے۔ان میں ابو ذر غفاری ؓکا فقر ہے۔ان میں حضرت سلمان فارسی ؓکا صدق ہے۔اسی لیے ان میں بلند ہمتی اور یقین کامل ہے۔ان ہی جملہ امتیازی خصوصیات کی بناء پر ترک مسلمان ہونے کی وجہ سے جرمنوں سے زیادہ مضبوط اور پائدار نکلے۔اقبالؒ نے اسلام کی پیروی میں دُنیا بھر کو اخوت اور محبت کا پیغام دیا۔
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی، نہ ایرانی ، نہ افغانی
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے پانچویں بند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں مسلم اُمہ کو پستی سے نکلنے کے لیے تدابیر بیان فرماتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سازو سامان اور تدابیر کی اتنی ضرورت نہیں کہ جتنی کامل یقین کی ضرور ت پڑتی ہے۔ دنیا کی تمام بلند حیثییتیں صرف ایمان کی تفسیریں ہیں۔آقا و غلام کے امتیازات مِٹ جانے چاہئیے۔مُسلمان کا فرض ہے کہ لگا تار عمل ،پختہ ایمان اور عالمگیر محبت کو اپنا نصب العین بنا لے
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے چھٹے بند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میںجرمنوں اور ترکوں کا موازنہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کی برکت سے ترک بے سرو سامانی کے باوجود جرمنوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے اور یقین و ایمان ہی ملت کی تعمیر کا سامان ہے۔
یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے ساتویںبند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں مسلمانوں کو ضروری اسلامی اوصاف تعلیم فرمارہے ہیں ۔ضمناََ یہ حقیقت بھی واضح فرمارہے ہیں کہ یورپی تہذیب باقی نہیں رہ سکتی، اس لیے کہ اس کی بنیاد سرمایہ درانہ نظام پر رکھی گئی ہے۔ اسلام گلستانِ عالم کے لیے بہار کا حکم رکھتا ہے۔ایشیا میں ترکوں نے اسلام کی برکتوں سے فائدہ اٹھا کر حیرت انگیز کامیابی حاصل کر لی۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے آٹھویںبند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں مسلمانوں سے مخاطب ہو کر اپنے کہتے ہیں کہ سرمایہ داروں اور حکمرانوں نے اپنے اغراض کے لیے انسانون کو نشانہ ستم بنا رکھا ہے۔ یورپ نے ساہنس اورعلوم میں جو کمال حاصل کیا اس سے کیا کام لیا؟ یہ کہ ایک دُوسرے کو برباد کرنے کے لیے نہایت خوفناک جنگی ہتھیار بنالیے،ان ہتھیارون سے انسانوں کا کتنا خون بہا؟انسانی زندگی عمل کی بدولت بہشت بنتی ہے اور دوزخ بھی۔
نظم ’’طلوع اسلام‘‘کے نویںبند میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے منفرد لب و لہجے میں مسلمانوں سے مخاطب ہو کر اپنے کہتے ہیں ملت اسلامیہ کے احیاء پر جوش مسر ت کا اظہار کیا گیا ہے اور ضمناََ اُمت مسلمہ کو ان کے اصل مقاصد و فرائض کی توجہ مبذول کرائی ہے۔
معروف نقاد کلیم الدین احمد کے الفاظ میں:۔
’’ اقبال کا مخصوص رنگ(طلوع اسلام کے)ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔ خیالات کا فلسفیانہ عمق،ان کی صداقت بے پناہ،طرزِ ادا کی شان و شوکت۔۔۔۔۔ہر شعر مئوثر ہے۱س کا اثر جوش آور ہے۔ دل مُردہ میں رُوحِ زندگی دوڑ جاتی ہے اور ترقی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے، خصوصاََ نوجوان قارئین تو بے چین ہو جاتے ہیں‘‘۔
علامہ اقبالؒ کی اس نظمـ" طلوع اسلام" میں ہمارے لیے پیغام ہی پیغام ہے۔ اس نظم میں اسلامیت کے احیاء پر مسرت و شادمانی کی ترجمانی کی گئی ہے، ترکوں کی بیداری اور ترقی کی طرف گامزن ہونے کی نشاندہی کر کے مسلمانوں کو بھی فکر وعمل کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ وہ پھر سے صداقت، عدالت اور شجاعت کا عملی پیکر بن جائیں۔ اس لئے کہ د نیا کی امامت قدرت الہی کے حوالے کر رہی ہیے۔اُخوت، محبت اور رنگ و نسل کے فرق کے بغیر فرزندان توحید کا اتحاد یقین کامل ہونا چاہئیے، تاکہ فتح و نصرت ان ہی کا مقدر ہو، اسلام دین کامل ہے اور اس کے احیاء میں ہی ملت اسلامیہ کی بقاء ہے اور کامیابی مقدر ہے۔
حواشی
(۱) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص : ۱۳۴،۱۳۵
(۲) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص : ۱۳۵
(۳) عبدالمغنی، ڈاکٹر، اقبال کا نظام فن( لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۸۵ء) ص: ۲۶۴
(۴) اسلوب احمد انصاری، پروفیسر، اقبال کی تیرہ نظمیں( لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۷ء) ص: ۹۱
(۵)اسلوب احمد انصاری، پروفیسر، اقبال کی تیرہ نظمیں( لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۷ء) ص: ۹۲
(۶) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۳۶
(۷) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۳۶
(۸) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۳۶
(۹) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۳۸
(۱۰) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۳۹
(۱۱) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۴۰
(۱۲) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص: ۱۴۳
(۱۳) رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں ( لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء) ص:۱۴۳