’’تلخیاں‘‘
ساحر لدھیانوی نے کمرے کی اونچی چھت اور پرانی کھڑکیوں کو دیکھ کر کہا۔ ’’یہ تو مجھے کوئی بھوت گھر لگتا ہے ۔‘‘ ابن انشاء نے اپنے موٹے شیشے والی عینک کے پیچھے آنکھیں گھما کر کہا۔ ’’اب اس میں بھوت ہی رہیں گے۔‘‘ ابن انشاء اور ساحر لدھیانوی کے یہ ریمارکس اس عمارت کے بارے میں تھے جو ایبٹ روڈ پر نشاط سینما کے بالکل سامنے واقع ہے۔ ان دنوں یہ ایک ویران اجڑی ہوئی سرخ عمارت تھی۔ جس کا ذکر ہمیں آج بھی آرتھر کانن ڈائل اور ایڈگر ایلن پوکی پراسرار کہانیوں میں ملتا ہے۔ پاکستان کو بنے بمشکل چھ سات مہینے ہوئے ہوں گے۔ گوالمنڈی میں ہندو سکھوں کے مکان بھی خالی پڑے تھے۔ تھانہ گوالمنڈی کے سامنے والے مکان کی ایک ادھیڑ عمر کی ہندو عورت نے اپنا مکان نہیں چھوڑا تھا۔ وہ کھڑکی میں بیٹھی آتے جاتے لوگوں کو مخاطب کرکے کہتی۔ ’’میں نہیں جائوں گی۔ لوگ چلے گئے ہیں تو جاتے رہیں۔ ‘‘ اس کے باقی گھروالے ہندوستان جاچکے تھے۔ خداجانے اس عورت کا بعد میں کیا حشر ہوا۔ اسی طرح ایک ادھیڑ عمر کے ہندو میاں بیوی کو میں نے سوتر منڈی لاہور میں بھی دیکھا۔ چوک سوتر منڈی سے جو گلی بازار شیشہ موتی کو مڑتی ہے اس کی نکڑ پر اس ادھیڑ عمر ہندو کی دکان تھی۔ وہ سر پر گول ہندوانہ ٹوپی رکھے، صندوقچی کے آگے بیٹھا مسلمان مریضوں کو دوائی دیتا۔ اس کی بیوی دکان کے اندر صف پر بیٹھی ہوتی۔ یہ ہندو جوڑا بعد میں دکھائی نہ دیا۔ رائل پارک کی بلڈنگیں بھی سنسان تھیں۔ صرف لکشمی بلڈنگ کے نچلے حصے میں کچھ مہاجر آباد ہوئے تھے۔ رائل پارک کی گلیاں کچی تھیں اور چوک میں ایک طرف لکڑی کا شہتیروں کا ڈھیر لگا تھا۔ کبھی کبھی میں اور احمد راہی ان شہتیروں پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتے۔ پھر احمد راہی، عارف عبدالمتین کے ساتھ فکر تونسوی کو نکالنے تونسہ شریف چلا گیا۔ اس دوران میں ساحر لدھیانوی اور میں نے رائل پارک کی ایک بلڈنگ کی پہلی منزل پر قبضہ کرلیا۔ بعد میں اس منزل میں قتیل شفائی آگیا تھا۔ فکر تونسوی آگیا۔ دبلا پتلا، باریک آنکھوں والا ذہین نوجوان، جسے تونسہ شریف سے چلے آنے کا افسوس تھا۔ ’’ادب لطیف‘‘ کی ایڈیٹری کا زمانہ اس نے ہمارے ساتھ اسی منزل میں گزارا۔ بس ایک ڈرائنگ روم اور ایک چھوٹا ساکمرہ تھا۔ سامان وہاں سوائے ایک صوفہ سیٹ اور پلنگ کے کوئی نہ تھا۔ کارنس پر ایک کانسی کا بڑا سا پیالہ پڑارہ گیا تھا۔ اس پیالے میں ہم باری باری پانی پیا کرتے تھے۔ ابن انشا ایک روز وہاں آیا تو اس پیالے کو دیکھ کر کہنے لگا۔ ’’ارے یہ تو وہی پیالہ ہے جس میں سقراط نے زہر پیا تھا۔‘‘ رات کو فکرتونسوی صوفے پر، عارف عبدالمتین اور ساحر لدھیانوی زمین پر اور میں اور احمد راہی پلنگ پر سورہتے۔ ہماری جیبیں اکثر خالی رہتی تھیں۔ کبھی دوچار روپے ہوتے اور کبھی کچھ بھی نہ ہوتا۔ غزل کا معاوضہ پانچ روپے اور کہانی افسانے کا معاوضہ مجھے پندرہ اور پچیس روپے کے درمیان ملتا تھا۔ اس سے کچھ روز گزر بسر ہوتی اور پھر وہی فاقہ مستی شروع ہوجاتی۔ ہمارے پبلشرز وہ تھے جنہوں نے اس ملک میں اعلیٰ ترین معیاری طباعت اور کلاسیکل ادبی روایات کی بنیاد رکھی۔ احمد راہی اور فکر تونسوی ادب لطیف کے ایڈیٹر تھے۔ بعدمیں راہی ’’سویرا‘‘ کا ایڈیٹر بن گیا تھا۔ ساحر لدھیانوی کی ’’تلخیاں ‘‘ شائع ہوچکی تھی اور بے حد مقبول ہوئی تھی مگر پبلشر سے پیسے اسے توڑ توڑ کر ملتے تھے۔ ایک روز میں اور ساحر لدھیانوی ’’سویرا‘‘ کے دفتر گئے۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ پبلشر سے قسط کے پیسے لے کر انارکلی کے ہوٹل ممتاز میں چائے پیسٹری اڑائیں گے۔ ان دنوں ہماری سب سے بڑی عیاشی یہی ہوا کرتی تھی یا زیادہ سے زیادہ کوئی فلم دیکھ لی اور کپڑے بنوالیے۔ اسی پبلشر نے میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’منزل منزل‘‘ بھی شائع کیا تھا اور کچھ پیسے میرے بھی رہتے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں بھی کچھ پیسے وصول کرلوں گا۔ ’’سویرا‘‘ کا دفتر ان دونوں بھی لوہاری کے باہر تھا۔ چودھری نذیر احمد بڑے باغ و بہار اور علم دوست پبلشر تھے اور ہم سے بڑی محبت اور شفقت کا برتائو کرتے۔ میں اور ساحر ’’سویرا‘‘ کے دفتر میں آئے تو چودھری صاحب میز پر جھکے پوسٹ کارڈ لکھ رہے تھے۔ ہم نے سلام کیا۔ انہوں نے سراٹھا کر ہمیں دیکھا۔ ذرا مسکرائے اور کارڈ لکھنے میں محو ہوگئے۔ چہرے پر خاص مسکراہٹ ابھی تک ویسی ہی تھی ۔ ساحر ڈرپوک تھا۔ اس میں جرأت رندانہ کا فقدان تھا۔ اب ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے باتیں کررہے تھے۔ میں نے ساحر سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا۔ ’’چلو مانگو اپنی کتاب ’’تلخیاں ‘‘ کے باقی پیسے؟‘‘ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے جواب دیا۔ ’’تم کیوں نہیں مانگتے اپنے افسانے کے بقایا پیسے ؟‘‘ میرے پیسے زیادہ نہیں تھے کیونکہ چودھری نذیر صاحب نے میرے پیسے کبھی نہیں رکھے تھے اور ہمیشہ مجھے میرا معاوضہ دو تین قسطوں میں ادا کردیا کرتے تھے۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا کہ میرے کچھ پیسے ان کی طرف رہ جائیں۔ اتنا مجھے یقین تھا کہ ساحر لدھیانوی پیسوں کا تقاضا نہیں کرے گااور پہاڑکاٹ کر جوئے شیر مجھے ہی نکالنی پڑے گی۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں چودھری صاحب کے قریب جاکر جھٹ کہہ دیا۔ ’’چودھری صاحب ! پیسوں کی ضرورت آن پڑی ہے۔‘‘ ’’خیر تو ہے …کیا ضرورت پڑ گئی تم لوگوں کو ؟‘‘ چودھری صاحب نے ہمیں سارے پیسے دے دیئے۔ ہم ممتاز ہوٹل آگئے۔ ہوٹل میں ریکارڈنگ ہورہی تھی۔ لتا منگیشکر ، بیمنٹ کمار، جگموہن ، طلعت محمود، رفیع اور گیتا رائے کے ریکارڈ بج رہے تھے۔ ہم دیوار کے ساتھ لگی ایک میز کے پاس کرسیوں پر جاکر بیٹھ گئے اور مزے سے چائے پیتے اور میوزک سنتے رہے۔
اے حمید (’’گلستانِ ادب کی سنہری یادیں‘‘)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔