تخیل کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر سوار تاریک گھپ اندھیر راہوں سے ہوتا ہوا میں اب ایک چھوٹے سے میدان کے سامنے موجود تھا جس میں ایک سفید خیمہ لگا ہوا تھا خیمے میں روشنی تھی اور اس روشنی میں اندر موجود دو افراد کے سائے مسلسل حرکت میں تھے جیسے کسی کا بے چینی سے انتظار کررہے ہوں میں باہر موجو پہرے داروں کو سلام کرکے خیمہ کے اندر داخل ہوگیا مجھے دیکھتے ہی سردار امیر حمزہ کے چہرے پر پریشانی نمایاں ہوگئی اُنھوں نے میری طرف دیکھ کر پوچھا بتاؤ ہم تمھاری کیا مدد کرسکتے ہیں میں نے عاجزانہ انداز میں نظریں جھکا کر عرض کیا سردار مملکت خداداد میں ہم پر ایک بلاء نازل ہوگئی ہے جو ہمارے معصوم جوانوں کو اُٹھا لے جاتی ہے اور جو بھی اس بلاء کو جوانوں کو اُٹھاتے ہوئے دیکھ لیتا ہے وہ ایک طلسم کے زیر اثر گونگا بہرہ ہوجاتا ہے
سردار کے چہرے پر اب پریشانی نمایاں تھی اُس نے سوالیہ نظروں سے خیمے میں موجود دوسرے شخص کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ ہم اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں دوسرے شخص “جو عمرہ عیار تھا “نے اپنی زنبیل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں ایک سلیمانی چادر موجود تھی اس نے وہ چادر مجھے تھماتے ہوا کہا ممکن ہے اس سے تمھاری کچھ مدد ہوسکے تم جب بھی یہ چادر اوڑھو گے تو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤ گے اس طرح بلاء کے طلسم سے بچ کر تم جوانوں کا سراغ لگا سکتے ہو یہ تحفہ لیتے ہی میں نے دونوں کو سلام کیا اور جلدی سے اُنھی تاریک راہوں سے واپس اپنے ملک قلعہ امن پہنچ گیا کیونکہ میں جلد از جلد اس بلاء سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ مملکت خداداد پھر سے امن کا گہوارہ بن جائے اور اس کے گلستان میں ہر رنگ و نسل کے پھول مہکیں جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے سوچا تھا
تاریکی نے اپنے پاؤں مزید پھیلا دیے تھے میں نے چادر اُوڑھی اور خاموشی سے پہرے داروں کے سامنے سے شہر میں داخل ہوگیا ابھی مجھے سنسان سڑک پر چلتuے ہوئے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ میں نے ایک شور سنا جیسے بہت سے کتے مل کر بھونک رہے ہوں میں سڑک کنارے ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا میں کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ بونے نما لوگ ہیں جن کے شناسا چہروں سے نحوست ٹپک رہی تھی اُن کے ہاتھوں میں خون سے لتھڑی تلواریں ہیں اُن کے سامنے کچھ لوگوں موجود ہیں جو آہ و زاری کررہے ہیں کہ وہ محب وطن ہیں لیکن یہ منحوس بونے اُن کے سر تن سے جدا کردیتے ہیں اور سروں کو ہوا میں لہراتے ہوئے نعرہ بلند کرتے ہیں کہ وطن سے محبت کا تعین ہم کریں گے اور جو ہمارے معیار پر پورا نہی اُترے گا اُس کا سر تن سے جدا ہوگا اس نعرے کے جواب میں اُن کے پیچھے موجود کتے اتنے زور سے بھونکتے ہیں کہ الامان الحفیظ جب ان کے بھونکنے کی آوازوں پر غور کیا تو ایسا لگا جیسے یہ سب گالم گلوچ کررہے ہیں جس سے سماعتوں کے ساتھ ساتھ روح میں بھی چھید ہورہے تھے
میں وہاں سے سرپٹ دوڑا اور دوڑتا دوڑتا شہر کے مشہور و معروف چوراہے میں پہنچ گیا دن کی روشنی میں یہاں کیسی چہل پہل ہوتی ہے اور لوگ ان ہواؤں سے کیسے زندگی نچوڑتے ہیں لیکن رات کے اس پہر یہاں ہو کا عالم تھا اور ہواؤں میں ایک وحشت کا احساس تھا ابھی میں ان خیالوں میں مگن تھا کہ ایک جانب سے روشنیوں کی قطار آتی نظر آئی میں وہیں سڑک کنارے چادر اوڑھ کر بیٹھ گیا میرے سامنے میز اور کرسیاں ایسے رکھی گئیں جیسے کسی قاضی کی عدالت میں رکھی ہوں ایک جانب کٹہرا بنایا گیا میں خاموش اور حیران سب دیکھ رہا تھا کہ ایک جانب اندھیرے سے بہت سے چوہے نما انسان ظاہر ہونا شروع ہوئے اُن کے آگے چند لوگ پنجروں میں بند گھسیٹے جارہے تھے یہ قیدی بہت لاغر اور کمزور تھے اور ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئیں تھیں اور ان آنکھوں میں اُن کے ادھورے خواب تعبیروں کے انتظار میں لٹک رہے تھے چوہے نما انسانوں کا ہجوم ان قیدیوں کی موت کا مطالبہ کررہا تھا میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی جب میں نے دیکھا کہ قاضی تو پتھر بن چکے ہیں میں ابھی اس کشمکش سے باہر نہی نکلا تھا یا خدا یہ کیا ماجرہ ہے کہ ہجوم نے خوشی کے نعرے بلند کیے کہ فیصلہ اُن کے حق میں ہوگیا ہے اُسی وقت ان تمام قیدیوں کو اُنھی کے خوابوں سے پھندا لگا کر موت کے حوالے کردیا گیا میں نے ان چوہے نما انسانوں کے چہروں پر غور کیا تو یہ سب لوگ تو وہ تھے جو روز میرے ساتھ رہتے ،کھاتے ،کام کرتے تھے تو کیا یہ اُس بلاء کا طلسم تھا جس کے زیر اثر ہمارے اپنے لوگ ہی معصوم لوگوں کو موت کی نیند سلا رہے تھے
جیسے ہی ہجوم چھٹا میں بھی آہستہ آہستہ پُرانی عبادت گاہ کی جانب چل پڑا جہاں مشہور تھا کہ اُس کے سامنے لعنتی جادوگر لوگوں کو اپنے بس میں کرنے کے لیے انسانوں کی بلی دیتے تھے مجھے دور سے عبادت گاہ کے سامنے غیر معمولی ہل چل محسوس ہوئی میں نے چادر اُڑھ لی اور دیکھنے لگا کہ کیا ہورہا ہے میرے سامنے سے چند لعنتی جادوگر نوجوانوں کو لے کر گئے جو چہرے سے پڑھے لکھے معلوم ہوتے تھے اور اپنے حقوق کے لیے نعرے بلند کررہے تھے ان جادوگروں نے عبادت گاہ کی سیڑھیوں پر ان نوجوانوں کو ذبح کردیا اُن کے جسم زمین میں دھنس گئے اور خون بہتا ہوا میرے پاؤں تک آگیا خون سے آواز آئی کیا ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے کبھی انصاف پا سکیں گے مجھ پر خوف سے کپکپی طاری ہوگئی
فجر کی آذان سے میری آنکھ کھل گئی میرا جسم پسینے سے شرابور تھا اُٹھ کر نماز ادا کی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ حقیقت نہی خواب تھا لیکن صبح کے ناشتہ پر اخبار پر نظر پڑی تو سب چہرے میرے سامنے تھے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...