اب پوری طرح یاد نہیں کہ 2005 تھا یا 2006 جب طالبان کے بارے میں میرا یہ کالم نوائے وقت کے لوکل ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔ آج منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا معاملہ سامنے آیا ہے تو اپنی پرانی تحریر یاد آ گئی۔ تجزیے کی ناپختگی سے صرف نظر کیجئے گا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایڈہاک بنیادوں پر سارا نظام چل رہا ہے۔ ایک اور مسئلہ سر اٹھا رہا ہے اور ہم اسے حل کرنے کی بجائے سازشوں کی بو/خوشبو سونگھ رہے ہیں۔
******************************
طالبان کیا ہیں؟
طالبان کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں دے رہے ہیں۔ کوئی اسے افغانستان میں غیرملکی افواج کی موجودگی کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے، کوئی اسے ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کے تناظر میں دیکھ رہا ہے، کسی کا خیال ہے کہ یہ عدالتوں میں ہونے والی نا انصافی کا ردعمل ہے۔ اسی طرح ایک مختصر طبقہ وہ ہے جو اسے پاکستانی معاشرے پر اسلامی قوانین نافذ نہ کرنے کا نتیجہ سمجھ رہا ہے۔ ان تمام نقطہ ہائے نظر میں جزوی سچائی موجود ہے مگر کچھ اہم پہلو ابھی تک تشنہ ہیں۔ اور چونکہ طالبان ایک بہت بڑے طوفان سے پہلے چلنے والی ہواؤں سے مماثلت رکھتے ہیں اس لئے ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا سماج اس وقت بنیادی تبدیلیوں کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔ اس پکی ہوئی فصل کو کاٹنے کے لئے مختلف طبقے اپنی درانتیاں سنبھالے تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت کونسا طبقہ، رہنما یا جماعت اس مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے، یہ ایک کھلا سوال ہے۔ اب یا تو اس فصل کو ایک اجتماعی کاوش کے تحت کاٹ لیا جائے گا یا پھر بے ہنگم طریقے سے اس فصل کو لوٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ گویا ایک رستہ جمہوری اور پرامن تبدیلی کا ہے اور دوسرا رستہ انقلاب کا ہے۔ سردست پرامن رستے سے صرف نظر کرتے ہوئے انقلابی رستے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کا آغاز و افزائش اس ضمن میں پہلا پتھر ہے ۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اسے انقلاب کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس میں تین ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا وجود ہر انقلاب کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
1- اس میں حکمران طبقے کو سب سے پہلے قتل کیا گیا۔ حکمران طبقے میں علاقائی سردار، جرگہ کے معززین اور مقامی سیاسی رہنما شامل ہیں۔ ان رہنماؤں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر وہ خوفزدہ ہو کر علاقہ چھوڑ گئے۔ یہ ایسا مظہر ہے جو ہر خونی انقلاب میں پایا جاتا ہے۔
2- اس میں قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو ناکام کر دیا گیا۔ پولیس و دیگر سول اداروں کو دھیرے دھیرے پیچھے دھکیل کر ان کی عملداری مفلوج کر دی گئی۔
3- صدیوں سے قائم سماجی اداروں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ قبائلی علاقوں میں موجود ایک مضبوط جرگہ سسٹم کو عملاً ناکارہ کر دیا گیا۔ اسی طرح پختون ولی کے تحت جو روایات طویل عرصے سے ان علاقوں میں کارفرما تھیں ان سب کو بے اثر کر دیا گیا۔
4- ایک جغرافیائی علاقے کو مرکز بنانے کی کوشش کی گئی جہاں پر اپنی عملداری قائم کر کے طالبان اپنی تحریک کو دیگر علاقوں میں پھیلا سکتے تھے۔
جہاں تک اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا تعلق ہے تو اس کے مختلف پہلو ایسے ہیں جو ایک کامیاب انقلاب کی شرائط پر پورا نہیں اترتے ۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ تحریک ناکامی کا منہ دیکھے گی۔ اگرچہ مکمل طور پر ختم ہونے سے پہلے یہ پورے ملک کو اور معاشرے کو ہلا کر رکھ دے گی۔ اوراس کے اختتام کو بھی طویل عرصہ لگ جائے گا۔ اس ضمن میں معاشرے کو بہت سے وسائل اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر حکمران طبقہ نے خاک و خون کے اس سمندر سے تجربات کے موتی نہ نکالے تو پھر اگلا انقلاب اس طبقے کے وجود کو مکمل طور پر مٹا دے گا۔
طالبان کی جدوجہد میں چند بنیادی عوامل ایسے ہیں جو ایک کامیاب انقلاب کی شرائط کی نفی کرتے ہیں۔
1- کسی بھی انقلاب کا ہراول دستہ اصل میں اس قوم میں موجود دانشور ہوتے ہیں جو اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین تج کر اپنی روح میں تھرکتے جدید افکار قوم کے سامنے لاتے ہیں۔ جب معاشرے کے مختلف ادارے اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہوتے ہیں تو پھر روح عصر ہر روز منادی کرتی ہے کہ یہ سماج بوڑھاپے کی چادر میں لپٹا یخ بستہ ہواؤں کی لپیٹ میں ہے اسے نئے افکار کا پیرہن اوڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ منادی ہر شخص نہیں سن سکتا بلکہ فقط وہی لوگ ہی اس کی سماعت کی قوت رکھتے ہیں جنہوں نے درد دل کی دولت بھی پائی ہو اور جنہوں نے علم و عقل کے ان ذخیروں تک رسائی بھی حاصل کی ہو، جو انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں۔ طالبان کے پاس ایسا کوئی گروہ نہیں ہے جو وقت کی پکار کو سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ان کی عقلی رہنمائی وہ لوگ کر رہے ہیں جو وقت کے طاقتور دھارے کے خلاف تیر کر ایک ایسے رومانوی انقلاب کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں جس میں فرسودہ قبائیلی رسوم و رواج اور صدیوں پرانا فہم دین شامل ہے۔لیکن وقت کا تیز دھارا نہ ہی خود واپس پلٹتا ہے اور نہ ہی کسی کو مراجعت کی اجازت دیتا ہے۔
2- کامیاب تبدیلی کے لئے جو لوگ سیاسی رہنمائی کرتے ہیں انہیں بھی عصری تقاضوں، خطے کی صورتحال سے مکمل آگہی ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات ان تقاضوں کی تفہیم ہے جن پر پوری دنیا میں ایک عمومی اتفاق پایا جاتا ہے۔ طالبان ان تمام ضروریات سے تقریباً نا بلد ہیں اور پوری دنیا کا عمومی اتفاق جن معاملات پر موجود ہے ، طالبان کی فکر اور عمل دونوں ان سے متصادم ہیں۔ یہ بھی ان کی متوقع ناکامی کا ایک اور سبب ہے۔
3- کسی بھی انقلاب کی کامیابی کے لئے ایک لازمی شرط ہے کہ اس میں عوام کی مسلسل شمولیت کا عمل جاری رہے۔ شروع میں انقلابی نظریہ چند سر پھرے افراد کے پاس ہوتا ہے جو اپنے خلوص لگن اور قربانی کے ذریعے دیگر افراد کو اپنے دائرہ اثر میں لاتے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انقلاب کے عروج کا دور آتا ہے جب عوام کی روح میں یہ جذبہ اسقدر سرایت کر جاتا ہے کہ ان کا ایک کثیر طبقہ قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ طالبان کے معاملے میں عوام پر ناروا تشدد اور جبر کی اسقدر بہتات تھی کہ ان کے نظریات سے متفق افراد بھی ان سے خوفزدہ تھے۔ اور جہاں خوف آ جائے وہاں انسانی ضمیر کی حریت لازمی احتجاج کرتی ہے۔ اور لوگوں کے دل و دماغ جیتنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ جبر کی فضا انقلاب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ البتہ جب انقلابی جماعت کو کامیابی حاصل ہو جائے اور اقتدار پر ان کا قبضہ ہو جائے تو پھر اس کے ثمرات کو قائم رکھنے اور مخالف قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جبر کا ہتھیار ضروری ہو جاتا ہے۔
اس مختصر سی بحث کے تین نتائج فطری طور پر سامنے آتے ہیں۔ اول تو یہ کہ طالبان کا ظہور معاشرے میں موجود سماجی، سیاسی اور معاشی ناہمواریوں کے خلاف پسے ہوئے طبقات کا احتجاج ہے۔ دوسرے اس جدوجہد میں چند ایسے خلا موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ تیسرے یہ کہ اگرچہ یہ ایک ناکام انقلاب ہو گا لیکن اس کا اختتام ایسی خونریزی اور سماجی کرب کا باعث بنے گا کہ اس سے ہمارے پورے معاشرے کا ڈھانچہ ہل کر رہ جائے گا۔ اور اگر ملک کو باقی رکھنا ہے تو نئی سیاسی، سماجی اور معاشی بنیادیں استوار کرنا پڑیں گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“