فرید صاحب انتہائی ایماندار انسان ہیں‘ میں 25 سال سے انہیں جانتا ہوں‘ ٹھیکیدا ر ہیں اورایک نمبر کا کام کرتے ہیں۔نمازی پرہیزی بھی ہیں ۔ حلال رزق کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں لیکن پتا نہیںکیا وجہ ہے کہ آج تک وہ خوشحال زندگی کے لیے ترستے ہی پھر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ دونمبر ی نہیں کر سکتے اس لیے کامیاب بھی نہیں ہوپارہے۔ لیکن مجھے ان سے اختلاف ہے کیونکہ میں ایک اور صاحب کو جانتا ہوں جو ہر کام میں دونمبری کرتے ہیں‘ فراڈ کرنا ان کی عادت بن چکی ہے‘ جھوٹ اور دغا بازی ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے‘ اس کے باوجود وہ بھی آسودگی سے محروم ہیں۔ آپ کا اگر کبھی کسی چور ڈاکو سے سامنا ہوا ہو تو آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ان کی حالت ہمیشہ خراب ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کئی لوگ ایمانداری سے کام کرنے کے باوجود اپنی معاشی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لاپاتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوشحالی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ جواب بڑا آسان ہے۔ ٹیلنٹ ہر کام میں ضروری ہے۔ اگر آپ محض ایماندار اور نیک ہیں اور آپ میں کاروبار کرنے کا ٹیلنٹ موجود نہیں تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آپ جوں کے توں ہی رہیں گے۔ یہی کلیہ دونمبرلوگوں پر بھی فٹ آتا ہے۔ ایسے دو نمبر لوگ بھرے پڑے ہیںجو دن رات چوری چکاری میں مصروف رہتے ہیں اس کے باوجود ڈھنگ کی زندگی نہیں گذار سکتے۔وہ حکایت تو آپ نے سنی ہوگی کہ ایک دفعہ ایک چور اپنے بیٹے کے ہمرا ہ ایک گلی سے گذر رہا تھا‘ سامنے مکان کی طرف اشارہ کرکے فخر سے بولا'بیٹا وہ مکان جہاں لائٹ جل رہی ہے وہاں میں نے تین دفعہ چوری کی ہے‘۔ بیٹے کے منہ سے بے اختیار نکلا' ابا ! وہاں آپ نے تین دفعہ چوری کی لیکن اُن کی لائٹ پھر بھی جل رہی ہے اور ہمارے گھر میں بلب تک نہیں‘۔
ٹیلنٹ بہت کائونٹ کرتاہے۔ ٹیلنٹ سے مراد دونمبری نہیں بلکہ اپنے کام سے مکمل آگاہی اور اسے باقی لوگوں سے بہتر طریقے سے سرانجام دینا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں تصور کر لیا گیا ہے کہ ایمانداری سے صرف زندہ رہنے جتنا رزق کمایا جاسکتا ہے لہٰذا ہم ہر اس شخص کو لٹیرا سمجھنے لگتے ہیں جس کے پاس ہم سے زیادہ سرمایہ ہوتاہے۔ایک نمبر طریقے سے پیسہ کمانا کوئی مشکل کام نہیں لیکن شرط وہی ہے کہ ٹیلنٹ ہونا چاہیے۔اس کا عملی تجربہ مجھے رشید صاحب سے ہوا۔ رشید صاحب مختلف سٹورز پر انڈے سپلائی کرتے تھے‘ کبھی ذخیرہ اندوزی نہیں کی اور کبھی مارکیٹ سے زیادہ ریٹ نہیں لگایا۔انہیں محسوس ہوا کہ انڈوں کی ضرورت تو ہر دوکاندار کو ہوتی ہے اور ہر دوکاندار کے پاس انڈے سپلائی کرنے والوں کی لائن لگی ہوتی ہے تو کیوں نہ کچھ مختلف کیا جائے۔ انہوں نے ایک عجیب حل نکالا۔ ایک درجن میں بارہ انڈے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے ایک درجن میں 13 انڈے مہیا کرنے شروع کر دیے۔ دوکانداروں کے لیے یہ اچھی سکیم تھی۔ جو دوکاندار مارکیٹ کے لحاظ سے بارہ درجن انڈے خریدتا اسے بارہ انڈے مفت میں ساتھ مل جاتے۔ رشید کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں نے اس کا اچھا خاصا مذاق اڑایا لیکن رشید کے ذہن میں کوئی اور ہی پلان چل رہا تھا۔ مارکیٹ میں رشید کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ ایک درجن کے پیچھے ایک انڈہ فری دینے سے رشید کو نقصان ہونے کی بجائے فائدہ ہونا شروع ہوگیا۔ہوتے ہوتے اس نے پوری مارکیٹ کو اپنا گاہک بنا لیا‘ کچھ سرمایہ اکٹھا ہوا تو اس نے ایک دوردراز کے گائوں میں چھوٹا ساپولٹری فارم بھی کھول لیا۔ انڈوں کی کافی ساری کمی اس پولٹری فارم سے پوری ہونے لگی۔ آج اگر آپ لاہور کے مسلم ٹائون سے گذریں تو وہاں ایک بہت بڑا سپر سٹور ہے جہاںاشیائے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے‘ سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہے اور ہر فلور کے لیے لفٹ لگی ہوئی ہے۔ اس سٹور کے مالک کا نام رشید ہے‘ وہاں آج بھی ایک درجن میں 13 انڈے ملتے ہیں…!!!
وہ لوگ جن میں کوئی فنکاری نہیں ہوتی وہ سیدھا سیدھا کام کرنا جانتے ہیں اور سیدھی سیدھی زندگی ان کا نصیب بن جاتی ہے۔ ہم میں سے بے شمار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زندگی میں چھ سات کام کیے ہوں گے‘ کبھی فروٹ چاٹ کی ریڑھی لگا لی ہوگی‘ کبھی کمپیوٹر کا بزنس شروع کر دیا ہوگا ‘ کبھی زنگر برگرکی دوکان کھول لی ہوگی…لیکن ذرا جائزہ لیجئے کہ کتنے ہیں جو کامیاب ہوئے۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو اپنا پیسہ برباد کرکے پھر سے صفر پر آئے ہوئے ہیں۔اصل میں ایسے لوگ جانتے ہی نہیں کہ وہ بزنس کی وجہ سے نہیں اپنے ٹیلنٹ کی کمی کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں۔آپ نے کئی دفعہ دیکھا ہوگا کہ سیلون پر بال کاٹنے والا لڑکا جب سیلون چھوڑتا ہے تو پھر اپنی کوئی چھوٹی موٹی دوکان کھول لیتاہے، یہی لڑکے آپ کو چند سالوں بعد اپنے پارلر کے مالک نظر آتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہ اپنے فن کو پہچانتے ہیں اور بلاوجہ کسی اور کام میں پنگا نہیں لیتے۔ ہمارے ہاں چونکہ دوسروں کی دیکھا دیکھی کاروبار کرنے کا رواج ہے لہٰذا ہمیںہر وہ کام اچھا لگتاہے جو ہمارے مامے ‘ چاچے کا لڑکا کامیابی سے کر رہا ہوتا ہے۔ کامیابی کا نسخہ صرف اور صرف محنت اور ٹیلنٹ ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ ٹیلنٹ ہر بندے میں کوٹ کوٹ کر بھر ا ہوا ہے لہٰذا ہر بندے کو یقین ہے کہ اس کی ناکامی کی وجہ دوسرے ہیں۔ٹیلنٹ پیدائشی بھی ہوتاہے اور خود سے حاصل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے انسان کے اندر سوچ کا ہونا بہت ضرور ی ہے۔ہم ہمیشہ اپنے ٹیلنٹ سے بے خبر رہتے ہیں اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ٹیلنٹ ہمارے اندر نہیں ہوتا۔جس کو بجلی کا کام بہت اچھا آتا ہے اس کی خواہش ہے کہ وہ کامیاب اداکار بن جائے‘ جو بہت اچھی بریانی بنا سکتا ہے وہ موبائل کی دوکان کھولنے کے چکر میں ہے۔ اپنے ٹیلنٹ سے یہی بے اعتنائی ہمیں ناکامی سے ہمکنار کرتی ہے۔اپنے اندر کا جائزہ لیں‘ یہ ناممکن ہے کہ قدرت نے ہمارے اندر کوئی ٹیلنٹ نہ رکھا ہو‘ ہر بندہ کوئی نہ کوئی ایسا کام ضرور کر سکتا ہے جس میں اس کی حیثیت ایک ماہرکی سی ہوتی ہے ۔ اسی کام کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے…اس کے بعد ایمانداری قائم رکھیں اور پھر دیکھیں زندگی کیسے مسکراتی ہے۔میرے پاس ایک صاحب آئے جنہیں گلوکاری کا شوق تھا‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں…میں نے انہیں کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ انہوں نے دو تین گیت سنائے ‘ اس کے بعد مجھے مجبوراً ان سے کہنا پڑا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی تو بہت قدر ہے لیکن آپ کی نہیں۔ یہ بیماری ہمارے ہاں عام ہے، جو بندہ جس فیلڈ میں ناکام ہے اس کا یہی کہنا ہے کہ وہ تو ٹیلنٹڈ ہے لیکن چونکہ وہ خوشامد نہیں کر سکتا‘ اس کے پاس کوئی بڑی سفارش نہیں اس لیے وہ ناکام ہے۔اگرچہ خوشامد بھی ایک ٹیلنٹ ہے لیکن محض خوشامداور سفارش کے سہارے کامیابیاں نہیں ملتیں۔آپ ایک بے سرے بندے کی سفارش کرکے اسے ٹی وی میں چانس دلا بھی دیں تو کیا خیال ہے وہ ہٹ ہوجائے گا؟ دو دن میں اس کا ٹیلنٹ کھل جائے گا اور وہ پھر سے بوہڑ تھلے بیٹھا ہوگا۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں خدا ان کے ٹیلنٹ کی پہچان بھی عطا کر دیتا ہے اور وہ اُسی راستے پر چل بھی پڑتے ہیں۔پھر انہیں اپنے ٹیلنٹڈ ہونے کا اعلان نہیں کرنا پڑتا‘ دنیا بڑی سمجھدار ہے‘ ٹیلنٹڈ بندہ گھر میںبھی بیٹھا ہو تو اسے بھاری معاوضے پر لینے والے پہنچ جاتے ہیں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“