تہذیبی،تمدنی اور معاشرتی لحاظ سے جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے آج وہی ممالک مثالی معاشرہ کے متحمل اور تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں،اس لئے کہ ترقی اور اعلی تمدن،تہذیب اور شائستگی کا انحصار نظم و ضبط پر عمل پیرائی پر ہوتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ ہو اگر وہاں نظم و ضبط کا سختی سے اطلاق نہیں ہوگا تو وہاں عدم استحکام،بے ترتیبی اور انتشار کا دود ورہ ہوتا ہے۔معاشرتی تنظیم کی تشکیل احسن طریقے سے تشکیل نہیں پا سکتی اور نہ ہی معاشرتی تہذیب پرورش پا سکتی ہے۔یہی صورت حال ملک میں موجود ہر اس ادارے کی بھی ہوتی ہے اگر ادارے میں تنظیم،ترتیب اور نظم وضبط ناپید ہو۔خاص کر ملک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کا اطلاق اس لئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے بڑے معاشرے میں چھوٹے معاشرے کے مترادف ہوتے ہیں۔تعلیمی ادارے نو خیز نسلوں کی تربیت سر انجام دے کر انہیں معاشرہ کا مفید اور طاقتور فرد بناتے ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کے فقدان کی وجوہات جاننے سے قبل ہمیں اس بات کا بخوبی اندزہ ہونا ضروری ہے کہ نظم وضبط اصل میں ہے کیا؟لاطینی زبان سے مستعار اس لفظ کے معنی شاگرد اور چیلہ کے ہیں جس کا کام حکم بجا لانا،احکامات کی پاسداری ہے،احکامات کااحترام کرنا اور قواعد وضوابط پر عمل کرنا ہی دراصل نظم وضبط ہے۔لہذا نظم وضبط کی پاسداری اور عملداری کی متحمل اقوام کبھی بھی بے ربط اور تسلسل کے فقدان کا شکار نہیں ہوتی ہیں۔اس لئے کہ جب فرد کی انفرادی زندگی میں نظم کا شعور اور سلیقہ آجائے گا تو اجتماعی زندگی میں استحکام،تسلسل اور ربط خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔تعلیمی ادارے چونکہ نوخیز نسلوں کی آبیاری کے ضامن ہوتیہیں اس لئے تعلیمی اداروں میں نظم وضبط پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے تاکہ یہی بچے جب معاشرہ کے مفید رکن بن جائیں تو عملی زندگی سے پنپنے والا معاشرہ مضبو ط اور انتظامی معاشرہ ہو نا کہ عدم استحکام اور انتشار زدہ معاشرہ۔تعلیمی اداروں میں اگر بنظر اجتماعی مشاہدہ کیاجائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ استاد کے ادب و احترام میں عدم توجہی کے ساتھ ساتھ نظم وضبط کا بھی شدید فقدان دکھائی دیتا ہے۔میرے خیال میں،،،خشت اول چوں نہد دیوار کج،،کے مصداق تعلی اداروں میں نظم وضبط کی خشت اول جو کاہ جاتا ہے کہ روسو نے لگائی تھی وہی ٹیڑھی لھائی گئی اب اس پر سیدھی دیوار کی معماری بڑا مشکل کام ہے۔کیونکہ روسو وہ پہلا شخص تھا جس نے جدید نظریہ تعلیم کی بنیاد رکھی اور اس کی تعریف کرتے ہوئے روائتی طریقہ تعلیم کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے افراد کی آزادی اور انفرادیت میں رکاوٹ کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر تیز بہتے ہوئے پانی کو کنارے میسر نہ آئیں تو بے ربط پانی کھیتی باڑی نہیں بلکہ سیلاب کا باعث ہی بنتا ہے۔اسی طرح اگر آزادی کو کنٹرول کے کناروں سے نہ روکا جائے تو وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔کیونکہ بچے کے پاس عقل سلیم کا فقدان ہوتا ہے اس لئے آزادی میں اس کے لئے فطری میلانات کو قابو میں کرنے کا فن بھی نہیں آتا۔ایسی صورت حال میں اسے ایک ایسے راہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے نظم وضبط اور ترتیب کی تشکیل میں ممدو معاون ہو سکے۔مدارس میں یہ کام ایک مثالی استاد کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔ایک مثالی استاد بھی تب ہی اسے عملی ترتیب دے سکتا ہے جب اس کے پاس کوئی قانونی،اخلاقی اختیارات اور جواز ہو۔اس لئے کہ جب آپ نظم وضبط کے اطلاق میں سختی کے عمل کو بروئے کار نہیں لائیں گے تو ادارہ اور معاشرہ مختلف قسم کی بے راہ روی اور اخلاقی برائیوں کا شکار ہوجائے گا۔
نظم وضبط ہمیں باقاعدگی،ترتیب،احساس ذمہ داری اور ادب واحترام سکھاتا ہے۔موجودہ دور میں اکثر تعلیمی ادارے متذکرہ خوبیوں سے عاری اس لئے ہوتے ہیں کہ حکومت نے ادارے کے مرکزی کردار کی اہمیت،حیثیت اور عزت وتکریم کو طلبا کے ہاتھوں میں دے چھوڑا ہے۔جو حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔تعلیم میں مار نہیں پیار جیسے منشور سے بچہ اخلاقی سزاؤں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور نظم وضبط سے بھی دور ہو گیا ہے۔اخلاقی سزائیں پھر بھی بچوں کو ان کی حدود وقیود میں باندھے ہوئے تھیں،اب تو عالم یہ ہے کہ نہ بانس ہے اور نہ بانسری۔