(Last Updated On: )
(۹؍دسمبر ۱۸۸۰ء تا ۹؍دسمبر ۱۹۳۲ء)
بیگم رقیہ مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش ) کے ضلع رنگ پور کے ایک گائوں پائرا بند میں ۱۸۸۰ء میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ متمول زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد کا نام ظہیر الدین محمد ابو علی صابر تھا اور والدہ راحت النساء صابر چودھرانی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔رقیہ کی دو بہنیں کریم النساء اور حمیرا اور دو بھائی ابو اسد ابراہیم اور خلیل الرحمٰن ضیغم صابر تھے۔رقیہ کی والدہ پردے کی حامی تھیں۔اس وقت پردے کا یہ عالم تھا کہ لڑکیاں غیر خواتین سے بھی پردہ کرتی تھیں ۔اس لئے ان کی اسکولی تعلیم کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔جب کہ رقیہ اپنے بھائیوں کی طرح خوب پڑھنا چاہتی تھیں۔بھائیوں کو اپنی بہن کی خواہش پر ترس آ گیا اور انھوں نے رقیہ کو رات کے وقت بنگلہ اور انگریزی تعلیم دینی شروع کی۔رقیہ کی بہن کریم النساء اردو عربی اور فارسی جانتی تھیں۔ اس طرح بھائی بہنوں کی مدد سے رقیہ اپنی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے بہت جلد پڑھ لکھ گئیں۔
رقیہ کی شادی خان بہادر سخاوت حسین سے ہوئی جو بھاگلپور ضلع میں ڈپٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے اور تعلیم نسواں کے زبر دست حامی تھے۔وہ رقیہ کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔شادی کے تین سال کے اندر رقیہ انگریزی میں مضامین لکھ کر شائع کرانے لگیں۔رقیہ کے شوہر کا ۱۹۰۹ء میں انتقال ہو گیا۔ان کی وفات کے بعد رقیہ نے اپنے شوہر کی یاد میںمسلم بچیوں کے لئے سخاوت میموریل مدرسہ قائم کیا ۔جس کی شروعات فقط پانچ لڑکیوں سے ہوئی۔یہ مدرسہ آج سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلز اسکول کی شکل میں کولکاتا میں موجود ہے۔رقیہ کا مقصد بنگال کی مسلم خواتین میں تعلیم کا انتشار ، ان کی ذہن سازی ، فرسودہ رسم و رواج سے دوری، اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا اور انھیں خود کفیل بنانا تھا۔ رقیہ نے اپنے مقصد کو عوام تک پہنچانے کے لئے مضامین افسانے اور ناول لکھے۔انھوں نے ’ سلطانہ کا خواب ‘ عنوان سے ایک کہانی لکھی جو عوام میں بہت مقبو ل ہوئی اور زبردست تنقید کا نشانہ بھی بنی کیوں کہ اس کہانی کا موضوع روایت سے ہٹ کر تھا۔اسے سائنس فکشن اور فینٹیسی کے زمرے میں رکھاجا سکتا ہے۔اس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک لڑکی سلطانہ ہے ۔خواب میں اس کی دوست سسٹر سارا اسے ایک ایسے ملک کی سیر کراتی ہے جہاں خواتین بر سر اقتدار ہیں اور بہت اچھی طرح حکومت چلا رہی ہیں۔ وہاںمردوں کو پردے میں رہنا پڑتا ہیں۔یہاں خواتین کے لئے بہترین اسکول قائم ہیں۔جن کی سائنس لیب میں نئی نئی ایجادیں ہو رہی ہیں۔اس مملکت میںلڑکیوں کی کم عمر میں شادی ممنوع ہے۔غرض کہ یہاں ایک مثالی حکومت قائم ہے جس میں وہ تمام بد عنوانیاں نہیں ہوتیں جو معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہو رہی تھیں۔اس تصوراتی مملکت کے ذریعہ رقیہ نے عام زندگی میں سائنس کے زیادہ سے زیادہ استعمال ، توہم پرستی اور بیجا رسم و رواج سے نجات پانے کا پیغام دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیںکہ اس نظام میں مرد پردہ کرتے ہیں ۔بچے سنبھالتے ہیں، کھانا بناتے ہیں اور امور خانہ داری کے دیگر کام بھی مرد ہی انجام دیتے ہیں۔‘ رقیہ کی تحریر پدر سری معاشرے پر بھر پور تازیانہ ہے۔کلکتہ میں انھوں نے ’انجمن خواتین اسلام ‘ نامی ایک ادارہ بھی قائم کیاجو مسلم خواتین کی بہبود کے لئے کام کرتا تھا۔رقیہ بذات خود پردے کی بہت مخالف نہیں تھیں بلکہ انھوں نے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائی جو پردے کی آڑ میں عورتوں کے سماجی کام کرنے پر روک لگاتا تھا۔انھوں نے پردے کے دو موقف یعنی پردہ عصمت وقار اور نسوانی حیاء کی حفاظت کی خاطر یا قید و بند کی خاطر،ان دونوں کے درمیانی فرق کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔نبارونا بھٹاچاریہ نے بیگم رقیہ کی تخلیقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہندوستانی عورت کے لئے جب دانشوروں نے حصول تعلیم کے دروازے کھولے تب تعلیم نسواں کے ساتھ یہ تصور بھی ضرور تھا کہ انگریزوں کے سامنے ہندوستانیوں کا گھٹا ہوا قد بڑھے گا، عزت میں اضافہ ہوگا، تعلیم یافتہ عورتیں مغربی رنگ میں رنگے شوہروں کا ساتھ دے پائیں گی، بچوں کو تعلیم یافتہ بنائیں گی۔مگرعورت خود تعلیم یافتہ ہو کر آزاد نہ ہو جائے اس خوف سے علماء اور دانشوروں نے ایسی بہت سی کہانیاں اور حکایتیں گڑھ لیں جن میں عورتوں کے لئے عورت بنے رہنے کی ضرورت سمجھائی گئی۔ایشور چند ودیا ساگر کی تصنیف کردہ سیتا بنواس اس کی اچھی مثال ہے۔سیتا جی کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انھوںنے اپنے مہذب کردار سے شوہر پر انحصار کی انتہا کی نمائش کی ۔ایسا لگتا ہے کہ خالق نے انسانیت کو وفادار بیوی کے مذہب کی تلقین دینے کے مقصد ہی سے سیتا کی تخلیق کی ہے۔‘‘
’’ودیا ساگر جی سیتا کو ایک عام عورت کے روپ میں ہی دیکھتے ہیں جو شوہر کو خدا کا درجہ دیتی ہے۔منفی حالات میں بھی اپنے شوہر کا برا نہیں چاہتی۔چھوڑ دئے جانے پر بھی شوہر کی مجبوری کے تصور سے ہی پگھل جاتی ہے۔جب بھارت کا نقشہ تعلیم نسواں کی روشنی سے بدل رہا تھا ، تب سیتا کے اقدار کی عظیم الشان پیش کش کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟‘‘
’’ایسی کئی اور مثالیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پاکباز عورت ، فرض زوجہ، شوہر کی میت کے ساتھ ستی وغیرہ کو دانشوروں نے بڑی چالاکی سے قائم رکھا۔ان کے نزدیک تعلیم نسواں ایک اسلحہ کی طرح تھی جس سے ان ہی پرانے سڑے گلے اقدار اور رسوم پر جدیدیت کی ملمع کاری کی جا سکے۔‘‘
’’راجہ رام موہن رائے کا قول ہے کہ ہندو عورتیں مردوں سے زیادہ تیاگ کر سکتی ہیں اور ان میں روحانی طاقت پتنی دھرم نبھانے کی قابلیت بہت زیادہ ہے۔‘‘
محترمہ نبارونابھٹا چاریہ کی یہ تحریر اکثریتی طبقے کی خواتین کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔ایسی صورت میں مسلم خواتین کے حالات کتنے نا گفتہ بہ رہے ہوں گے ، ان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ان نا مساعدات کا مقابلہ کرنے کے لئے بیگم رقیہ سخاوت کا سامنے آنا در حقیقت ایک جرأت مندانہ قدم ہے۔
پروفیسر منصور عالم(کولکاتا ) کے مطابق رقیہ کو بنگلہ دیش میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ان کے نام پر وہاں اسکول کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہیں۔شاہراہوں اور دیگر عمارتوں کے نام ان کے نام پر رکھے گئے ہیں۔۹؍ دسمبر جو رقیہ کا یوم پیدائش اور وفات ہے، اسے وہاں قومی یوم تعلیم کی شکل میں منایا جاتا ہے۔ہندوستان میں رقیہ کی خدمات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔حال ہی میں دی مسلم انسٹی ٹیوٹ کولکاتا سے ڈاکٹر نعیم انیس نے بیگم رقیہ ایک عبقری شخصیت عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی جو بیگم رقیہ پر ہونے والے انٹر نیشنل سیمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔اس کی بدولت رقیہ کی زندگی کے کچھ کوائف معلوم ہو سکے۔ منجملہ جد و جہد آزادی میں بیگم رقیہ سخاوت حسین نے بھلے ہی تیر و تفنگ سے انگریزوں کا مقابلہ نہ کیا ہو مگر ان نا مساعد حالات میں خواتین میں تعلیمی بیداری کا یہ کارنامہ لائق ستائش ہے۔