(قسط نمبر دو)
ہندستان اور فارس میں گھرے ہوئے افغانستان کی جدید سیاسی تاریخ فارس کے طاقتور بادشاہ نادر شاہ کے قتل اور اس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی کی 1747 میں قندھار میں قائم کردہ ریاست سے شروع ہوتی ہے۔ ایک وقت میں اس کا قبضہ ہندستان میں تبت تک تھا۔ ملتان، میانوالی، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان درانی سلطنت کا حصہ رہے۔ سکھ سلطنت نے 1820 کی دہائی میں یہ علاقے قندھار سے چھین کر ان کو پیچھے دھکیل دیا۔ اگلی باری برطانیہ کی تھی۔
انیسویں صدی میں یہ برطانیہ اور روس کے درمیان جاری "گریٹ گیم" میں پھنسا رہا۔ ایک طرف سے روس برطانوی پھیلاوٗ سے خوف زدہ تھا کہ وہ کہیں اس تک نہ آن پہنچے۔ دوسری طرف برطانیہ کو ڈر تھا کہ کہیں روس اس سے ہندستان نہ چھین لے۔ اس عظیم کھیل میں افغانستان بفر زون تھا۔ ان جنگوں اور ان کے پسِ پردہ کھیلوں کا خاتمہ 1895 میں ہوا جب برطانوی ہند اور افغانستان کی درمیان لکیر کھینچ دی گئی۔ مورٹمیر ڈیورنڈ کے نام پر اس سرحد کا نام ڈیورنڈ لائن رکھا گیا۔ افغانستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان 1947 میں قائم ہوا۔ اپنی مغربی سرحد کا یہ جھگڑا بھی اس کو کالونیل وراثت میں ملا۔ وہ مسئلہ، جس کی وجہ سے یہ نیا ملک اپنے مغربی ہمسائے سے کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رکھ سکا۔
وراثت کے تنازعے طے کرنا کئی بار ممکن ہی نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد 1919 میں افغانستان میں بادشاہت قائم ہوئی۔ 1933 میں بننے والے بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت چالیس سال تک رہی جب تک کہ ان کا تختہ ان کے کزن نے الٹ کر بادشاہت ختم نہ کر دی۔ کئی دہائیوں سے افغانستان ایک پرامن جگہ تھا۔ جنگ ماضی کا حصہ بن چکی تھی۔ مرکزی حکومت طاقتور نہیں تھی۔ ملک قبائل میں تقسیم تھا۔ ظاہر شاہ نے سرد جنگ میں دونوں اطراف سے تعلقات رکھے تھے۔ یہاں پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ نیا آئین 1963 میں بنا۔ انتخابات ہوئے، پارلیمنٹ بنی، خواتین کو حقوق دئے گئے، سول رائٹس دئے گئے۔ بیرونی ممالک سے مشیر منگوائے گئے۔ افغانستان کو مالی امداد سوویت یونین سے بھی ملی اور امریکہ سے بھی۔ تبدیلیوں کی رفتار سست تھی لیکن معاشرے میں رفتہ رفتہ اصلاحات آ رہی تھیں۔ اس لینڈ لاکڈ ملک میں الگ علاقے بڑی حد تک خود مختار تھے۔ یہ ایک دیہی معاشرہ تھا۔ افغان فوج میں نوکری ساٹھ کی دہائی تک بڑا پرسکون سا کام سمجھا جاتا تھا۔ بھلا، یہاں پر اب کیا ہونا تھا۔ اس پرسکون تالاب میں پہلا پتھر شمال سے آیا تھا۔
بالشویک انقلاب نے تیزی سے وسطی ایشیا کو بدل دیا تھا۔ روایتی اقدار والے معاشرے پولیس سٹیٹ میں بدل گئے تھے۔ خواتین فیکٹریوں اور اشتراکی زرعی کھیتوں میں کام کرنے کے لئے امڈنے لگی تھیں۔ ازبکستان، تاجکستان، قازقستان اب سوویت یونین کا حصہ تھے۔ کے جی بی کی سیاسی سپیشلسٹ یہ خیال رکھتے تھے کہ اگلی باری ہمسایہ افغانستان کی ہے۔ پراپیگنڈہ پوسٹر، جن میں جذبات سے عاری، مضبوط جسامت والی، پرعزم خواتین مستقبل میں دیکھتی نظر آتی تھیں، یہاں پہنچنے لگے تھے۔
سرد جنگ نظریات کی جنگ تھی۔ سرخ انقلابیوں کو یقین تھا کہ ان کے پاس دنیا کے مسائل کے حل کے لئے ایک اکسیر نسخہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ وہ اس کو دنیا میں پھیلانا چاہتے تھے۔ اس کے نظریاتی لوگوں کے لئے ایسا کرنا ایک اخلاقی فریضہ تھا۔ سوویت انقلاب کو جاری رہنا تھا۔ کے جی بی ایک خفیہ پروگرام چلا رہی تھی، جس کے تحت مقامی افغان کمیونسٹ لیڈرشپ کو فنڈ کیا جا رہا تھا۔ افغان آرمی میں کمیونسٹ کاز کے ہمدردوں نے صدر محمد داوٗد کو قتل کر کے ایسے پسماندہ، دیہی اور مذہبی ملک کے طول و عرض میں سرخ جھنڈے لہرا دئے جہاں ابھی صنعتی انقلاب بھی بمشکل پہنچا تھا۔
کابل کی مارکسسٹ حکومت نے اپنی مخالفت کرنے والوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ 1979 میں بارہ ہزار سیاسی قیدی جیل میں تھے۔ ان میں سے کئی کو جیل کی دیواروں کے پیچھے ہی قتل کیا جا رہا تھا۔
ان حکمرانوں کے خلاف بغاوت ہرات کے افغان فوج کے کیپٹن اسماعیل خان نے مارچ میں جہاد کا اعلان کیا۔ اپنے فوجی یونٹ کے ساتھ ایک درجن سے زائد روسی کمیونسٹ سیاسی مشیروں پر حملہ کر کے ان کو بیوی بچوں سمیت قتل کر دیا۔ ان کی لاشیں ڈنڈوں پر اٹھا کر شہر بھر میں گھمائی گئیں۔ اس کا بدلہ لینے کے لئے کابل سے طیاروں نے اس شہر پر بم برسانا شروع کر دئے۔ افغانستان کی نئی حکومت اپنے اقتدار کے پہلے برس میں صرف ہرات میں بیس ہزار لوگ مار چکی تھی۔
افغانستان میں خیالات کی جنگ حکومت، تعلیمی اداروں، اخباروں میں جاری تھی۔ اس نے دو الگ گروہوں کو جنم دیا تھا جو ایک دوسرے سے اختلاف میں انتہاپسندی کی طرف جاتے رہے۔ اب یا تو کوئی کمیونسٹ تھا اور یا کوئی اسلامی بنیاد پرست۔ کسی ادارے میں بھی کسی کے لئے شناخت کا یہ لیبل ضروری ہوتا گیا۔ معاشرے میں دراڑیں واضح تھیں۔ معاشرہ ٹوٹ رہا تھا۔ بہت سی جگہوں پر عام لوگوں کی جگہ کمیونسٹ اور اسلامسٹ رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغان حکومت کے بے رحمانہ طرزِ عمل پر 18 مارچ 1979 کو سوویت پولٹ بیورو کی میٹنگ میں اوسٹینوف نے کہا، "مسئلہ یہ ہے کہ افغان قیادت یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ اسلام کا کردار یہاں کے لوگوں کے لئے کتنا اہم ہے۔ افغانستان کے حل کا وہ طریقہ نہیں جو یہ اختیار کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنے معاشرے کو خود نہیں جانتے"۔
نور محمد ترکئی کو جب روس کے سابق سوویت وزیرِ اعظم کوسیجن نے اپنے طریقہ کار پر غور کرنے کو کہا گیا تو جواب آیا، "لوگوں کو قتل کر دینا ظلم لگتا ہے لیکن ہمیں لینن نے سکھایا ہے کہ انقلاب کے دشمن کے ساتھ رحم نہ برتو۔ اکتوبر کے انقلاب میں سوویت یونین میں بھی تو کئی ملین لوگ مرے تھے"۔ جب کوسیجن نے پوچھا کہ اگر بغاوت بڑھتی ہے تو ان کے پاس بغاوت سے نمٹنے کے لئے فورس ہے تو ترکئی نے کہا کہ نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی فوج پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ انہیں نہیں پتا کہ فوج میں سے کون حکومت کا وفادار ہے اور کون باغیوں کے ساتھ مل سکتا ہے۔ ترکئی نے ایک حل پیش کیا، “اگر سوویت یونین ازبک، تاجک اور ترکمان فوجیوں کو عام کپڑوں میں افغانستان بھیج دے تو کوئی انہیں نہیں پہچان سکے گا۔ ان پر بھروسہ بھی کیا جا سکتا ہے اور بغاوت آسانی سے کچل دی جائے گی۔”
کوسیجن نے جواب دیا کہ ترکئی معاملے کو سمجھ نہیں رہے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ ایک پیچیدہ سیاسی اور عالمی ایشو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی سال دسمبر میں یہ جنگ افغانستان میں ترمذ کے قریب تینکوں کی آمد اور جہاز سے اترنے والے کمانڈوز کے آپریشن نے ایک بڑی جنگ چھیڑ دی۔
یہ تالاب میں پھینکے گئے پتھروں سے جنم لینے والے بڑے طوفان کی ابتدا تھی۔