ٹکسال اصل میں بادشاہ کی طرف سے سکے رائج کیے جاتے ہیں اور کھرے سکے مانے جاتے ہیں. ان کی دارالعرب سکے ڈھالنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور جو سکہ سرکاری ٹکسال کا نہیں ہوتا ہے اسے کھوٹا سکہ ٹکسال باہر قرار دیا جاتا ہے.
شہری بولی میں جو بات چیت یا محاورہ مستند ہوتا ہے اس کو ٹکسالی کہا جاتا ہے اور جس سے ادھر ادھر کی بولی کا اثر ظاہر ہوتا ہے. اور اس کو پسند نہیں کیا جاتا. اسے ٹکسال باہر کہا جاتا ہے. دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں اور اس کے آس پاس کی زبان ہی کو سند مانتے تھے. چنانچہ میر تقی میر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میری زبان ان کے لیے یا محاورہ اہل دہلی ہے جامع مسجد کی سیڑھیاں. اس کے معنی یہ تھے کہ مردم بیرون جات یعنی دہلی شہر سے باہر کے لوگوں کی زبان ان کے نزدیک پسند نہیں تھی. ٹکسالی زبان یا ٹکسالی محاورہ وہی کہلاتا ہے جو جامع مسجد کے آس پاس سنا جاتا تھا.
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ از ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمیٹکسال یا ٹکسالی کسے کہتے ہیں؟
ادبی اصطلاح کے طور پر ’’ٹکسال‘‘ سے مراد وہ شہر ہے جس کی زبان ) محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل ( مستند اور معیاری سمجھی جائے۔ اردو زبان کے لیے دہلی اور لکھنؤ کو’’ٹکسال‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور انھیں مقامات کی زبان کو ’’ٹکسالی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔درحقیقت دہلی کو ’’ٹکسال‘‘ کا منصب حاصل تھا، لیکن مُرورِ زمانہ کے باعث دہلی کے اہلِ ادب، اہلِ علم اور اربابِ نظر، امرائے لکھنؤ کی قدردانی کی وجہ سے لکھنؤ ہجرت کر گئے۔ چناں چہ اب دہلی کے ساتھ ساتھ لکھنؤ بھی علم و فضل اور زبان دانی کا مرکز بن گیا اور اسے ’’ٹکسال‘‘ کا درجہ حاصل ہوگیا۔عام زبان میں ٹکسال اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں کرنسی بنائی جاتی ہے۔)
پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ ’’ نیشنل بُک فاؤنڈیشن‘‘ صفحہ نمبر 87 سے انتخاب۔۔۔!!!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...