گاؤں میں جہاں ہمارے کھیت ہیں یہ جگہ عرفِ عام میں ٹبہ کہلاتا ہے۔ساون میں ساتھ والے گاؤں کھبیکے کے کھیتوں میں چاول کاشت ہو جاتا تو کسان چرواہے مویشی چرانے کے لئیے ٹبہ پر آتے۔ہمارے ڈیرے پر پانی اور سائے کا خوب انتظام تھا اس لئیے گرمیوں کی چھٹیوں میں رونق لگی رہتی۔ 70 کی دہائی میں مجھے کھبیکے سے آنے والے بوڑھے کسانوں سے گزرے زمانے کی کہانیاں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سے دو پیش خدمت ہیں۔ تکریمِ قاتل اور حویلی منگل سنگھ۔
بابا صدیق جو کہ ستر کے پیٹے میں تھا اس نے واقعہ عینی شاہد کے بطور بیان کیا۔
میں اپنے چچا کے ساتھ قلعہ میہاں سنگھ کے کلر میں جانور چرا رہا تھا کہ ہمیں قصبہ سے بینڈ باجے کی آواز یں سنائی دیں۔ہم جانوروں سمیت پہنچ گئے اور حیران کن منظر دیکھا۔گاؤں میں کوئی تیس فوجی جن کے کاندھے اور وردیاں پیتل کے ٹکوں سے جگمگ جگمگ کر رہی تھیں گاڑیوں سمیت بینڈ باجا لے کر قلعہ میہاں سنگھ آئے ہوئے تھے۔ ہم متجسس انداز میں آگے بڑھے تو فوجی دو قطاروں میں سلامی دینے کے انداز میں کھڑے ہو چکے تھے۔ اتنے میں دو لوگ ایک بوڑھے سکھ بنتا سنگھ کو سہارا دے کر لائے۔ وہ فوجیوں سے اتنا خوف زدہ تھا کہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہو سکا اور زمین پر گر گیا۔
اوم پرکاش یتیم ہندو تھا اور قلعہ میہاں سنگھ میں اپنی غربت کی ماری ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور اوما کلر سے جانوروں کا سوکھا ہوا گوبر بطور ایندھن چننے جاتا۔ ایک دن وہ سوکھے گوبر کی تلاش میں بنتا سنگھ کے کھیتوں کی طرف نکل گیا اور پیاس لگی بجھانے کو کنویں پر پانی پینے چلا گیا۔ بنتا سنگھ نے کنواں جوتا ہوا تھا اور کھیت سیراب کر رہا تھا۔ وہ کھیت کی طرف جاتا تو بیل کھڑے ہو جاتے وآپس آکر ہانکتا پھر کیاروں میں نکا موڑنے جاتا۔ اوم پرکاش کو دیکھ کر اس نے آفر کی کہ اگر تم بیل ہانکتے رہو تو شام کو میں تمہیں بالن کے طور پر لکڑیاں دے دوں گا۔مگر اوم پرکاش اس ڈر سے کہ اگر لکڑیاں نہ دیں تو میں گوبر کے اپلوں سے بھی جاؤں گا اور ماں ناراض ہو گی، انکار کر دیا۔ مگر بنتا سنگھ نے پکڑ کر زبردستی گادھی پر بٹھا دیا اور حکم دیا کہ ہانکو بیل۔ بنتا سنگھ ذرا دور ہوا تو اوم پرکاش اٹھ کر بھاگ نکلا۔ مگر بنتا سنگھ نے دس بارہ سال کا لڑکا پیچھا کر کے پکڑ لیا۔اس بھاگ اور پکڑ کو شاید کسی نے دیکھا بھی ہو۔ اب کے بنتا سنگھ نے اوم پرکاش کی بودی (بالوں کی لٹ جو ہندوباقی بال مونڈھ کر بناتے ہیں۔) گادھی کے ساتھ باندھ دی اور بیلوں کو ہانک کر خود کھیت چلا گیا۔ اوم پرکاش گادھی سے نیچے اترنے کی کوشش میں گر گیا۔بودی بندھی ہونے کی وجہ سے گادھی کے ساتھ ہی گھسٹنے لگا۔شور مچایا، رویا دھویا واویلا کیا مگر سکھ اکڑ گیا اور فریاد مسکین ان سنی کر دی۔ بیل تیز چلنے لگے۔ پانی زیادہ پہنچنے لگ گیا اور بنتا سنگھ کا کام بننے لگا۔اوم پرکاش سارا دن گھسٹنے کی وجہ سے شدید زخمی ہو گیا۔جسم کا ہر حصہ زخموں سے اٹ گیا اور جگہ جگہ سے ہڈیاں تک ننگی ہو گئیں ۔ شام کو بنتا سنگھ نے بیل کھولے اور اوم پرکاش کو بھی کھول دیا۔سارا دن گھسٹنے کی اس قیامت نے اس پر اس قدر خوف اور دہشت طاری کر دی کہ وہ نہ گاؤں گیا اور نہ گھر۔ کہیں گم ہو گیا۔
جب لڑکا رات گئے تک گھر نہ لوٹا تو اس کی تلاش شروع ہو ئی۔پوچھتے پچھاتے پتہ چلا کہ اسے بنتا سنگھ کے کنویں پر دیکھا گیا تھا۔ بنتا سنگھ نے کہا، ہاں آیا تو تھا مگر پانی پی کر چلا گیا تھا۔جب کئی دن گزر گئے تو پھر پولیس میں رپورٹ ہوئی۔بنتا سنگھ زیرِ تفتیش آ یا تو اس نے بودی باندھنے اور اوم پرکاش کے زخمی ہو جانے کو مان لیا۔بنتا سنگھ پر قتل کا مقدمہ درج ہو گیا ۔ لاش نہ ملنے اور ناکافی شہادتوں کی بناء پر اسے عمر قید کی سزا ہوگئی اور پھر وہ سزا بھگت بھی آیا۔
اوم پرکاش گاؤں سے چل کر کسی طرح لاہور اور پھر لاہور سے بمبئی چلاگیا۔ کہیں روٹی کپڑے پر ملازم ہو گیا۔ اور پھر کسی گورے کے ہاتھ لگا۔اس دوران اسے کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اسکی دکھیاری ماں تو بیچاری اسی کے غم میں واردِ عدم ہوچکی ہے۔اب اس نے بھی گاؤں جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ گورے نے اسے سکول داخل کروایا اور پھر پہلی جنگِ عظیم کے دوران وہ فوج میں بھرتی بھی ہو گیا۔ اور ترقی کرتے کر تے آفیسر اور شاید کپتان تک ترقی گیا۔
اوم پرکاش نے ایک دن اپنی بیتی زندگی کا تجزیہ کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر اس دن مجھے بنتا سنگھ بے جرم یہ سزا نہ دیتا تو شاید میں گاؤں میں آج تلک اپلے ہی چن رہا ہوتا۔ وقت نے ظلم کے زخم مندمل کر دئیے اور ایک دن اسے بنتا سنگھ اپنا نجات دہندہ اور ہیرو لگنے لگا۔ اور وہی اوم پرکاش آج بینڈ باجے کے ساتھ اسے سلامی پیش کرنے قلعہ میہاں سنگھ آیا ہوا تھا۔ اوم پرکاش نے بنتا سنگھ کے آگے سیس نوایا سلامی دی گلے لگایا اور اس سے سزا بھگتنے کی معافی بھی مانگی