تخت لاہور کی میرا بائی ۔۔۔ نسرین انجم بھٹّی
یہ نسرین انجم بھٹّی ہیں ۔
ریڈیو پاکستان لاہور کی پروگرام پروڈیوسر ۔نسرین اپنے دفتر میں اکیلی نہیں بیٹھتیں ۔ اُن کے برابر والی میز پر پروگرام پروڈیوسر شائستہ حبیب کی ایک الگ دنیا ہے جہاں صرف اور صرف اُن کا حکم چلتا ہے ۔ نسرین پنجابی کا پروگرام " پرکھ" کرتی ہیں ، جس کا میزبان میں ہوں ۔ پروگرام کا خاکہ تیار کرتے ہوئے اور اُس کی تفصیلات مُرتب کرتے ہوئے مجھے اکثر و بیشتر گمان ہوتا ہے یہ روشن اور اُداس آنکھوں والی یہ لڑکی جو پروگرام پروڈیوسر بنی پھرتی ہے ، بہت اکیلی ہے اور اجنبی چہروں میں گھری ہے ۔ مگر یہ کبھی پروگرام سازی میں پناہ ڈھونڈتی ہے اور کبھی شاعری کے دوپٹّے سے اپنا سر ڈھانپ لیتی ہے ۔
نسرین کا شعری تجربہ ایک ایسی بہادر اور باغی لڑکی کا تجربہ ہے جو مروجہ سماجی روایات سے بیزار ہے لیکن اپنے قبیلے کی اُن روایات سے وہ پوری طرح منسلک اور وابستہ ہے جن کی جڑیں اس وطن کی مٹّی میں بہت گہری ہیں ۔ وہ سرتا پا پاکستانی ہیں ۔ شاید پاکستانیت کی بہترین تعریف قائد اعظم نے ان الفاظ میں کی تھی کہ پاکستان تو اُس دن وجود میں آ گیا تھا جس دن برِ صغیر کی مٹّی کے پہلے مقامی نے اسلام قبول کیا تھا ۔ یہ اُس پاکستان کی بات ہے جو حملہ آوروں کا پاکستان نہیں ، بلکہ اُن مقامیوں کا پاکستان ہے ، جنہوں نے ایک دینی نظریے کو اس لیے قبول کیا تھا کہ اُس میں سارے نسلی دھاروں اور مقامی تہذیبوں کو اپنے اندر سمونے کی گنجائش تھی ۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا:
مرا بنگر ، کہ در ہندوستاں ، دیگر نمی بینی
برہمن زادہ ای ، رمز آشنائے روم و تبریز است
پاکستان اُس برہمن کے بیٹے کا وطن تھا جس نے مولانا روم اور شمس تبریزی کا راز جان لیا تھا ۔ اسی تناظر میں نسرین انجم بھٹی مجھے راٹھور شہزادی میرا بائی لگتی ہے ، جو سر ی کرشن کے عشق میں دیوانگی کی ہر حد سے گزر جاتی ہے ، اور اپنا اکتارہ لیے کرشن کی مورتی کے آگے منقبت گاتی ، بھجن الاپتی اور بھگوان کرشن کی بھگتی کرتی ہے ۔
میں نسرین کے من میں تو جھانک کر کبھی نہ دیکھ سکا مگر جب دن ڈھلے اُستاد امانت علی خان آکر نسرین کے دفتر میں سبھا جماتے تو نسرین ایک اور دنیا کی مخلوق لگتی ۔ کبھی سُر ساگر کی جل پری ، کبھی شعر کی دیوی اور کبھی ایک عام سی دفتری کارکن ، مگر وہ بیورو کریٹ کبھی نہ لگی اور جب کبھی کوئی ایسی بات میں نے سب کے سامنے کہنی چاہی جو نسرین کو ناگوار لگی ، تو اُس نے بڑے رسیلے لہجے میں مجھے ڈانٹنے کے سے انداز میں کہا ،" مُٹھ رکھ " ۔ پھر اچانک سہ پہر کو پروگرام پروٹوکول بند ہوتا ہے اور آواز آتی ، " مسعود نظم سنائو !"
مسعود نظم سُنانے لگتا ہے :
میں راجپوتوں کے گھر کا بجھتا چراغ ، دریا میں جل رہا ہوں
میرا کبوتر ، ہری منڈیروں پہ تیر کھا کر پھڑک رہا ہے
ہوا سلیقے سے اپنے زخموں کو چاٹتی ہو تو میں سنائوں
میں پانچ دریائوں کے اندھیرے میں آخری شمع رکھ رہا ہوں
امانت علی خان کی آواز اچانک نظم کے مصرعوں پر اوورلیپ کرتی ہوئی گونجتی ہے ، " تُسی شام ویلے اوہناں نوں ملو گے نا؟ "
میں کچھ کہے بغیر سر ہلا دیتا ہوں ۔
نسرین کی نظریں صورتِ حال کا احاطہ کرتی ہوئی احتجاجی ہو جاتی ہیں ۔ وہ کہتی ہے ِ " خان صاحب ! ہم آپ کو اس طرح کھونا نہیں چاہتے ۔ "
میں کچھ نہ کچھ سمجھ سکنے کی کوشش میں کچھ بھی نہیں سمجھ پاتا ۔ مجھے لگتا ہے کہ نسرین امانت علی خان کے ضمن میں کسی دوردراز کے اندیشے میں گرفتار ہے ۔ لیکن میں ٹی ہائوس کے ہنگاموں اور اپنے پروگراموں کی شیڈول میں ڈوب جاتا ہوں ۔ دن ریڈیو اور ٹی وی پر سر کھپانا اور شام کو واصف علی واصف کے ٹیوشن سیٹر " لاہور انگلش کالج " میں عمر رسیدہ بچوں کو پڑھانا ۔
پھر وہ دن میں کیسے بھول جائوں جب اچانک امانت علی خان کے انتقال کی خبر ملتی ہے ۔ نسرین کا دفتر آنسوئوں کا ایک دریا ہے ۔ ہچکیوں کی لہریں سسکیوں کے گرداب بناتی ہیں اور ٹوٹ جاتی ہیں ۔
ارے یہ لڑکی کتنا روئے گی ؟ اسے کون چُپ کرائے گی ۔ شاید وقت ۔ یہ وقت جو سب سے بڑا کلیشے مرہم ہے ۔
نسرین انجم بھٹی ، امانت علی کی یاد میں تحریروں کی ایک مختصر سی کتاب مرتب کر رہی ہے ۔ ایک مضمون کا قرعہ میرے نام پڑا ہے جو میں لکھ کر پیش کردیتا ہوں ۔ آنسوئوں کا طوفان تھم گیا ہے ۔ اداسی کا ٹمپو اب تھوڑا سا بدل گیا ہے ۔ مگر یہ کیسا دکھ تھا ، میں کچھ بھی نہیں سمجھ پاتا ۔ امانت ہمارا سب کا ٹی ہائوس کا دوست اور اور ٹی ہائوس کے اوپن ائر میکدے کا ریگولر مے نوش ۔سب کو اس کی جدائی کا دکھ تھا مگر نسرین کے لیے اس کی موت ایک بہت بڑا اور خوفناک دھماکہ تھی ۔ لیکن آہستہ آہستہ ماحول بدلنے لگا ہے۔ اب کچھ نئے لوگ نسرین کے دفژ میں نظر آنے لگے ہیں ۔ ان میں ایک ہیں زبیر رانا ۔ جب وہ موجود ہوتے ہیں تو میں فہیم جوزی کی نظمیں سننے کے لیے اُن کے پاس جا بیٹھتا ہوں اور زبیر نسرین کو فرانسیسی ادیب ژاں ژینے کی کتاب " چور کا روزنامچہ " کے اردو تراجم سنانے لگتے ہیں ۔ پھر سنا کہ اُن کی شادی ہوگئی ہے۔ نکاح نامے کے حوالے سے نسرین مسز زبیرا رانا بن گئیں ہیں ۔
اور پھر ضیا الحق آگیا اور شاہد محمود ندیم نے پی ٹی وی میں ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ میں پروڈیوسر غضنفر علی کے لیے قرآنِ حکیم کی خطاطی پر " حرفِ زریں" کے نام سے ایک دستاویزی فلم کا سکرپٹ لکھ رہا تھا ۔ یہ فلم پی ٹی وی پر میرا آخری معرکہ تھا ۔ فلم مکمل ہوتے ہی میں بھاگ کھڑا ہوا ۔ ریڈیو کے دوستوں سے ملے یا انہیں خُدا حافظ کہے بغیر ۔ نسرین چونکہ اب ایک خانہ دار خاتون بن گئی تھیں اس لیے رابطہ منقطع ہوگیا ۔
میں ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد چلا گیا ، جہاں ایک ماہنامے کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھالنی تھیں ۔ یہ بڑا ہنگامہ خیز دور تھا ۔ بھٹو صاحب کا مقدمہ اسلام آباد میں جسٹس انوار الحق کی عدالت میں لگا تھا ۔ دوپہر کے دو بجے خلاف توقع ایک سرپرائز کی طرح نسرین کا فون آیا۔ فون میں لفظ کم اور آنسو زیادہ تھے ۔ مجھے ہول آنے لگا کہ یہ اب پھر کسی نوحے کا دیباچہ تو نہیں ۔ یہی ہوا :
میں مرزا مہران دا
میری راول جنج چڑھی
لیکن اس نوحے میں ایک باغی لڑکی کی چیخ سنائی دی تھی ۔ نسرین کتنا چیخی ، اُس نے کیا کیا کہا ، مجھے کوئی اندازہ نہیں کیونکہ میں بھاگ کر پاکستان کی سرحد کے اُس پار کابل چلا گیا ۔ مجھے اپنے عقب میں حسین نقی کی آواز سنائی دی ، " بھگوڑے " ۔ مگر میں نے مُرکر نہیں دیکھا ۔
۱۹۹۲ بانوے میں میری بہن کا انتقال ہوا تو میں پندرہ دن کے لیے پاکستان آیا ۔ نسرین سے بھی ملا ۔ وہ اب بھی ویسی کی ویسی تھی مگر پاکستان ویسا نہیں تھا ، جیسا کبھی ہوا کرتا تھا ۔
( میری کتاب " لاہور" سے ایک اقتباس )