سورج نے جاتے جاتے شام سیاہ قبا کو
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور
قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
اقبال اس نظم میں ڈھلتے سورج کے رنگوں کو پھولوں، سونے اور چاندی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ ان کا آپس میں کیا تعلق؟
وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جمہوریت کے اصل وعدے کی تکمیل کی جائے اور ہم اپنے قومی مرثیے کو بھائی چارے کے گیت میں بدل دیں۔ اب وہ وقت ہے کہ ہم نسلی امتیاز کی دلدل کی جگہ پر انسانی وقار کی مضبوط چٹان کھڑی کر دیں۔ یہ ہم سب کی امید ہے کہ نسلی ناانصافی کے تاریک بادل گزر جائیں گے، غلط فہمیوں کی گہری دھند ہماری خوف میں ڈوبی برادری سے بھی چھٹے گی اور جلد ہی وہ دن آئے گا جب محبت اور بھائی چارے کی کرنوں سے ہماری اس عظیم قوم پر ایک خوب صورت سویرا ہو گا۔
مارٹن لوتھر کنگ کے اس خط میں موسیقی، جیولوجی، میٹریولوجی کی اصطلاحات ہیں۔ ان سب کا اس خط کے متن سے کیا تعلق؟
اور اس بانگ درا کی نظم کا یا امریکی سول رائٹس کی تحریک کا بھلا سائنس سے کیا تعلق؟
ابولہول کا شیر کے دھڑ پر لگا انسانی سر ہو، افریقہ کی جل پری یا سپائیڈرمین اور بیٹ مین۔ انسان کی تخلیقی صلاحیت کا ایک بڑا اہم پہلو الگ تصورات کو آپس میں جوڑ کر نئی چیز تخلیق کرنا ہے۔ تخلیقی صلاحیت انسان کی شعر کہنے، زبان میں نئے اور اچھوتے تصورات، آرٹ میں نظر آتی ہے، وہاں سائنس اور ایجادات میں بھی۔ ہائی برڈ جانور یا بکری کے دودھ سے مکڑی کا جالا پیدا کر لینا اس کی مثالیں ہیں۔
جاپانی انجینئر ناکاساٹو بلٹ ٹرین پر کام کر رہے تھے۔ ایک مسئلہ یہ درپیش تھا کہ آواز کیسے کم کی جا سکے۔ پرندوں کے اس شوقین انجینئر کو کنگ فشر یاد آیا۔ اپنی چونچ کی ڈھلوان کی وجہ سے یہ پرندہ خاموشی سے پانی میں داخل ہو سکتا ہے۔ بلٹ ٹرین کے دو سو میل فی گھنٹہ سے چلتے انجن کی چونچ بالکل ویسے ہی ڈیزائن کی گئی۔
مضبوط کنکریٹ کے لئے کیمسٹری اور بائیولوجی کا ملاپ ہوا۔ بے جان پتھر اور جاندار بیکٹیریا کی مدد سے خود کو ٹھیک کر لینے والا میٹیریل بنا۔ دراڑ پڑنے پر بیکٹیریا متحرک ہو جاتا ہے، اس کے فضلے سے کیلسائیٹ بن کر کنکریٹ کی مرمت کر دیتی ہے۔
کچھ ہزار سال پہلے انسانی تہذیب کی بڑی جست اس طرح ہوئی۔ میسوپوٹیمیا میں تانبا نکالا جاتا تھا۔ اس سے کچھ ہزار سال بعد ٹین نکلنا شروع ہوا۔ دونوں زیادہ سخت نہ تھے۔ جب آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل دونوں کو ملایا گیا تو کانسی بن گئی جو لوہے سے مضبوط تھی۔ یہ برونز ایج یعنی کانسی کے دور کا آغاز تھا۔ اس سے برتن بنے، سکے، مجسمے، ہتھیار اور زرہ بکتر۔
انسانی ذہن میں یادوں اور احساسات کے گھنے جنگل میں خیالات، خیالات سے مل کر نئے خیالات کو جنم دیتے ہیں لیکن ذہن صرف اس کو بدل سکتا ہے جو پہلے سے اس میں ڈالا جائے۔ بیکٹیریا اور کنکریٹ کو اچھی طرح جانے بغیر سیلف ہیلنگ سیمنٹ کا خیال نہیں آ سکتا، معاشرے کو اور الفاظ کو جانے بغیر اچھا ادب تخلیق نہیں پاتا۔ جامد خیالات نئے خیالات کو جنم نہیں دیتے۔ اچھوتے خیالات پہلے سے متحرک مختلف خیالات سے مل کر بنتے ہیں۔ یہ تخلیقی صلاحیت کا ایک اہم حصہ ہیں خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو۔ اسی لئے اچھےتعلیمی نصاب میں آرٹ، سائنس، زبان، ریاضی، سب کچھ پڑھایا جاتا ہے اور ہر شعبے میں نئے خیالات بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔
نوٹ: اس پوسٹ میں نیا کچھ بھی نہیں۔ صرف اقبال، مارٹن لوتھر کنگ، اینتھونی برانٹ، ڈیوڈ ایگلمین، ڈگلس تھامس کی کچھ باتوں کو جوڑا گیا ہے۔