تخلیقی سفر میں ایک تنہا مسافر ……..مجید امجد
……………………………………….
عبد المجید امجد (بی . اے ….مگھیانوی )
بہاروں کے سوگ میں 59سال 10 ماہ اور .12دن …..سلگتی ہوی گیلی لکٹری کی طرح کسی فرہاد کا دل لگتے ہیں ……11 میی 1974ء ہفتہ کو منٹگمری (ساہیوال ) میں وفات پا گیے تھے اور 12 میی 1974ء اتوار صبح …لوہے شاہ قبرستان , فتح شاہ روڈ ,جھنگ صدر مگھیانہ کے قبرستان میں سپرد خاک ہوے ……
29جون 1914 ء کو میرے جھنگ میں جنم لینے والا مجید امجد ….میرا جی ..راشد اور فیض کا بھی سال پیدایش ہے اور جنگ عظیم اول کا سال بھی …..شبلی نعمانی کا سال وفات بھی ……
مجید امجد…سنگلاخ حقیقتوں کا شاعر ہے ….اس کی شاعری اندر اور باہر ,معلوم اور نامعلوم کی کشمکش سے جنم لیتی ہے …..وہ خارج سے بھی لٹرتا ہے اور اپنے آپ سے بھی جنگ آزما ہوتا ہے ……..بٹری شاعری اس وقت جنم لیتی ہے ,جب ادمی معاشرے سے لٹرنے کے ساتھ خود اپنے آپ سے بھی لٹرے اور یہ چیز بٹرے دل و دماغ کے بغیر ممکن نہیں …..
مجید امجد …..کنج تنہای اور گوشہ گمنامی میں پٹرے رہے . نہ اپنے عہد کے بٹروں سے تعلقات . نہ ادبی محاز پر شور و ہنگامہ . نہ نقادوں کی مصاحبت نہ سیر و سیاحت کا دلدادہ ……وجود کو عدم وجود اور موجود کو عدم موجود میں ڈھالنے کا درویشانہ سلیقہ ہی ان کی زندگی کا سلیقہ رہا . شاید اسی لیے ان کی شخصیت دبی دبی محسوس ہوتی ہے ……گرد اٹراتے راستوں میں چلتے چلتے گرد ہوتے جسم کتنی دیر ساتھ دیں ,کوی کیا کہ سکتا ہے …..رایگاں گزرتی زندگی میں …..مجید امجد کی کسرتی اور نصرتی شاعری کو ….اوراق میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی بصیرت افروز تنقید سے قد آور بتایا …..استاز مکرم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے مرجھای ہوی موج تبسم کو زمانوں کی دھند سے قامت عطا کی ….یہ عمل خیر کا تسلسل جاری ہے ….عزیز القدر ڈاکٹر ریاض ہمدانی ڈایریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل ساہیوال ڈویژن نے ….مجید امجد شناسی حوالے سے ایک ہی دن تین سیمی نار
کےڈول ڈالا تو فقیر رھگزر کو بھی یاد رکھا ……….یہ اسی تقریب کی رونمای ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“