انسان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے اگر پوچھا جاۓ کہ وہ کون سے روپ میں زندگی بسر کرنا پسند کرۓ گا تو شاٸد کوٸ بھی تخلیق کار دنیا کا رخ نہ کرتا کیونکہ تخلیق کار ہونا بہت تکلیف دہ عمل ہے خواہ ایک ماں کا روپ ہو یا آرٹسٹ کا، فن کابوجھ ہر سانس دوبھر کر دیتا ہے اور فنکار نہ جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے ، جو کام ذہ لگا کر بھیجا گیا وہ ہر حال میں کرنا پڑتا ہے ،وہ صادقین ہو جون ہو یا نصرت فتح علی ،ایک موسیقار سر ملانے کے لیۓ جس اذیت سے گزرتا ہے وہ دوسرا کوٸ نہیں جان سکتااور جب کبھی کبھار لفظوں اور سر کا ملن ہو جاۓ تب سر چھڑتے ہیں جس کی بازگشت آنے والی نسلوں تک پہنچتی ہے اکثر سر تو ادھورے ہی کہیں کھو جاتے ہیں۔
یہی حال لفظوں کی بنت کاہےوڈزورتھ ہونا یا غالب کے سہل ممتنع کا بیان ،آسان ترین الفاظ میں مشکل مضامین اتنی عمدگی سے بیان ہوۓ ہیں کہ بے ساختہ داد کو دل چاہتا ہے ، جون ہو یا ساغر بادہ خواری میں خود کو کھو دیا مگر کس چیز کی تلاش نے ایسے قابل لوگوں کو اتنا مجبور کیا کہ تلاشتے تلاشتے اپنی ہی ذات کو اندھیروں کے حوالے کر دیا ،تخلیق پورا انسان اور وقت مانگتی ہے ادھورے انسان سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ ماں اور عام عورت میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے کہ ماں وقت دیتی ہے تکلیف جھیلتی ہےکیونکہ تخلیق کرنا اس کی فطرت ہے۔