جیمز ویب ٹیلیسکوپ سے لی گئی حالیہ تصویر(اوپر والی) جو “تخلیق کے ستونوں” یعنی Pillars of Creation کی ہے جو ہماری کہکشاں ملکی وے میں ہیں۔ یہ ہم سے 6500 نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ اس تصویر میں سرخ حصے وہ جگہ ہے جہاں نئے ستارے بنتے ہیں۔ خلائی گرد اور گیسوں سے بنے، کس رعونت سے ایستادہ یہ تخلیق کے ستون کئی ستاروں کی جنم بھومی ہیں۔
مگر رکیے!! سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ تخلیق کے ستون شاید اب ختم ہو چکے ہوں۔ دراصل پہلی تصویر میں ہم انہیں اب کی حالت میں نہیں بلکہ 6500 سال پہلے کی حالت میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان سے نکلتی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 6500 سال لگے۔
مگر یہ کیسے تباہ ہوئے ہونگے؟ دراصل 1997 میں ناسا ہی کی خلا میں موجود ایک اور ٹیلی سکوپ سپیٹزر نے اسکی ایک تصویر لی جو نیچے موجود ہے۔ اس تصویر میں اوپر کی طرف بائیں جانب سرخ رنگ میں دکھتی گیس ہے۔محققین کا ماننا ہے کہ آج سے قریب 7 ہزار سال پہلے انکے قریب ایک سپرنونوا یعنی ایک بہت بڑا ستارہ پھٹا جس سے توانائی کی اتنی شدت پیدا ہوئی ہو گی کہ ان ستونوں میں موجود گیس گرم ہو کر بپھر گئی ہو گی مگر ہم یہ بپھرنا کا منظر اگلے ایک ہزار سال تک نہیں دیکھ پائیں گے۔ کیوں؟
کیونکہ اس سارے عمل میں کم سے کم ہزار سال لگے ہونگے۔ اور اب شاید ہماری آئندہ کی نسلیں ہی ان ستونوں کی تباہی کو دیکھ سکیں۔
تخلیق کے ستون! جو ہیں بھی اور نہیں بھی!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...