Anesthesia
(انستھیزیا)
1799ء میں سر ہمفری ڈیوی نے سب سے پہلے مصنوعی طور پر بے ہوشی لانے والے مادوں کا استعمال کیا۔ قیاس ہے کہ اس دور کے اطبا کو یونانی زبان کی خاصی شدبد تھی اور انہیں معلوم تھا کہ افلاطون نے اس قسم کی ” بے حسیت“ کے لئے "anaisthesia" کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہ لفظ اصل میں یونانی سابقے "an" اور "aisthesis" (احساس) کے ملنے سے بنا تھا۔ اس مناسبت سے بے ہوشی یعنی حواس کے معطل ہو جانے کی صورت کو anesthesia (تخدیر) کہا جانے لگا۔ اس حالت میں کسی چیز یا کیفیت کو محسوس کرنے کی صلاحیت ختم یا کم ہو جاتی ہے، یوں مکمل یا جزوی بے ہوشی واقع ہوتی ہے۔
بنیادی طورanesthesia کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک کسی حادثے یا واقعے، بیماری یا زخم کی وجہ سے خود بخود پیدا ہوجانے والی قدرتی بے ہوشی (جب کسی چوٹ یا شدید درد کی وجہ سے تکلیف برداشت سے باہر ہو جائے تو ایک قدرتی خود کار نظام کے تحت جسم کا حسی نظام کچھ دیر کے لئے معطل ہو جاتا ہے اور یوں انسان پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے)۔ دوسری کسی بے ہوش کرنے والی چیز کے نگلنے، سونگھنے ، یا وریدی یاعضلاتی انجکشن کے ذریعے خون میں بے ہوشی آور مادے داخل کرنے سے پیدا ہونے والی مصنوعی بے ہوشی (یا آپریشن وغیرہ کے لئے تکلیف کے احساس کو ختم کرنے کے لئے کی جاتی ہے)۔ اس طرح کی مصنوعی بے ہوشی پیدا کرنے والے مادے anesthetic (مخدر) کہلاتے ہیں۔ ان مادوں میں ایتھر، کلورو فارم اور کوکین وغیرہ شامل ہیں۔ اس اصطلاح میں "tic-" کا لاحقہ یونانی ماخذ رکھنے والے اسما کے صفات بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے analysis سے analytic– جو شخص ان مخدرات کے استعمال کا فن جانتا ہو anesthetist (تخدیر کار۔ خادر) کہلاتا ہے۔ یہ عام طور پر کوئی ماہر نرس یا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ ان مخدرات کے استعمال کے سائنسی علم کو anesthesiology (مخدریات) کا نام دیا گیا ہے اور جو ڈاکٹر اس عمل میں خصوصی مہارت حاصل کر لے anesthesiologist کہلاتا ہے۔
مصنوعی بے ہوشی کے نتیجے میں اگر پورے جسم کا حسی نظام معطل ہو جائے اور انسان بظاہر مکمل بے جان نظر آئے تو ایسی صورت کو general anesthesia (کامل بے حسی یا بے ہوشی) کہا جاتا ہے۔ ایسا عموماً کسی ایسے بڑے آپریشن کے لئے کیا جاتا ہے، جس میں انسان کے کسی انتہائی نازک حصے کی جراحت یا اندرونی نظام میں کوئی بڑی یا چھوٹی تبدیلی کرنا مقصود ہو جیسے دل یا گردے کا آپریشن ۔ بعض اوقات بیماری یا زخم کی وجہ سے کسی بیرونی عضو یا عضو کے کسی حصے کی معمولی سی قطع و برید ضروری ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں صرف اسی عضو یا عضو کے کسی حصے کو سن کر دینا کافی ہوتا ہے، اسے local anesthesia (مقامی بے حسی) کہا جاتا ہے جیسے دندان ساز دانت نکالتے وقت کرتے ہیں۔ اس عمل کو سب سے پہلے 1844ء میں استعمال کرنے والا شخص ایک امریکی دندان ساز ہوریس ویلز (Horace Wells) تھا۔ درد اور تکلیف کے احساس کو کم کرنے اور اعصابی نظام کو جزوی طور پر سن کرنے کے لئے کچھ اورادویات بھی منہ کے ذریعے یا خون کی وریدوں یا عضلات میں انجکشن کے ذریعے استعمال کی جاتی ہیں۔ انہیں analgesics (دافع درد یا مسکن ادویات) کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح میں "-an" کا یونانی سابقہ ”دافع ‘‘یعنی ”دور کرنے والی‘‘ کے معنوں میں آتا ہے جبکہ algesic یونانی کے "-algo" سے ہے جس کے معنی ”درد‘ ہے۔ ان ادویات کے استعمال سے درد اور تکلیف کا احساس کم ہو جاتا ہے اور استعمال کرنے والا نہ تو بے ہوش ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کسی قسم کی نیند آتی ہے یعنی اس کے تمام حواس قائم رہتے ہیں۔ اسپرین اور مارفین کی قسم کی ادویات اسی ذیل میں آتی ہیں۔
انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی کچھ اور ادویات بھی ہیں جو narcotics کہلاتی ہیں۔ یہ دماغ کے خاص طور پر تکلیف کو محسوس کرنے والے حصے کو مفلوج کر دیتی ہیں۔ یہ ادویات درد کی شدت کو ختم کر کے نیند یا غنودگی طاری کر دیتی ہیں۔ اس کے استعمال سے انسان کو سکون محسوس ہوتا ہے۔ ان کے نام میں "-narco" کا سابقہ یونانی زبان کے "narke" (سن ہوجانا۔ سخت ہو جانا) سے ہے-
tranquillizers اعصابی دباؤ کو کم کرنے اور پریشانی اور ذاتی پراگندگی کو دور کر دینے والی ادویات ہیں۔ یہ سکون آور ادویات کی طرح اعصابی نظام کو معطل نہیں کر تیں۔ نہ ہی ذہنی یا جسمانی سرگرمی کو سست کرتی ہیں۔ یہ لفظ لاطینی زبان کے "tranquill" (اطمینان۔ قرار۔ خاموش) سے ماخوذ ہے۔ یہ ادویات انسان کے خون کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کر کے پریشانی سے نجات دلاتی اور اطمینان مہیا کرتی ہیں۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔