مجھے سنٹرل میلبورن کے ریلوے اسٹیشن پر اترنا تھا جہاں شہر کی مرکزی لائبریری ہے۔ میرے سامنے کی سیٹ پر دو مسافر محو گفتگو تھے۔ ایک بھارتی تھا اور دوسرا سفید فام۔ بھارتی اسے بتا رہا تھا کہ دہلی کا زیر زمین ریلوے سسٹم دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ دھچکا مجھے اس وقت لگا جب اس نے ایک خندئہ استہزا کے ساتھ گوری چمڑی والے کو کہا کہ تمہارا سڈنی اور میلبورن کا زیر زمین ریلوے نظام دہلی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں! اسکے بعد کے پانچ گھنٹے میں نے میلبورن کی مرکزی لائبریری میں بھارت کے زیر زمین ریلوے نظام پر معلومات حاصل کرنے میں بسر کر دیئے لیکن احساس شکست کایہ عالم تھا کہ میں تصور میں اس بھارتی کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
بھارت نے 1984ءمیں کلکتہ میں مانو ریل یعنی ایک لائن کی اندرون شہر ریلوے شروع کی۔ اب یہاں پانچ مزید لائنیں زیر تعمیر ہیں۔ 1997ءمیں مدراس (موجودہ چنائی) میں یہ نظام قائم ہوا لیکن بھارتیوں کا اصل کارنامہ دہلی میں سات لائنوں کے جدید ترین زیرزمین ریلوے سسٹم کا قیام ہے جو 2002ءمیں شروع ہوا اور آج اس کے 142 سٹیشن ہیں جن میں سے 35 زیرزمین ہیں۔ گڑگاﺅں، نویرا اور غازی آباد کی نواحی بستیاں بھی اس سسٹم سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ کل لمبائی ایک سو نوے کلومیٹر ہے۔ ہر تین منٹ کے بعد ٹرین آ تی ہے۔ ہر روز سولہ لاکھ مسافر اس پر چڑھتے اور اترتے ہیں۔ جولائی2011ءتک اس پر سوا ارب مسافر سوار ہو چکے ہیں۔ اس عظیم الشان کام کی منصوبہ بندی 1984ءمیں ہوئی۔1995ءمیں مرکزی حکومت اور دہلی کی مقامی حکومت نے شراکت کا ڈول ڈالا۔ 1998ءمیں تعمیر کا کام شروع ہوا۔2002ءمیں واجپائی نے پہلی لائن کا افتتاح کیا۔ جب 2006ءمیں اس منصوبے کا پہلا حصہ توقع سے تین سال پہلے ختم ہوا تو نیویارک سے شائع ہونے والے مشہور بزنس ویک نے اسے معجزہ قرار دیا۔ پورے سسٹم کو مختلف لائنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مثلاً سرخ لائن دلشاد باغ اور رٹھالہ کے درمیان قائم ہے۔ اس روٹ پر 23 ٹرینیں چل رہی ہیں۔ جہانگیر پورہ اور ہدیٰ سٹی کے درمیان بچھی ہوئی ریلوے لائن کا نام زرد لائن ہے۔ یہاں 45 ٹرینیں مسافروں کی خدمت پر مامور ہیں۔ نیلی لائن پر 59 ٹرینیں، سبز لائن پر پندرہ ٹرینیں ، کاسنی لائن پر 29 ٹرینیں اور ائر پورٹ روٹ پر آٹھ ٹرینیں رات دن چل رہی ہیں۔ دہلی کی زیر زمین ریلوے کے نظام کی مزید توسیع کی جا رہی ہے۔ سینکڑوں نئے ریلوے اسٹیشن بنانے کی منصوبہ بندی ہے اور کئی سو میل لمبی ریلوے لائن مزید بچھائی جا رہی ہے۔ جن دوسرے شہروں میں زیر زمین ریلوے سسٹم قائم کرنے کی پلاننگ ہو رہی ہے ان میں بھوپال، چندی گڑھ، احمد آباد، اندور ، کوچی ، لکھنئو، لدھیانہ، ناگپور، پٹنہ اور پونا شامل ہیں۔
ہمار ے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو گی کہ بھارت کی اس مثالی ترقی کے مقابلے میں پاکستان ذرائع آمد و رفت کے حوالے سے مسلسل تنزل کا شکار ہے۔ پی آئی اے کی حالت سب کو معلوم ہے۔ اس ادارے کی بدبختی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس میں ملازمتیں کسی اعلان یا اشتہار کے بغیر ہمیشہ سیاسی یا ”ذاتی“ بنیادوں پر دی جاتی ہیں۔ ریلوے ہمارے دیکھتے دیکھتے تدفین کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ جی ٹی ایس کے ز مانے میں اچھی بھلی بسیں چلتی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ جی ٹی ایس کو چھری کانٹے سے کھا لیا گیا۔ بڑے بڑے ڈپو، پلاٹ خوری کی نذر ہو گئے۔
ہماری کوتاہ اندیشی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ پرویز مشرف نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ کاروں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے یعنی ہم نے ترقی کی ہے۔ اس ”عقل مند“ آمر کو کون بتاتا کہ ترقی کاروں کی تعداد سے نہیں ماپی جاتی بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم سے ماپی جاتی ہے اور پھر ہمارے ہاں کاروں کی تعداد جس قدر بڑھی ہے، اتنی ہی گداگروں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد ہی میں عوام کی حالت زار دیکھیں تو اس ملک پر ترس آتا ہے۔
کراچی میں شہر کے شمالی حصے سے صدر اور ڈیفنس آنا ایک عذاب سے کم نہیں۔ یہی حال لاہور کا ہے ویگنیں اور بسیں مسافروں کے ساتھ بھیڑ بکریوں بلکہ کتوں بلیوں کا سلوک کرتی ہیں۔ کرائے آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔ شیر خوار بچوں کو گود میں لئے خواتین بس سٹاپوں پر کھڑی حکمرانوں کو زبانِ حال سے بددعائیں دے رہی ہیں ….
میں تمہاے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں
اس سارے منظر کو دیکھتے ہوئے بھارت کی مواصلاتی ترقی پر نظر اٹھتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور ذہن میں ایک ہی لہر بار بار اٹھتی ہے کہ پس چہ باید کرد؟
میں بحریہ ٹاﺅن والے ملک ریاض کو کبھی نہیں ملا نہ ہی کبھی بحریہ کے رہائشی منصوبوں میں رہنے کی ضرورت پڑی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح اس ملک میں رہائشی منصوبوں کے حوالے سے ملک ریاض نے انقلاب برپا کیا، وہ ضرور قابل ذکر ہے۔
انکے نام کے سامنے سوالیہ نشا ن بھی پڑے۔ پاکستان نیوی سے ان کی مقدمہ بازی ہوئی۔ کار ریس میں حادثہ ہوا تو ان کے بیٹے کا نام اس میں آیا۔ انہوں نے مارگلہ کی پہاڑیوں میں سرنگ بنا کر مزید زمین اسلام آباد میں لانے کی مہم چلائی تو ماحولیات کے محافظوں نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ یہ ساری باتیں حقائق پر مشتمل ہیں اور ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک ریاض نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا اور اب وہ ایک ایمپائر چلا رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایک زمانے میں ان کی اہلیہ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ پانچ مرلے کا مکان ہو اور ان کا اپنا ہو،جس شخص نے یہاں سے سفر شروع کیا ہو اور آج وہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایک ایمپائر بنا چکا ہو تو سارے سوالیہ نشانات کے باوجود ایک بات واضح ہے کہ وہ کچھ کر سکتا ہے!
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ملک ریاض کو اس ملک کےلئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ یہ کالم نگار نوائے وقت کے حوالے سے یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ حکومت ملک ریاض کو اسلام آباد لاہور اور کراچی میں زیر زمین ریلوے سسٹم قائم کرنے کی دعوت دے۔ وہ اس کام کےلئے وقت کا تعین کرے۔
ملک ریاض کو سرخ فیتہ، نوکر شاہی، رشوت اور سفارش سے امان دی جائے اور وہ مقررہ وقت پر زیر زمین ریلوے کا سسٹم قوم کے حوالے کریں۔ حکومت انہیں کچھ بھی نہ دے۔ معاہدہ کی رو سے اس سسٹم سے جو آمدنی حاصل ہو وہ ایک یا دو یا چار سال کیلئے ملک ریاض کو دے دی جائے تاکہ وہ اپنی لاگت اور منافع وصول کر لیں اور اسکے بعد زیر زمین ریلوے کا چلتا ہوا کامیاب نظام حکومت کے حوالے کر دیں۔
کیا یہ انقلابی تجویز کسی حکمران کی آنکھ میں تھوڑی سی نمی لا سکتی ہے؟ ”الیس منکم رجل الرشید“