راجہ منصور احمد صاحب کی دختر نیک اختر لندن میں قیام پذیر تھی۔ اس نے اپنے والد کے لیے ایک کوٹ بھیجا۔ راجہ صاحب نے پہنا تو ان کے ماپ سے کوسوں دور تھا۔۔۔ بے حد کھلا اور لمبا۔ انہوں نے صاحبزادی کو سرزنش کی کہ ماپ لیا‘ نہ ہی یہ پوچھا کہ ضرورت بھی ہے یا نہیں! کوٹ اعلیٰ درجے کے برانڈ کا تھا۔ اپنی اولاد کا پیسہ خرچ ہو تو فیاض سے فیاض شخص کو بھی رنج پہنچتا ہے۔ صاحبزادی ہنسی اور کہنے لگی: ابا جان! جب بھی لندن آئیے گا یہ بدل لیں گے۔ راجہ صاحب کا موڈ اور بھی خراب ہو گیا۔ ان کا مستقبل بعید میں بھی لندن جانے کا پروگرام نہیں تھا۔ انہوں نے نئی نسل کے خرچیلے پن کی تضحیک کی۔ کوٹ صندوق میں بند کیا، صندوق سٹور میں رکھا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
دو سال گزر گئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ راجہ صاحب کو امریکہ کا سفر درپیش ہوا۔ صاحبزادی نے اصرار کیا کہ واپسی پر اس کے پاس انگلستان میں کچھ دن رکیں۔ نواسوں کی مہک، گلاب اور یاسمین سے زیادہ مسحور کن ہوتی ہے۔ بیٹی نے یاد دلایا کہ وہ متنازع کوٹ بھی لیتے آئیے گا۔ بحر اوقیانوس کو پار کر کے راجہ صاحب ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترے تو معلوم ہوا کہ بیٹی کی فیملی برمنگھم منتقل ہو گئی ہے۔ برمنگھم میں چند ہفتے قیام کے دوران راجہ صاحب نے شہر کی خوب سیر کی۔ داماد اور بیٹی دونوں اپنی اپنی ملازمتوں پر چلے جاتے، بچے سکولوں میں، راجہ صاحب شہر پیمائی کرتے۔ ایک دن بازار میں گھومتے ہوئے انہیں اس کمپنی کا بورڈ نظر آیا جس کا بنایا ہوا کوٹ ان کے پاس تھا۔ وہ اندر گئے، وسیع و عریض سٹور تھا، حد نگاہ تک ملبوسات نظر آ رہے تھے۔ کائونٹر پر بیٹھے شخص سے انہوں نے بات کی۔ اس نے کہا، کل لے آئیے اور بدل لیجیے۔ راجہ صاحب نے اسے بتایا کہ تین باتوں کی وضاحت ابھی سے کر دوں۔۔۔ کوٹ کی رسید نہیں ہے، آپ سے یعنی برمنگھم سے نہیں خریدا گیا بلکہ لندن کی فلاں برانچ سے خریدا گیا تھا اور ٹیگ (Tag) بھی اتر گیا ہے۔ کائونٹر والا مسکرایا، اس نے صرف ایک سوال پوچھا: ’’ آپ نے استعمال تو نہیں کیا؟‘‘ راجہ صاحب نے کہا نہیں!
وہ کائونٹر سے پلٹنے لگے تو اس نے کہا: ’’آپ دوسرا کوٹ ابھی چن لیجیے، ہو سکتا ہے کل تک کچھ کوٹ فروخت ہو جائیں‘‘۔ راجہ صاحب نے اپنے ماپ کا کوٹ چنا اور کائونٹر والے نے اسے اپنے پا س رکھ لیا۔ دوسرے دن وہ دو سال پہلے کا خریدا ہوا کوٹ لے کر گئے، کائونٹر والے نے اسے دیکھا نہ کھولا، ان کے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے پڑے ہوئے میز پر رکھ دیا۔ اس نے نئے کوٹ کی رسید بنائی، راجہ صاحب کے حوالے کی اور بدلا ہوا کوٹ انہیں تھما دیا۔ چند دن بعد انہوں نے واپسی کا سفر کیا۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر متعلقہ محکمے نے کوٹ کی رسید دیکھی اور ٹیکس کی رقم واپس کر دی۔
راجہ صاحب نے یہ داستان امیر حمزہ بے تصویر کیوں سنائی؟ اس لیے کہ ایک ہفتہ پہلے وہ ملے تو بھنائے ہوئے تھے۔ غیظ و غضب کا سبب پوچھا تو بتانے لگے کہ ان کی بیگم نے شہر کے مشہور پارچہ فروش سٹور سے جو صرف اپنا برانڈ فروخت کرتے ہیں، کچھ ملبوسات خریدے۔ دو بیٹیوں اور بہوئوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ملبوسات بدلوانے پڑے۔ جیسا کہ ہماری خواتین عام طور پر کرتی ہیں، بیگم صاحبہ رسید کھو چکی تھیں۔ مشہور و معروف برانڈ سٹور کے کائونٹر والے نے رسید کے بغیر کپڑے بدلنے سے انکار کر دیا۔ بیگم صاحبہ نے پوچھا کیا یہ کپڑے تمہارے ہاں کے نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ بالکل ہمارے ہی ہیں اس لیے کہ یہ ڈیزائن، یہ پرنٹ ہمارے مخصوص ہیں۔ ابھی کپڑے سلے بھی نہیں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے اسی یعنی میری ہی برانچ سے خریدے ہیں لیکن ہماری ’’پالیسی‘‘ یہ ہے کہ رسید کے بغیر ہم بدل کر نہیں دیتے۔ اس رویے سے موازنہ کرتے ہوئے راجہ صاحب نے انگلستان والا واقعہ سنایا!
ہم پاکستانی عوام اس رویے، اس ’’حسن سلوک‘‘ کے عادی ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں نے بیرون ملک تاجروں، دکانداروں، سٹوروں اور کمپنیوں سے خریداری کا تجربہ کیا ہوا ہے، صرف ان کی آگہی انہیں احساس دلاتی رہتی ہے کہ پاکستانی صارف کس عذاب، کس تذلیل اور کس بدسلوکی کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے، ایک عزیزہ نے دارالحکومت کے بہت بڑے کفش فروش سے اپنے میاں کے لیے جوتے خریدے۔ دوسرے دن، صرف چوبیس گھنٹے بعد بدلوانے گئی، رسید دکھائی، تاجر نے انکار کر دیا۔ خاتون نے اصرار کیا‘ تو حاجی صاحب نے چار سنا بھی دیں! امریکہ میں جوتا، ایک سال پہننے کے بعد بھی رسید دکھا کر بدلا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اکثر و بیشتر خریدی ہوئی اشیا بدلنا معمول کی کارروائی ہے، غالباً اس لیے کہ باقی دنیا کے تاجر دیگیں تقسیم کرتے ہیں نہ دکانوں کی پیشانیوں پر مقدس کلمات لکھواتے ہیں، ہاں! عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ مہذب ہیں!
کوئی مانے نہ مانے، پسند کرے یا چیں بر جبیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی تاجروں کی اکثریت اکل حلال سے محروم ہے۔ اس کے سات اسباب ہیں۔ اول، اس ملک میں ملاوٹ اور جعل سازی عام ہے۔ خوراک ہو یا ادویات یا استعمال کی دوسری مصنوعات، حتیٰ کہ معصوم بچوں کا دودھ بھی خالص نہیں ملتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تاجر برادری کی اکثریت بظاہر دیندار ہے اور کسی نہ کسی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دوم، شے فروخت کرتے وقت نقص نہیں بتایا جاتا بلکہ چھپایا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے ایسا کرنا فرشتوں کی طرف سے لعنت بھیجنے کا سبب بنتا ہے۔ سوم، بھاری اکثریت ناجائز تجاوزات کے گناہ میں مبتلا ہے۔ پبلک کے لیے بنائے گئے فٹ پاتھ، سڑکیں، گلی کوچے، برآمدے، دوسروں کی زمینیں، سب تاجر حضرات کے قبضے میں ہیں اور ان کی آمدنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ ان ناروا تجاوزات کی وجہ سے آمدنی دائرہ حلال سے باہر ہو جاتی ہے۔ پبلک ان تجاوزات کی وجہ سے جس عذاب سے گزر رہی ہے اس کا گناہ الگ ہے۔ چہارم، ’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا‘ یہ مکروہ بورڈ صرف اسی ملک میں نظر آتا ہے۔ خریدار کا بنیادی حق ہے کہ وہ بغیر سبب کے بھی شے واپس یا تبدیل کر سکتا ہے۔ ہمارے تاجروں کی اکثریت یہ حق غصب کیے ہوئے ہے۔ پنجم، حکومت کی کوشش کے باوجود تاجر بضد ہیں کہ وہ کاروبار کا آغاز دن کے گیارہ یا بارہ بجے کے بعد ہی کریں گے اور رات کے دس گیارہ بجے اختتام کریں گے، اس سے سماجی سیٹ اپ تو تباہ ہو ہی رہا ہے اور دیر سے سونے اور دیر سے اٹھنے کی وبا بھی عام ہے، ملکی سطح پر توانائی کا بے محابا ضیاع اس کے علاوہ ہے جو ایک بہت بڑا قومی جرم ہے۔ ششم، ٹیکس چوری اس طبقے میں عام ہے۔ جب کبھی حکومت اس ضمن میں مہم چلاتی ہے تو تاجر حضرات دلیل دیتے ہیں کہ ٹیکس کی رقم صحیح مد میں خرچ نہیں کی جا رہی۔ یہ دلیل ایک حد تک درست ہے لیکن اس بنیاد پر ٹیکس دینے سے انکار لاقانونیت کے مترادف ہے۔ یہ انکار ریاست سے بغاوت کے دائرے میں آتا ہے۔ اگر تاجروں کے تتبع میں کل سرکاری ملازم بھی ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کر دیں تو ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ٹیکس کی رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے اور کہاں خرچ ہونی چاہیے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور اس کے لیے علیحدہ مہم چلنی چاہیے۔ اور ہفتم، ان سب ناروا کاموں کے باوجود دینداری کا دعویٰ اور نمود و نمائش کے لیے مذہبی رسوم کی بجا آوری، ریاست کے ساتھ ساتھ دین کا بھی مذاق اڑانے کے مترادف ہے! یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے تاجر موجود ہیں جو ان جرائم سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
پاکستانی صارف ہمدردی ہی کا نہیں، رحم کا بھی مستحق ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔