اس کے لئے تین تجاویز ہیں۔
پہلی تجویز انکساری۔ دوسری، استاد والا رویہ اور تیسری، جرات۔ غلط کو غلط کہنے کی۔ آپ کے بچے کے استاد نے کچھ بتایا ہے، دفتر میں یا حلقہ احباب میں کوئی بات ہوئی ہے۔ اگر آپ کو معلوم ہے کہ غلط ہے تو خاموشی سے سن لینا کسی کی مدد نہیں کرے گا۔ اس کا مطلب کسی فسادی والا رویہ اپنانا نہیں۔ سلیقے سے نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
اور اگر کہیں کسی جگہ پر وقت دینا ہے تو مکمل طور پر دیں۔ صرف رائے دے کر خاموش نہ ہو جائیں، یہ معلوم کریں کہ دوسرا کیا سوچتا ہے اور کیوں۔ اس کی کہانی سمجھیں اور موضوع کے بارے میں اس کی معلومات جانیں۔ اور اگر کہیں کوئی چیز ہے جس کا آپ کے پاس اچھا جواب نہیں تو یہ بہترین موقع ہے۔ کہہ دیں کہ آپ کو معلوم نہیں اور مل کر تلاش کرتے ہیں۔ کسی کی راہنمائی کا بہترین طریقہ یہ نہیں کہ اسے بتا دیا جائے کہ کیا سوچنا ہے بلکہ یہ کہ کیسے سوچنا ہے۔
جاننے کے پراسس کا سکھائیں۔ یہ آسان نہیں ہے اور کسی کے پاس آسان جواب نہیں ہوتے۔ معقول جوابات تک اس وقت پہنچا جا سکتا ہے جب ہم فیکٹ کا اور ایکوریسی کا اور منطق کا احترام کریں۔
ان لوگوں سے خیالات کا تبادلہ کریں جو آپ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ خود کو اور دنیا کو جاننے کا بہترین طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں ایسے مقامات آئیں گے جب کسی دوست یا عزیز سے مشکل موضوع پر بات کرنی پڑے گی جو اہم ہو گا۔ کینسر کی تشخیص کے تجویز کردہ علاج کے بجائے وٹامن سے علاج کروانے کا سوچ رہا ہو گا۔ یا کوئی ملٹی لیول سکیم میں سرمایہ کاری میں پھنسا ہو گا۔
دوستوں اور عزیزوں سے ایسا مکالمہ آسان نہیں لیکن ایسا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور اس جواب کی توقع نہ رکھیں کہ وہ سنتے ہی کہہ دے گا کہ “اچھا، اب پتا لگ گیا”۔ جواب دفاعی بھی ہو سکتا ہے اور جارحانہ بھی۔
اگر آپ نفسیاتی مکینزم کو جانتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ اپنے پسندیدہ یقین کے دفاع کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اپنے عزیزوں سے بات کرتے ہوئے اس چیز کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ انکساری اور تحمل ضروری ہے اور توجہ معاملے کے بارے میں انفارمیشن فراہم کرنے پر رکھیں نہ کہ بحث جیتنے پر۔ اور کسی سے بھی بحث کرتے وقت خاص طور پر یہ یاد رکھیں کہ آپ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔اس امکان کو سب سے پہلے توجہ دیں۔
اور سوشل میڈیا پر تو آپ کا مخالف آپ کو اصل زندگی نہیں ملے گا۔ آپ دو چار نقطے والے یا بے نقط سنا کر کمپیوٹر بند کر کے آم کھانے جا سکتے ہیں۔ لیکن اپنے شریکِ حیات سے رشتے میں برسوں کی رفاقت کی سرمایہ کاری ہے۔ تحمل اور صبر سب سے پہلے۔
اچھی بات یہ ہے کہ خواہ اپنے عزیز ہوں یا اجنبی، لوگ بدل سکتے ہیں۔ اگرچہ اس کا کوئی لگا بندھا فارمولا نہیں اور یہ آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ والدین ہیں تو بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ ان میں کریٹیکل سوچ پیدا ہو۔ آپ اپنے بچے کو کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ان پر اثرانداز ہونے کا پہلا قدم ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا ہے اور اس درمیان میں ان کے سوالات کی اور تجسس کی آہستہ آہستہ حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
اگر وہ کوئی سوال کریں تو صرف جواب دینا کافی نہیں۔ بچہ سوال کرے کہ “ڈائنورسار کا رنگ کیا تھا” اور اگر “سبز” یا “پیلا” وغیرہ کہہ دیا تو وہ خاموش ہو جائے گا۔ لیکن ایک موقع کھو دیا جس میں اکٹھے ملکر کچھ ڈھونڈ سکتے تھے۔ یہ بھی جان سکتے تھے کہ بہت سی چیزوں کا کسی کو بھی علم نہیں اور دریافت ایک مسلسل پراسس ہے۔ اور یہ ذہن میں رکھیں کہ بچے اس سے زیادہ چیزیں سمجھ لیتے ہیں جتنا بڑے ان سے توقع رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب استاد بھی ہیں اور طالب علم بھی اور تمام عمر ایسے ہی رہتے ہیں۔ آپ کے پاس کچھ نہ کچھ ہے جو کسی کو سکھا سکتے ہیں اور سکھانا سیکھنے کا بڑا بہترین طریقہ ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے معلوم ہے کہ سیکھنے کا عمل ایک روز ختم ہو جائے گا۔ خواہش ہے کہ اس کا ختم شُد زندگی کے ختم شُد کے ساتھ ہو۔
ختم شُد