اس وقت میری عمر بیس یا بائیس سال تھی ۔ اس زمانے میں لوگوں کے پاس نجی گاڑیاں کم تھیں اور نہ ہی اس وقت تک اے سی بسیں چلیں تھیں ۔ اس وقت حیدرآباد سے کراچی سپر ہائی وے پر میاں والی کے جاہل بدتمیز اور جٹ ڈرائیور اور کنڈیکٹر گاڑیاں چلایا کرتے تھے ۔ جن کی کوشش ہوتی تھی کہ گاڑی کو اوپر سے نیچے تک بھر لیں ۔ یہ مسافروں کو بھرنے کے لیے خوار بہت کرایا کرتے تھے اور راستہ میں بہرام گوٹھ موجودہ نوری آباد میں دیر تک گاڑیاں روکتے تھے ۔ جس کی وجہ سے دو گھنٹے کا سفر چھ سات کھنٹے میں طہ ہوتا تھا ۔ ان بسوں میں تیز گانے بجا کرتے تھے جو کہ سر میں درد کر دیا کرتے تھے ۔ انہیں کچھ کہو تو لڑنے پر آمادہ ہوجاتے تھے ۔
میں کراچی جا رہا تھا اور میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو میرے ہاتھ کتاب ہوتی ہے ۔ مجھے پڑھنے کا ایسا جنون تھا کہ پیدل چلتے ہوئے بھی کتاب پڑھا کرتا تھا ۔ حسب معمول میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور میں اس کا مطالعہ کر رہا تھا مگر تیز ریکاڈنگ کی وجہ سے سر میں درد ہونے لگا ۔ میں کھڑا ہوگیا اور کنڈیکٹر سے کہا کہ آواز کم کردو ۔ کنڈیٹر جواب میں منہ ماری کرنے لگا کہا آواز کم نہیں ہوگی اگر اترنا ہے تو اتر جاؤ ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے گاڑی روکو میں اتر رہا ہوں ۔
میری ساتھ کی نشت پر بیٹھے ہوئے تین آدمیوں نے مداخلت کی اور کنڈیکٹر کے مقابلے میں میری حمایت کی ۔ ان صاحبوں کا میں نے شکریہ ادا کیا ۔ ان تینوں میں ایک صاحب کو میں جانتا تھا ۔ ان کو میں اسلامی جمعیت کی پارٹیوں میں دیکھ چکا تھا ۔ وہ صاحب جماعت اسلامی کے رکن اور ایک بڑے اسٹور کے مالک تھے ۔ نام میں ان کا نہیں جانتا نہیں تھا ۔ وہ صاحب کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے اور مطالع کے عادی لگ لگتے تھے ۔ ان دونوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو اور کون سے کتاب پڑھ رہے ہو ۔ میں نے بتایا توزک جہانگیری ہے اور اپنی جاب کے بارے بتایا ۔ میں نے ان صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میں انہیں جانتا ہوں اور آپ دونوں صاحب کیا کرتے ہو ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ H D A میں افسر ہیں ۔ ایک صاحب نے مجھے سے دیکھنے کے لیے کتاب مانگی ۔ میں نے وہ کتاب ان کے حوالے کر دی ۔ وہ دونوں کتاب کی ورق گردانی کرنے لگے ۔ انہیں کتاب دلچسپ لگی اور مجھ سے کہا یہ کتاب پندرہ دن کے لیے ہمیں دے سکتے ہو ۔ میں نے جواب دیا نہیں ۔ وہ دونوں میرے جواب سے کچھ حیران ہوئے اور کہنے لگے بھائی یہ ہمارا کارڈ ہے اور میں فلاں فلاں جگہ میرا آفس ہے ، اگر مجھے نہیں جانتے ہو تو ان کو تو جانتے ہو ، میں ان کی ضمانت دلادوں ۔
میں نے جواب میں کہا بات ضمانت کی یا اعتماد کی نہیں ہے ۔ یہ کتاب چھ ماہ بھی آپ کے پاس پڑی رہی تو ایسی کی ایسی پڑی رہے گی ۔ کیوں کہ آپ دونوں کو مطالعہ کی عادت نہیں ہے ۔ آپ دونوں صرف ہیڈ لائین پڑتے ہیں اور زیادہ پڑھنے سے آپ کے سر میں درد ہوجاتا ہے ۔ ہاں وہ صاحب کہیں کہ مجھے یہ کتاب دے تو میں انہیں دے دوں گا ۔ کیوں کہ انہیں پڑھنے کی عادت ہے ۔ مگر آپ کو دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ وہ دونوں صاحب میری بات سن کر سیٹ سے اچھل پڑے اور حیرت سے بولے بالکل ٹھیک بات ہے ۔ تم نے یہ کیسے جانا ؟
میں مسکرایا اور کہا بہت سادہ بات ہے ، آپ دونوں یہ کتاب پڑھ رہے تو آپ دونوں کے ہونٹ ہل رہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگ پڑھنے کے شوقین نہیں ہیں اور صرف ہیڈ لائن ہی پڑھتے ہیں ۔ پڑھنے کی کوشش کریں تو سر میں درد ہونے لگتا ہے ۔ وہ دونوں بے ساختہ بولے ، اتنی کم عمری اور اس قدر تجربہ ۔ پھر ان صاحبوں نے کتاب نہیں مانگی ۔
حالانکہ اس میں تجربہ کی کوئی بات نہیں تھی ۔ اگر پڑھنے کا شوق ہو تو بہت سی باتوں کے لیے تجربہ یا مشاہدہ کی ضرروت پیش نہیں آتی ہے اور یہ بات بھی میں پڑھی کہ پڑھنے والوں کے ہونٹ نہیں ہلتے ہیں اور میں صفحہ پر طائر نظر ڈال کر اسے ایک نظر میں پڑھ لیتا ہوں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...