تجمل عباس رانا کی شاعری سے میرا پہلا تعارف کتاب چہرہ یعنی Facebook پہ نقش اِس خوبصورت شعر سے ہوا۔
دھوپ سہنے کی جن کو عادت ہو
اُن کے سائے دراز ہوتے ہیں
یقین مانیے میں تب سے اب تک اِس شعر کی گرفت میں ہوں۔ دھوپ سہنے کی عادت۔۔۔اور پھر سائے کا دراز ہونا۔صنعتِ تضاد بروے کار لاتے ہوئے شاعر کی فنی ریاضت نے روایتی خیال کو کتنا جدید بنا دیا ہے۔یہ دھوپ اور سائے کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ یہ وفادار بھی ہے اور بے وفا بھی ۔ سائے کے گھٹتے بڑھتے رہنےکی سائنس بھی اہل دانش کے لیے غور طلب ہے۔ہر آن تغیر پزیری اُس کی ایک ایسی خوش ادائی ہے جو اُسے لا کھوں سال گزرنے کے باوجود بھی فرسودہ نہیں ہونے دیتی۔غم سہتے سہتے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان مٹی سے پتھر اور پتھر سے چٹان کا روپ دھار لیتا ہے اور تب اُس پہ بڑے سے بڑا حادثہ بھی اثر انداز نہیں ہوتا۔یہی بلند حوصلگی اُسے ایسا بنا دیتی ہے کہ لا شریک بھی پکار اُٹھتا ہے کہ میں صابرین کے ساتھ ہوں۔
پہلے پہل تو میں یہ سمجھا کہ یہ اِن کا پسندیدہ شعر ہوگا جسے محض انتخاب کے طور پر اہل دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔میں نے تجمل عباس کے اعلیٰ ذوق کی تعریف کی لیکن جب مجھ پہ یہ خوشگوار انکشاف ہوا کہ یہ تجمل عباس کی اپنی تخلیق ہے تو پھر میں اِن کی شاعری پڑھتا ہی چلا گیا۔ مجھے اِن کی ہر غزل اور نظم پسند آتی چلی گئی ۔یہ واقعتاً صاحبِ طرز اورمنفرد تخلیق کار ہیں۔ جی چاہا کہ اِس عمدہ شاعر کے حوالے سے ضرور لکھا جائے ،اِن کے ہاں قدیم و جدید کی ایک ایسی آمیزش پڑھنے کو ملی کہ سر دھننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔
سُنے ہیں معجزے ہم نے بہت دستِ شفائی کے
وہ کیوں مانگے شِفا جس کو ترا بیمار رہنا ہے
رفیقو! شہر کب ہے، یہ تو دیواروں کا جنگل ہے
گھروں کے قید خانے میں بڑا دشوار رہنا ہے
دیواروں کو جنگل اور گھروں کو قید خانہ قرار دینا اِس عہد کا ایک ایسا المیہ ہے جس کی زد میں اب ہر کوئی ہے۔فرد کی تنہائی میں ہر گزرتی ساعت کے ساتھ اِضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ایک گھر میں رہنے والے افراد فرد فرد ہوتے جارہے ہیں۔کسی کو کسی کی خبر نہیں ۔ ان حالات میں گھر کو قید خانہ ناں کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ اِس کیفیت میں دل ریت سے بھرا ہوا خیمہ نہ لگے تو اور کیا لگے؟ ایسے میں منزل تو کجا راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا۔
آنکھوں میں گرد گزرے ہوئے کارواں کی ہے
چھٹ جائے یہ غبار تو رستہ دکھائی دے
اپنی تلاش میں گم انسان تذبذب کا شکار ہے۔
مجھے اک بار پھر اپنا جزیرہ ڈھونڈنا ہے
یہ کشتی پھر کسی انجان ساحل پر کھڑی ہے
حوصلہ افزا ءبات یہ ہے کہ ہمارا شاعر قنوطیت کا شکار نہیں ہوا۔اُس کی آنکھیں اچھے دنوں کا راستہ مسلسل دیکھ رہی ہیں ۔ اِس انقلابی لب و لہجے کا فیض اُسے اپنی مٹی سے عطا ہوا ہے۔
اُٹھیں گے اپنے گریبانوں کا علم لے کر
ہمارا دور بھی آئے گا دن وہ دور نہیں
محبت کے جذبے کو جدید و قدیم کےخانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا، یہ وہ انمول جذبہ ہےجس کی گرمی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔اس پر فرسودگی کی گرد پڑتی ہی نہیں ۔جو دل صدیوں پہلے جلوہ حسن دیکھ کر دھڑکتا تھا وہ آج بھی ویسے ہی دھڑک رہا ہے۔تجمل عباس کی شاعری میں یہ دھڑکن نہ صرف محسوس کی جاسکتی ہے بلکہ اُس کی آواز بھی سُنی جاسکتی ہے۔
ملے ہو تم تو اب دل میں خلش رہنے لگی ہے
مجھے اک عمر تک، مجھ سے جدا رکھا گیا تھا
بے وفائی بھی سلیقے سے نہیں کر پائے
تم کسی اور کے ہو جاتے اگر میرے نہیں
سارے جہاں کے کام اُدھورے ہی رہ گئے
دل کو ترے خیال سے فرصت نہ مل سکی
ہمارا یہ فطرت پسند شاعر چاند، سورج، بہار،خزاں،درخت، سویرا،خوشبو، چراغ، گھونسلہ، پرندے، شاخیں ،برگد،بادل، چہرے، شام،دیا ، خیمہ اور ریت جیسے الفاظ کا شعر تراشتے ہوئے چناؤ کرتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ یہ لفظ ہر بار ایک نیا رُخ لے کر سامنے آتے ہیں ۔
کہا ہے شاخ سے کیا برگ نے بچھڑتے ہوئے
کہ زرد ہوگیا پورا شجر لرزتے ہوئے
صِرف یہی مطلع ہی نہیں اُن کے ہاں ایسے مطلعوں کی کثرت ہے جنہیں پڑھتے ہی قاری مکمل غزل پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔بھرتی کا شعر کہیں بھی نہیں ، ہر شعر جانِ غزل دکھائی دیتا ہے۔یہ فطرت پسند شاعر جب شعر لکھتے لکھتے جب اس بدلتی ہوئ دنیا پہ نظر ڈالتا ہے تو وہ مٹتی ہوئ تہذیب اور دم توڑتے اقدار پہ نوحہ کناں ہو جاتا ہے۔
کہیں تو دھڑکنیں انسانوں کی سنائی دیں
کہ جسم سارے مشینوں میں ڈھلتے جاتے ہیں
پرندوں کی نقل مکانی، ویران گھونسلوں کا دکھ ان کی شاعری میں شدت کے ساتھ موجود ہے۔جو حساس دل شاعر پرندوں کا اجڑنا نہیں دیکھ سکتا ،وہ اجڑتے ہوئے شہر اور بھوک سے بلکتے ہوئے بچے کیسے دیکھ پاتا ہوگا؟اِن حالات میں شاعر کا لہجہ تلخ ہونا لازم ہے۔حالانکہ وہ جانتا بھی ہے کہ چپ رہنے میں ہی عافیت ہے۔
خموش رہتے ہیں سب عافیت کے دلدادہ
میں چیخ پڑتا ہوں کیا یہ مرا قصور نہیں
تجمل عباس رانا کی غزلوں کی طرح اُن کی نظمیں خاصے کی چیز ہیں ۔خیالات کی وسعت یہاں غزل سے بھی بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
دوری، اے نشاطِ تنہائی ،شام اک دسمبرکی،تمہارا نام لکھنا ہے ، اعلیٰ پائے کی نظمیں ہیں ۔
“تمہارا نام لکھنا ہے ” کی چند مصرعے دیکھیئے۔
مجھے ساون کی رم جھم پر
شفق کے پھیلتے خم پر
مجھے ہر بوند کے لب پر
مجھے ہر سیپ کے دل پر
تمہارا نام لکھنا ہے
نظموں میں ہندی الفاظ بھی برتے گئے ہیں۔جس سے انفرادیت کے ساتھ ساتھ دل کشی میں بھی اِضافہ ہوا ہے۔اور اب آخر میں ایک نظم “عید پر گاؤں یاد آتا ہے “دیکھئے۔اور ہمارے اِس فطرت نگار شاعر کے فن پر دل کھول کے داد دیجیے۔
عید پر گاؤں یاد آتا ہے
کتنی آسان تھی حیات وہاں
کتنی سستی سی آرزوئیں تھیں
بے زری میں بہت امیر تھے سب
شِیر کھانے کے منتظر بچے
اپنے سستے لباس پر خوش تھے
کانچ کی چوڑیوں کی جھنکاریں
کچے صحنوں میں ایسے گونجتی تھیں
جیسے سارے جہان کی رونق
بھُربھُری چوکھٹوں پہ اُتری ہو
تیکھے پکوانوں کی مہک ہر سو
بھوک کو راستے دکھاتی تھی
بیسنی روٹیوں میں لذت تھی
بیٹھکوں میں ہجوم بچوں کے
کاغذوں پر جلیبیاں رکھ کر
رشک کرتے تھے اپنی قسمت پر
چوڑیوں کی دکان کی سج دھج
اور بہتے ہوئے جواں جذبے
ہر سہاگن کے ہاتھ پر مہندی
ہر گھڑی گہری ہوتی جاتی تھی
جھول کر پینگ پر ہواؤں میں
بچیاں قہقہے بکھیرتی تھیں
کیف تھا اک سرور تھا ہر سو
آنکھ تھی اور نور تھا ہر سو
شہر میں آکے بس گئے جب سے
ہر تعیش مری گرفت میں ہے
اک محل جیسے گھر میں رہتا ہوں
گاڑیوں کی قطار صحن میں ہے
پھر بھی کوئی خوشی نہیں دل میں
ایک انبوہ ناشناساں ہے
اور یہ تنہائی کم نہیں ہوتی
شام ہے اور سحر نہیں ہوتی
اک تصنع میں گھل گئے جذبے
اک تکلف ہے ہر قرینے میں
کار ہائے جہاں سمٹتے نہیں
زندگی بہہ گئی پسینے میں
اک محلے میں رہنے والوں میں
گفتگو عمر بھر نہیں ہوتی
عید آکر گزر بھی جاتی ہے
اور کسی کو خبر نہیں ہوتی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...