کنارِ بحرالکاہل کے اس شہر میں جس کی کل عمر ایک سو اٹھتر سال سے زیادہ نہیں ، گرما کا موسم ہے، لیکن ایسا گرما ، ایسا تابستان شاید ہی کہیں ہو۔ سرما کا آغاز ہوا تو غالب نے کیا دل نشین شعر کہا ؎
عید اضحی سرِ آغازِ زمستان آمد
وقتِ آراستنِ حجرہ و ایوان آمد
جاڑوں کے شروع میں عیدالاضحی آئی تو کیا جھونپڑے کیا محلات، سجاوٹ کا وقت آگیا۔
لیکن افسوس! غالب نے تابستان پر کوئی شعر نہیں کہا۔ تجربہ تو نہیں لیکن شاید وجہ یہ ہو کہ ’’ ش‘‘ سے شروع ہونے والی چیزیں تابستان میں کم اور زمستاں میں زیادہ خوش آتی ہیں۔ بہرطور یہ غالب ہی کو معلوم ہوگا یاانہیں جو بنتِ عنب سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا ؎
شام آئی ہے شراب تیز پینا چاہیے
ہوچکی ہے دیر اب زخموں کو سینا چاہیے
بحرالکاہل کے کنارے اس شہر میں تابستان ہے اور کیا ہی دلکش تابستان ہے! ایک دن درجہ حرارت تیس تو اس کے بعد تین دن سولہ یا بیس اور کبھی تو سولہ سے بھی نیچے! وہ جو ظفر اقبال نے کہا ہے ؎
کیا کیا کھلے ہیں پھول اس اندر کی دھوپ میں
آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں
توگرما کے باوجود درجہ حرارت سولہ ہو تو دھوپ میں سرما ہی کی مٹھاس ہوتی ہے!
مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں دسمبر کی دھوپ کیا رنگ جماتی ہے۔ اداسی سے بھرا رنگ! فقیر نے کہا تھا ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
دارالحکومت کے پارک ،جنہیں زمین ہڑپ کرنے والے آہستہ آہستہ کھا رہے ہیں،زمستاں کی دھوپ میں کیا سحر بکھیرتے ہیں ۔ سرخ، خوں رنگ پتوں والے درخت اور عشاق کے رخساروں جیسی زرد گھاس ! رومی نے کہا تھا ؎
آخر تو شبی رحمی نہ کنی
بر رنگِ رخِ ہمچون زرمن
آخر تو ایک رات بھی میرے چہرے پر رحم نہیں کرتا جو سونے کی طرح زرد ہوگیا ہے!
لگتا ہے رومی کا معشوق بھی پاکستانی اہلِ سیاست کی طرح سنگدل تھا جو عوام کے زرد پچکے ہوئے رخساروں پر رحم نہیں کرتے!
ہوشیار! اشہب قلم سیاست کا رخ کرنے لگا ہے! اس کالم کو سیاست سے دور رکھنے کا ارادہ کیا تھا! خدا کامیاب کرے! کچھ دن ہوئے ایک دوست نے ، جو فون کرکے کالموں کی بے پناہ تعریف کرتے ہیں اور جب ان کے باکمال کالموں کی تحسین کرنا ہو تو فون پر بات ہوسکتی ہے نہ ہی ای میل پہنچ پاتی ہے، لکھا تھا کہ لندن میں واک کا اور بک شاپس دیکھنے کا لطف ہے۔ یہی لطف میلبورن میں بھی ہے۔ ہر طرف پارک ،واک کرنے کے ٹریک، کتابوں کی بڑی دکانیں تو نہیں لیکن لائبریریاں بے شمار اور مرکزی لائبریری سے استفادہ کرنے کے لیے تو عمرِنوح درکار ہے!
بارش آہستگی سے ہورہی ہے! بالکل چپکے سے ، احمد ندیم قاسمی کے بقول ؎
یوں مڑ جیسے پھول کی پتی ،یوں چل جیسے سرگوشی
وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مدہوشی
نویسندہ گرم جیکٹ میں ملبوس ہے۔ حمزہ اور زہرہ آغوش میں ہیں اور تیمور یاد آرہا ہے! تیمور ! جو اس گھر میں جو پہاڑی کے دامن میں کنارِ دریار پر ہے، ایک سفید ریش شخص کا انتظار کررہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جتنا بھی رو رہا ہوتا ہے جیسے ہی لائبریری میں آتا ہے چپ کر جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ شمشیر دیکھتا ہے جو دروازے کے اوپر ، دیوار پر آویزاں ہے اور جسے تاشقند سے دادا خان نوری لائے تھے۔ پھر الماریوں میں صف بہ صف کتابیں دیکھتا اور خوب غور سے دیکھتاہے۔ بسا اوقات جب دادا لکھ رہا ہوتا ہے تو اطمینان اور خاموشی سے پاس بیٹھا رہتا ہے۔
ایک برس پہلے جب وہ چار ماہ کا تھا ایک عزیز دوست گھر تشریف لائے۔ نام پوچھا، تیمور کیوں نام رکھا ہے؟ تیمور نے کون سا اچھا کام کیا تھا؟ دوستِ عزیز ناموں کے خواص پر دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ اعتقاد نہیں لیکن سننے میں مزا آتا ہے۔ یوں بھی ہر مسئلہ کفر اور ایمان کا مسئلہ نہیں ہوتا!
ایک ہی نام رکھنے والے افراد مختلف طبائع اور مختلف خصائل کے بھی ہوسکتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی ، اکبر کے دور میں ہوتے تو دین الٰہی کی ہر گز تائید نہ کرتے بلکہ مخالفت کرتے ، جہانگیری عہد میں ہوتے تو شیخ احمد سرہندی کے ساتھ کھڑے ہوتے۔سرسید احمد خان کی مخالفت میں بہت دور نکل گئے۔ اصل میں مخالفت انگریز کی کررہے تھے۔ اس لپیٹ میں ہر وہ شے آگئی جسے انگریز سے نسبت تھی۔ یہاں تک کہ اچھی چیزوں پر بھی رونا پیٹنا ڈال دیاجیسے ؎
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
شہر سبز میں پیدا ہونے والے امیر تیمور کی بیگم الجائی کا بھائی حسین مرگیا تو تاتاریوں کو نیا خان منتخب کرنا تھا۔ مخالفت بہت تھی مگر درویش زمانہ خواجہ ابوالبرکات نے اعلان کردیا کہ تیمور نہ صرف ماور النہربلکہ توران کا بھی حکمران ہوگا۔ خواجہ آل رسول ؐ تھے اور علما ان کے ہم نوا تھے۔ تیمور نے خون بہایا ، سلطنتیں تاراج کیں کہ یہی اس عہد کا قانون تھا۔ زندہ رہنے کے لیے مارنا لازم تھا۔ پھر ہر شہر نیا بسایا۔ رومی نے کہا تھا ؎
ہر بنائی کہنہ کاباد آن کنند
اول آن بنیاد را ویران کنند
کھنڈرات کو ازسرنو تعمیر کرنا ہوتو پرانی بنیاد کی جڑیں نکالنا پڑتی ہیں۔ عام آدمی کو تیمور نے جتنا خوش رکھا اس کی کم ہی مثالیں ہیں۔ ہسپانیہ کا سفیر اس کے دربار میں تھا۔یادداشتوں میں لکھتاہے کہ مسافروں کے سونے کے لیے شاہراہوں کے کنارے کشادہ ریسٹ ہائوس تھے اور زمین دوز نالیوں کے ذریعے ان تک پانی پہنچایا جاتا تھا۔ مسافروں کو جو کھانا دیا جاتا تھا اس میں گوشت کی مقدار کافی زیادہ ہوتی تھی۔ کارواں سرائوں میں حوض تھے۔ حوضوں میں فوارے تھے ۔فواروں کے نیچے برف پڑی ہوئی تھی۔ پاس پیتل کے کوزے پڑے ہوئے تھے کہ جو چاہے ٹھنڈا پانی پیئے۔
کوئی لشکری کسی شہری کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ فوجیوں کو تنخواہیں سرکاری خزانے سے ملتی تھیں۔ فوجی کمانڈر عوام سے محصول یا کچھ اور لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ غیر آباد زمین آباد کرنے والے پر پہلے سال مالیہ معاف ہوتا اور دوسرے سال مالیہ کی مقدار اس کی مرضی سے مقرر ہوتی۔ یہی وہ اصول ہے جسے آج ٹیکس جمع کرنے والے سیلف اسسمنٹ کہتے ہیں۔
لیکن اس کا اصل کارنامہ سمرقند تھا۔ اس کے خوابوں کی تعبیر ! مفتوحہ دنیا سے ہر خوبصورت شے اور ہر لائق ہنرمند سمرقند لایاگیا۔ ترکی سے سنگ مرمر، خراسان سے ٹائلیں اور بغداد کا چاندی کا کام سب کچھ سمرقند میں تھا۔ نہریں تھیں اور چنار کے درختوں کی قطاریں، پل تھے اور باغات ، لالہ و گل روش اندر روش تھے۔ بازاروں میں بھیڑ تھی۔ ماسکو ، چین ، عرب اور قلسطنطنیہ کے قافلے تھے ۔ گوشت اور شیرمالیں تھیں۔ مصری کے کوزے اور انجیر۔ اور آباد میخانے !
تین بار سمرقند دیکھا ۔چوتھی بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ تاشقند سے چلی ہوئی ریل چھ گھنٹے میں پہنچی۔ آج تک یہی نہ معلوم ہوا کہ یہ اشعار کیسے اترے اور کہاں سے اترے ؎
سمرقند گنج گراں مایہ تھا اور میں اس میں تھا
سمر قند بابل کا ہم پایہ تھا اور میں اس میں تھا
سمر قند میں تھیں ہوائیں، ثمر اور نہریں وہی
سمرقند جنت کا ہمسایہ تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند اک پرچم زرفشاں تھا افق تا افق
یہ پرچم زمانوں پہ لہرایا تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند میں ہونٹ یاقوت، ماتھے ستاروں کے تھے
فرشتوں کا حسن اس میں درآیا تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند میں شیشہ درشیشہ رس سرخ شہتوت کا
بہشت اس کے میووں سے شرمایا تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند میں ہر جگہ سر پہ انگور کی شاخ تھی
سمرقند میں کس کو ہوش آیا تھا اور میں اس میں تھا