(Last Updated On: )
آدم و ابلس کے کھنچاؤ سے ہی انسانیت کا آغاز ہوا،حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترتے ہی ابلیس بھی آن وارد ہوا اس مشن و مقصد کے ساتھ کہ وہ نسل آدم کو گمراہ و بدراہ کرے گا۔چنانچہ مختلف اوقات میں ابلیس نے مختلف حربے آزمائے اور شرک،تکبر،جادو،ناپ تول میں کمی،ہم جنسیت اور فکری و عملی آوارگی کے دیگرذریعوں سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔اللہ تعالی نے ہر موقع پر اپنے انبیا علیھم السلام مبعوث فرمائے جنہوں نے انسانوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیااوروقت کے فتنوں سے نجات کاراستہ بتایا۔ایک وقت آیا کہ شیطان اپنے کام میں ماہر ہوگیا تب انسان کو بھی مقابلے کے لیے مکمل سامان،قرآن و سنت کی صورت میں فراہم کردیاگیا۔یہ قرآن و سنت اور تعلیمات انبیاء آج اسلامی تہذیب کی صورت میں موجود ہیں جبکہ ابلیس کے گزشتہ وموجودہ ”کارہائے نمایاں کو ”سیکولر ازم“،”لبرل ازم“،ایتھیسٹس “،”ہیپی ازم“اورحقوق انسانی کے پوجاکاروں نے اپنی چادر میں سمیٹ رکھا ہے۔فی زمانہ ہمیں یہ جھوٹاسبق پڑھایاجاتاہے کہ یہ تہذیبوں کاتصادم ہے جب کہ حقیقت یہ ہے موجودہ کشمکش دراصل مذاہب کاتصادم ہے۔
اسلامی تہذیب نے معاشرے کے سب طبقات کو فرائض کے نام پر اکٹھا کر دیا ہے جبکہ سیکولر مغربی تہذیب نے حقوق کے نام پر سب طبقات کو آپس میں لڑا دیا ہے۔اسلام نے امیراورغریب کو زکوۃ کی ادائگی و وصولی میں جمع کیا،ایک محلے کے سب لوگوں کو نماز کی ادائگی میں یک مصلی کردیا،مظلوموں کو ظالم کے خلاف جہاد کے میدان میں صف آرا کردیااور دنیا بھر کے نمائندہ طبقات کوحج جیسی عبادت میں یک لباس کر دیااوررمضان کے روزوں کے دوران غریب کی بھوک میں پورے معاشرے کو میں شریک احساس کر دیا۔اسکے مقابلے میں سیکولرمغربی تہذیب نے حقو ق کے نام پر معاشرے کے تمام طبقات کو باہم دست و گریبان،جمہوریت کے نام پر عوام کو حکمرانوں کے خلاف صف آرا کر دیا،لیبر تنظیموں کے نام پر مزدوروں کو مل مالکان سے لڑا دیا،صٹوڈنٹس یونین کے نام پر طلبا کو اساتذہ سے لڑا دیا اور عوام میں فرائض کا شعور بیدار کرنے کی بجائے یہ درس دیا حقوق مانگ کر نہیں بلکہ چھین کر لیے جاتے ہیں۔چنانچہ ایسا نظام سیاست دیا جس میں انتخاب ”لڑا“جاتاہے،ایک ہی محلے کے لوگ اپنے امیدواروں کے ساتھ مل کرانتخاب”لڑتے“ ہیں،ایک ہی برادری کے لوگ انتخابات لڑتے ہیں اورایک ہی مذہب و مسلک کے لوگ انتخابات لڑتے ہیں۔سیکولرازم کے اس سیاسی نظام میں انتخابات جیتنے کے لیے کوئی امیداریا سیاسی گروہ عوام میں فرائض کی بات نہیں کرتاکیونکہ اس طرح تو سب عوام جمع ہوجائیں گے اورمسائل حل ہوجائیں گے بلکہ عوام کے حقوق کی بات جاتی ہے اور عوام الناس کے جذباتی استحصال کے لیے ان کی محرومیوں کو آڑبناکرفسادکی آگ کے اس الاؤ کو مزیدبھڑکایاجاتاہے۔
اسلامی تہذیب نے فردکو غلام بنانے کی اجازت دی لیکن قوموں کو غلام نہیں بنایاجبکہ سیکولر مغربی تہذیب نے قوموں کو انکی ناک تک غلامی میں جکڑ لیا۔اسلام نے گردن میں طوق تو ڈالا لیکن ذہن اور فکر آزاد رہی اور غلامی کے معانی طلوع اسلام کے بعدبدل سے گئے۔اوائل اسلام میں نامورغلاموں کے ہاں سے فیوض و برکات کے چشمے پھوٹ نکلے،کتنے ہی غلام ابن غلام تھے جن کے دروس سے بڑے بڑے علماء و فقہا و محدثین نے کسب فیض کیا۔بعد کی اسلامی تاریخ میں غلام طبقہ مسند اقتدارتک بھی پہنچااور ہندوستان میں خاندان غلاماں نے حکومت کی جب کہ مصرمیں مملوک خاندان نے ریاست کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔لیکن سیکولر مغربی تہذیب نے بدن اگرچہ آزاد رکھے لیکن قوموں کو اپناذہنی غلام بنا لیا۔ایک ہزار سال اسلامی تہذیب دنیا میں حکمران رہی لیکن مسلمانوں نے کسی دوسری قوم کو تہذیبی و معاشی غلام نہیں بنایالیکن گزشتہ تین سوسال کے عرصہ میں اس سیکولر مغربی تہذیب نے پوری دنیا کی اقوام کو اپنا تہذیبی غلام بنا لیا ہے،انہیں ہر جگہ اپنا لباس اور ااپنی ہی زبان نظر آنی چاہیے اورپوری دنیا کے وسائل کو ہتھیانے کے لیے سود پر مبنی استحسالی معاشی نظام کے ذریعے اس سیکولر مغربی تہذیب نے عالمی مالیاتی غلامی کانظام مسلط کر رکھا ہے جس میں ہرملک و قوم کے ہاتھ پاؤں اور گردنیں بری طرح جکڑ دی گئیں،اور اب نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اس تہذیب نے دفاعی غلامی،تعلیمی غلامی اور تیکنیکی غلامی سمیت نہ معلوم کس کس طرح کی غلامیوں کے جال انسانوں پر پھیلا رکھے ہیں۔عالمی گاؤں ”گلوبل ویلج“کے نام پر عالمی غلامی مسلط کی جارہی ہے اور رہی سہی آزادی کو بھی سلب کرکے کل اقوام عالم کو غلامانہ تہذیب میں جکڑاجارہاہے۔
اسلام نے عورت کو ماں،بہن بیٹی،بہو،بیوی اورطب و تعلیم کے محترم مقامات عطا کیے جبکہ سیکولر مغربی تہذیب نے عورت کی چادر پر گرل فرینڈ،سیکٹری،کولیگ،سنگل پیرنٹ،سٹار،سنگراورماڈل گرل،کال گرل اور سیل گرل،جیسے داغ لگاکر اسکی نسوانیت اس سے چھین لی۔اسلام نے نکاح کی کوکھ سے خاندان جیسے ادارے کو جنم دیا جس میں وہ مقدس رشتے عورت کو میسر آئے کہ جن کی پاکیزگی اورٹھنڈک سے چاند کی چاندنی بھی شرماجائے اور دامن عصمت وحجاب کے نام پر اسلام نے طہارت فکرونظر کا وہ مینارہ نورمتعارف کرایا کہ جس کی پھوٹتی کرنوں کی تمازت سے آفتاب بھی اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانک لے،لیکن تف ہے اس سیکولر مغربی تہذیب پر جس نے نوخیز وناتواں بچیوں کی مسکراہٹوں کو بھی بازارمیں گاہکی بڑھانے کے لیے مارکیٹنگ کا ذریعہ بنا لیااور عورت کی فطرت کے خلاف اس سے وہ وہ کام لیے کہ شاید جنگل کے جانور بھی اپنی مادہ کا اتنا استحصال نہ کرتے ہوں،عورت سے گھراورخاندان چھین کراسے معاش پر لگادیا،اسکا بچہ چھین کر اسے ٹائپ رائٹراور فائلیں تھمادیں،اسکے بستر سے اسے جدا کرکے تو بندوق اسکے ہاتھ میں تھمادی،اسکے شوہر سے محروم کر تو اسے سکرین کی زینت بنا دیا اور حد تو یہ کہ اسکی حیا کے عوض اسکے جسم اور فن کو پبلک پراپرٹی قرار دے دیا،حوس نفس وجنسیت اور خودغرضی و حیوانیت کوکتنے کتنے خوبصورت نام دے دیے اس ننگ انسانیت سیکولر مغربی تہذیب نے۔
سیکولر مغربی تہذیب کی خلاف فطرت انداز فکر یہاں تک پہنچا کہ فطرت نے مرد کو اسکے میدان کارکے تقاضوں کے باعث اسے کم لباسی کی اجازت دی ہے وہ محنت مزدوری کرتے ہوئے ستر کے علاوہ اپنے جسم سے لباس اتار سکتا ہے تاکہ اسکی کارکردگی میں بڑھوتری ہو سکے اور وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاسکے جبکہ فطرت نے عورت کو معاش سے باز رکھ کر اور اس میں فطری کشش کے باعث اسے زیادہ سے زیادہ جسم ڈھانکنے کی ترکیب کی ہے کہ اسی میں اسکی ایمانی وجسمانی و روحانی صحت بھی ہے اور نسوانی حسن بھی۔جبکہ سیکولر مغربی تہذیب نے مرد کو سر سے پیر تک مکمل ڈھانپ دیا ہے وہ ہیٹ پہنتاہے،عینک لگاتاہے،کوٹ اسکی کفوں تک کوچھپادیتاہے اور پتلون کے نیچے جرابیں اور بوٹ بھی اسکے جسم کا کوئی حصہ دیکھنے نہیں دیتیں جبکہ عورت کو اس سیکولر مغربی تہذیب نے جس انداز سے پیش کیا ہے قلم اسکی کیفیت لکھنے میں مغرب کی عریانت سے مستورہے۔
اسلامی تہذیب میں انسان جیسے جیسے عمر رسیدہ ہوتا چلا جاتا ہے وہ قیمتی سے قیمتی تر ہوتا چلا جاتا ہے،جبکہ سیکولر مغربی تہذیب میں انسان بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ بے کار،بے فائدہ اور بے مقصدہوتا چلا جاتا ہے۔اسلامی تہذیب میں بزرگ لوگ اپنے خاندان کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں،ہر چھوٹا بڑا فیصلہ انکی مرضی کے عین مطابق ہوتاہے اور کیاجاتا ہے۔حتی کہ مذہب جیسی قوت نے بھی جو اس تہذیب کی بنیاد ہے،جنت جیسے مقام کوبزرگوں کے قدموں تلے ڈھیر کر دیا ہے۔یہ حقیقت کہ بزرگوں کی دعائیں تقدیرکارخ پھیرسکتی ہیں اسلامی تہذیب میں بزرگوں کی شان میں مزید اضافہ کرتی ہے۔جبکہ سیکولر مغربی تہذیب کے ہاں اولڈ ہاؤسزبنے ہیں جہاں وہ سال میں کسی ایک دن اپنے بزرگوں کو ملنے جاتے ہیں۔کیا خودغرضی اور شائلاکیت ہے کہ جب تک کوئی چند بے حقیقت سکے کمانے کے قابل رہے تو وہ قیمتی ہے اور جب ذرا ڈھلنے لگے تو وہ بیکار ہوگیا،کیا اس سیکولر مغربی تہذیب کے پاس انسانوں کو تولنے کے لیے انسانیت نام کا کوئی پیمانہ نہیں ہے؟؟کسی قدرتی سانحے کے نتیجے میں اپنے کتے اوربلیاں بغلوں میں دبا کر نکل بھاگتے ہیں جب کہ ماں،باپ اور ان سے بڑے بزرگوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ریاست ان کی ذمہ دارہے۔بزرگوں کے فوت ہوجانے پر اسلامی تہذیب میں انسانی وقار کے شایان شان آخری رسومات کااہتمام کیاجاتاہے،پاک صاف کرکے اجتماعی طورپر نمازجیسی بزرگ عبادت کے ساتھ انہیں سپردخاک کردیاجاتاہے اور پھرتین دن سوگ منایاجاتاہے،کل احباب واقربا اہل خانہ کے غم میں شریک ہوتے ہیں ان کے لیے کھانے کااہتمام بھی کیاجاتاہے وغیرہ۔جب کہ سیکولرمغربی تہذیب میں اولڈ ہاؤس سے بزرگوں کے فوت ہونے کی اطلاع آتی ہے اوراگلے دن لاش ٹھکانے لگادینے کے اخراجات کامیزانیہ اداکردیاجاتاہے اورجس کسی کو پتہ چلتاہے وہ ای میل کے ذریعے افسوس کااظہارکردیتاہے اوربس گویاایک بوجھ تھا جو اترگیا۔حق تویہ ہے یہ سیکولرازم دراصل انسانیت کی حددرجہ توہین کانظام ہے۔
ایک ہزار سال تک اس دنیا میں اسلامی تہذیب کی حکمرانی رہی اس دوران قوموں کے درمیان آزادانہ تجارت رہی،ایک ملک سے مال آزادانہ طور پرتاجرحضرات دوسرے ملک میں لے جاتے،بین المما لک سفر انتہائی آسان تھااور حکمران ہمیشہ عوام کے درمیان رہتے تھے،کبھی دوقوموں کے درمیان بڑی جنگیں نہیں ہوئیں،کبھی دوملکوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ نہیں لگی اور طب،تعلیم،صحافت،ادب اور خدمت سب کچھ بلامعاوضہ فی سبیل اللہ ہواکرتاتھا۔لیکن جب سے سیکولر مغربی تہذیب نے اس دنیا میں قدم جمائے آج بین الممالک تجارت سب سے مشکل کام ہے،ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے سیروں کے حساب سے کاغذات اٹھانے پڑتے ہیں جن کی تیاری میں مہینوں صرف ہوجاتے ہیں،سالوں گزرجاتے ہیں عوام حکمرانوں کی شکل نہیں دیکھ پاتے،پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے مکروہ تحفے اسی سیکولر مغربی تہذیب کی دین ہیں کہ دونوں جنگوں کے متحارب فریق سیکولر ہی تھے،اور اسلحے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور قوموں کی تقسیم درتقسیم سے سینکڑوں جغرافیائی ممالک کا وجود اس تہذیب کے وہ شاخصانے ہیں جو آج کی انسانیت پر ناروا بوجھ بن چکے ہیں۔کمرشل ازم اس تہذیب کا وہ مکروہ تحفہ ہے کہ طب تعلیم اور خدمت جو جتنی مجبوری کے کام ہیں وہ اتنے ہی مہنگے ترکر دیے گئے ہیں تاکہ انسانیت کو خوب لوٹاجاسکے۔
اسلامی تہذیب کم و بیش پوری دنیا میں پہنچی لیکن عربی غلامی کسی قوم پر مسلط نہیں کی گئی،عربی کھانے کسی قوم پرٹھونسے نہیں گئے اور عربی لباس کسی قوم پر تھونپا نہیں گیا۔آج بھی پوری دنیا قرآن،نمازاورحج وغیرہ عربی زبان میں ہی ادا کرتے ہیں لیکن عربی سے مرعوبیت کہیں نہیں ہے لیکن سیکولر مغربی تہذیب جہاں جہاں بھی گئی اس نے تعلیم کے نام پراپنی تہذیبی روایات کا ٹیکہ ہی لگایااور مقامی روایات و ثقافت کی حوصلہ شکنی کی،اپنے کھانے اور اپنے لباس اور اپنی بودوباش کو مفتوحہ اقوام میں جاری و ساری کیااور ہر جگہ ایک منصوبہ کے تحت ایسے ذہنی غلام طبقہ کی پرورش کی جس نے اپنوں سے غداری اور بدیسیوں سے وفاداری کا راگ الاپا۔جو علم و فکر سے مرعوب ہو سکا اسے اسی طرح مرعوب کیا اور جو اس طرح دام میں نہ آسکا اسے بندوق سے مرعوب کیا اور ہر صورت میں اپنی جگہ گیری اور بدمعاشی پوری دنیا پر قائم کی اور یہ سب کام انسانیت،جمہوریت،انسانی حقوق اورآزادی افکار کے نام پر کیاجاتا رہا۔
اسلامی تہذیب اورسیکولرمغربی تہذیب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولرمغربی تہذیب نے فرد کوباہر سے بہت مضبوط دکھایاہے جب کہ اندر سے خالی کردیا۔باہرسے انسان کے نام کے ساتھ بہت سے سابقے لاحقے،عہدے،بھاری بھرکم تعلیمی اسناد کے حوالے،القابات وخطابات اوروردیوں کے کاندھے پر سجے طلائی وچمکدار بلے،سینے پر لٹکے ہوئے کثرت انعاماتی تمغے،بازؤوں کے کونوں پراور بعض ٹوپیوں اور گردن تک میں عطاکیے ہوئے شاندار کارکردیوں کے معترف نشانات جن کے ساتھ لگتاہے کہ یہ انسان بہت طاقت اور قوت والاہے لیکن اندر سے نحیف و نزار،کمزور،بے وقعت،اعتمادسے عاری اورخوشامدوچاپلوسی کاخوگرہوتاہے۔اپنے رزق کے لیے انسانوں کے سامنے جھکتاہے،اپنی سالانہ کارکردگی رپوتاژ اورترقی کی خاطر اپنے سے بڑے کے سامنے بچھ بچھ جاتاہے اور پتھروں کی مورتیوں اور درختوں اورچوپاؤں اور رینگنے والے جانوروں کو اپنے نفع نقصان کا مالک سمجھتاہے گویا اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی باہر نظرآنے والی شخصیت کے علی الرغم موجودات کومعبودبناکر حوادث زمانہ سے حد خائف سیکولر شخصیت کامالک ہوتاہے۔جب کہ اسلامی تہذیب نے باہر سے انتہائی سادہ،کھلے ڈلے درمیانے درجے کے کپڑوں میں ملبوس،پگڑی یاٹوپی کے ساتھ پاؤں کوواجبی ساڈھکتی ہوئی جوتی،چہرہ سنت انبیاء علیھم السلام سے سرسبزوشاداب اورکسی طرح کے تصنع،ریااور دکھاوے سے پاک شخصیت کو متعارف کروایاہے جسے دیکھ کر کوئی مرعوب نہ ہو،کسی کوخوف لاحق نہ ہو،ہرکوئی آگے بڑھ کر گفتگووعلیک سلیک کرسکے،مجلس میں سب سے پیچھے بیٹھا ایک سادہ ساراسخ العقیدہ مسلمان لیکن اندر سے اتنا مضبوط،تنومندوتوانااور آہنی ارادے کامالک کہ دونیم ان کی ٹھوکرسے صحراودریا اور سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔اسلامی تہذیب کی یہ مثالی شخصیت سونے اورچاندی کے ڈھیروں کوجوتے کی نوک پر رکھتی ہے اورستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ آسماں توہے کے مصداق اس کی پہنچ،اس کی منزل اور اس کانصب العین اس دنیاسے کہیں آگے کامقام ہے۔
اسلام نے جس جمہوریت کا تصور دیا ہے اس میں انسانوں کو تولا جاتا ہے،انکی رائے کو انکی تعلیم،تجربے اور تقوی کی بنیاد پر مقام دیا جاتا ہے لیکن سیکولر مغربی تہذیب نے جو تصور جمہوریت دیا ہے اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور ان میں کسی طرح کی کوئی تشخیص نہیں کی جاتی۔تاریخ اپنے رازوں سے پردے ہٹاتی رہتی ہے جس کے بعد اب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جمہوری نظام دراصل دیگر اقوام میں غداروں کی پرورش کا ایک ذریعہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیں۔جہاں انہیں بغیرجمہوریت کے غدار میسر آگئے وہاں اس سیکولر مغربی تہذیب نے آمریت،شخصی حکمرانی اور ملوکیت کو بھی قبول کرلیااور جہاں خواہ جمہوریت کے راستے ہی کوئی محب وطن حکمران برسراقتدار آگیا وہاں انہوں نے ایسا تیشہ چلایا کہ کیسی جمہوریت اورکیسی عوام؟؟بس جو جو حکمران اپنی قوم کے خزانے اور فوجی اڈے ان کے لیے کھول دے وہ بہت اچھا ہے بصورت دیگر ایک لمبی فہرست ہے جنہیں مسنداقتدارسے سیدھا قبرستان پہنچا دیا گیا،کیا مکروہ پلندہ کذب و نفااق ہے یہ سیکولر مغربی تہذیب۔
دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنا،دلفریب نعروں سے اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرنا اور سیاسی و مالی مفادات کے لیے دیگراقوام کی غربت سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے شیشے میں اتارنااس سیکولر مغربی تہذیب کاخاصہ رہاہے۔آلودگی کا شور مچاکردوسرے ملکوں کی صنعتیں بندکروانا یا انکی مصنوعات پرآلودگی کم کرنے کے پلانٹ لگاکر انکی مصنوعات مزیدمہنگی کرواناتاکہ اس ملک کے لوگ یورپ کی ساختہ اشیا خریدنے پر مجبور ہوجائیں کہاں کا انصاف ہے؟اپنے ملکوں میں جانوروں،پرندوں اوردرختوں کی افزائش پر بے پناہ وسائل خرچ کرنا اور دوسرے ملکوں کو کہنا کہ اپنے انسان بھی کم پیدا کروکہاں کی انسانیت ہے؟ہزاروں میل دور دوسرے ملکوں میں اپنی افواج کے ذریعے شہریوں پر،باراتوں پر،جنازوں پر اورمدارس دینیہ کے معصوم بچوں پر اندھا دھندکارپٹ بمباری کرنااور پھر بھی امن پسند کہلانااور اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرنے والوں کو دہشت گرد کہناکہاں کی عقل ہے؟اپنا خاندانی نظام تباہ کر کے تو دوسری قوموں کے درپے ہو جانا اور نعرہ دینا عورت کی آزادی کا اور شور مچانا کہ ہائے عورت بچاری پٹ گئی اورچاہنا کہ انکا بھی خاندانی نظام تل پٹ ہوجائے کہاں کی شرافت ہے؟آزادی صحافت کا نعرہ لگانا اور اپنے خلاف خبریں نشر کرنے والے اداروں پر میزائل فائر کرکے تباہ کر دینا،صحافیوں کو اغواکرکے قتل کرا دینا،خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے انہیں خوف و ہراس کا شکار کرنا اور بھاری رقوم دے کر ان کی زبان بند کراناکیا کھلا تضاد نہیں؟ چائلڈ لیبر،ہیومن واچ،نشہ سے نجات،وائلڈ لائف اور نہ جانے کتنے کتنے خوبصورت ڈھونگ اس سیکولر مغربی تہذیب نے رچائے جن کے پس پردہ مقاصدپر مورخ جب قلم اٹھائے گا تو اس تہذیب کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے مزید بے نقاب ہوگا۔
سیکولر مغربی تہذیب ایک خاص علاقے اورایک خاص رنگ و نسل کی تہذیب ہے جبکہ اسلامی تہذیب عالمگیر تہذیب ہے۔سیکولر مغربی تہذیب ایک زمانے کی پیداوار ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آخری سانس گننے والی ہے جبکہ اسلامی تہذیب ایک آفاقی تہذیب ہے۔سیکولر مغربی تہذیب چند گمراہ ومادیت پرست نام نہاددانشوروں کی پیداکردہ ہے جن میں سے کوئی انسان کو جانور کی اولاد کہتاہے،کوئی انسان کومعاشرتی جانور کہتا ہے،کوئی معاشی جانور کہتاہے اور کوئی یہاں تک گر جاتا ہے کہ اسکے نزدیک انسان ایک جنسی جانور ہے جبکہ اسلامی تہذیب انبیاء علیھم السلام کا ورثہ و ترکہ ہے جنہوں نے انسان کو خالق کائنات کا نائب اوراشرف المخلوقات کا مقام عطا کیا ہے۔سیکولر مغربی تہذیب خود فراموشی وخدافراموشی کی تہذیب ہے جو انسان کو پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کا پجاری بناتی ہے جبکہ اسلامی تہذیب خود شناسی و خدا شناشی کی تہذیب ہے جو انسان کو ایک خدا کابندہ بناتی ہے۔انسانیت کو بالآخر اسلامی تہذیب کی طرف کی پلٹنا ہوگا،اس دنیا میں امن عالم کاخواب جینوا اکارڈ کے بس کی بات نہیں،دنیا میں امن و آشتی،پیارومحبت اورفروغ انسانیت صرف ایک ہی ذریعہ سے ممکن ہے اور وہ ذریعہ محسن انسانیت ﷺکاخطبہ حجۃ الوداع ہے۔اسلام شروع میں شریعت تھااور آخر میں حقیقت بن جائے گا،سائنس و ٹیکنالوجی رینگتی ہوئی اسلام کی گود میں ہی آن گریں گی،سنت رسول اللہ ﷺ ایک ابدی حقیقت بن جائے گی اور قرآن کی حقانیت پوری دنیا پر ثابت ہوجائے گی انشا ء اللہ تعالی۔ممکن ہے ان خیالات کو جذباتیت سمجھ لیا جائے اور اس سے انکار بھی نہیں ہے کہ انسان کاوجود ہی جذبات کی پیداوارہے،پھرجس سینے میں ختم نبوت اور علی مولائیت کی دولت موجود ہو وہ جذبات سے کیونکر خالی ہو سکتا ہے لیکن آج جس تہذیب کا انجام انسانیت اپنی آنکھوں سے دیکھاچاہ رہی ہے اسے تہذیبی تصادم کے پہلے مشاہدہ نگار نے ان الفاظ میں تاریخ بند کر دیا تھا کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا (اقبال)