دنیا کی آبادی سات ارب سے زیادہ ہے اور غذائی پیداوار دس ارب سے زائد افراد کے لئے کافی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اربوں لوگ بھوک افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور کرہ ارض ایک فقط ایک انسان ایک ہی دن میں کھربوں روپے کا نفع حاصل کرلیتا ہے۔
یہی سرمایہ دارانہ نظام، جاگیردارانہ نظام کا خاصہ ہے جس کے خاتمے کے لئے انقلاب لانا ہے۔ سامراجی تسلط کا خاتمہ کرنا ہے۔ دنیا میں تقریباً 98 فیصدی طبقہ مظلوم محکوم ہے۔ 2 فیصدی طبقہ سرمایہ دار، جاگیر دار، سامراجی طبقہ ہے جو ظالم حکمران بنا بیٹھا ہے۔ تو پھر اٹھانوے فیصد دو فیصد پر حاوی کیوں نہیں ہورہے۔ کیونکہ انقلاب کی بات کرنے والے خود سرمایہ دار کے ٹاؤٹ ہیں۔ اس لئے نہ لفٹ سے کوئی بندہ نظر آتا ہے۔ نہ لفٹ سے کوئی مؤثر آواز سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں ولادیمیر لینن، کارل مارکس جیسا ڈاکٹر لال خان پیدا کیا۔ پھر بھی شوشلزم پاکستان میں پھلتا پھولتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
جیسے کارل مارکس نے کہا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے سردی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور غربت صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتے۔
یہی مسئلہ درپیش ہے کہ ہمارے پاس عام آدمی کی قیادت کرنے والے چاہتے ہیں کہ جانوں کے نذرانے محنت کش، مزدور کسان پیش کریں ہم بس قائد بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ایک سابقہ کامریڈ دوست لفٹ کی پارٹیوں سے اُکتا گئے ہیں کہ یہاں رضا کاظم جیسے کامریڈ ہیں جو لگژری گاڑیوں اور بنگلوں کا مالک تھا۔ ڈاکٹر تیمور رحمان جیسے لیڈر ہیں جو کروڑوں پتی ہے اور بیرون ملک اپنے خرچ پر تعلیم حاصل کرکے آیا۔ باقی اِکا دکا ممبران بچتے ہیں جن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے پھرتے ہیں۔
ایک تو یہ وجہ ہو گئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر جماعتیں چالیس سال پرانی ہونے کے باوجود سینکڑوں سے ہزاروں تک ممبران کی تعداد کرنے سے قاصر رہی ہیں۔
تین سیاسی جماعتوں کے انضمام سے بننے والی عوامی ورکر پارٹی بھی دس سال میں کارکنان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرنے سے قاصر رہی ہے۔
اس سارے سلسلے میں ایک نوجوان جس کا اسمِ گرامی مہر جواد احمد ہراج نے شوشلسٹ جماعتوں کے درمیان رہ کر قنوطیت پسندی کی بجائے رجائیت پسندی کی راہ اپنا لی۔ جواد احمد ہراج نے ڈاکٹر لال خان کے انقلابی نظریہ کی بنیاد پر ایک شوشلسٹ تحریک کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام تحریک مظلومین پاکستان رکھا گیا ہے۔ نوجوان قائد کا خیال ہے پاکستان میں موجود بقیہ شوشلسٹ اس قدر متحرک نہیں کہ ان کی طرف سے رہتے ہوئے بطور کارکن کام کیا جا سکے اس لئے ہمیں خود نکلنا پڑے گا۔ اس ضمن میں جواد احمد ہراج نے اس شوشلسٹ جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ جس کا پہلا مقصد ہی ملک کے اندر موجود کسان مزدور اور طلباء کو یکجا کرکے انقلاب کے لئے آمادہ کرنا ہے۔ اس تحریک کا سلوگن ہی یہی ہے کہ طلباء مزدور کسان۔۔۔ یہی بدلیں گے پاکستان۔ اس تحریک کا یہ مقصد بھی ہے کہ پاکستان کی عوام میں اس شعور کو اجاگر کیا جائے کہ شوشلسٹ، کمیونسٹ، لفٹسٹ ہونے کا مطلب لادین ہونا نہیں ہے۔ شوشلسٹ، کمیونسٹ ،لفٹسٹ ،کامریڈ مسلمان ہوتے ہیں۔ بین المذاہب رواداری کے قائل ہوتے ہیں۔ سیکولر، شوشلسٹ ہونے کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انقلاب کے ذریعے مذہب کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ کیونکہ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ شوشلسٹ لادین ہیں۔ اس لئے تحریک کا ایک یہ مقصد بھی ہے کہ اس شعور اجاگر کیا جائے کہ کمیونزم، شوشلزم کبھی بھی مذہب مخالف نہیں رہا بلکہ یہ بین المذاہب رواداری کا قائل ہے۔
اس تحریک کا یہ مقصد بھی ہے کہ جیسے طلباء، مزدور کسان یکجہتی کی تحریک ہے تو اس لئے کہ اس اعلیٰ عہدوں پر طلباء مزدور اور کسان ہی ہوں گے اور اس تحریک کو چلانے والے سرمایہ دار، جاگیر دار نہیں بلکہ کسان مزدور ہی ہوں گے۔
بھیڑ اور بھیڑیے کے درمیان، شیر اور بکری میں، چوہے اور بلی میں، چیتے اور ہرن میں مکالمہ نہیں بقاء کی جنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح محنت کش اور سرمایہ دار میں مکالمہ، رواداری نہیں بلکہ بقاء کی جنگ ہے۔ اگر محنت کش انقلاب کے لئے نہیں نکلے گا تو یاد رکھو سرمایہ دار بھیڑیا ہے چیتا ہے وہ محنت کش کو کھا جائے گا۔
اس تحریک کا یہی مقصد ہے کہ پاکستان کے پسے ہوئے طبقہ کو شعور دیا جائے کہ یہ سرمایہ دار، جاگیر دار مزدور کا استحصال کریں گے جس سے امیر، امیر سے امیر غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جائے گا اس لئے محنت کشوں یکجا ہو جاؤ اور استحصالی نظام کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرو۔
اس تحریک کے نزدیک لوگوں کو یہ بار آور کروانا ہے زرعی اصلاحات کا نظام لانا از حد لازم ہے۔ لوگوں کو یہ شعور دینا ہے کہ سوویت یونین میں کمیونزم کا نظام ناکام نہیں ہوا بلکہ دوسری جنگ عظیم اور روس افغان وار کی وجہ سے کمیونسٹ حکومت صحیح سے فعال نہیں ہو پائی۔ اس کو سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی نظام صد فیصد مکمل طریقہ سے نہیں آتا اس میں کچ خامیاں رہ جاتی ہیں۔
اس تحریک کا مقصد جمہوریت کو لانا ہے۔ کون سی جمہوریت؟۔ اس تحریک کا مقصد اُس جمہوریت کو لانا جو عوامی ہو سرمایہ دار جمہوریت نہ ہو۔
اس تحریک کی بنیاد جواد احمد ہراج نے ایک ہفتہ قبل رکھی ہے۔ اور ایک ہفتے میں ہی سینکڑوں افراد نے رکنیت حاصل کرلی ہے۔ ایسی تحریکیں جو مزدوروں اور کسانوں کی خوشحالی کے لئے کوشاں ہوں وہ وقت کی ضرورت ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...