عشق بلاخیزکاقافلہ سخت جاں
پاکستان:قصہ صدی گزشت
10مارچ 1922
تحریک خلافت کے دوران عدم تعاون کی تحریک سے ہندوستان میں بدیسی راج کو بہت نقصان پہنچاتھا۔ان کے وہم و گمان کے کسی گوشے میں بھی نہ تھاکہ اتنا سخت ردعمل بھی آسکتاہے۔دراصل اب تک پورپی اقوام نے افریقہ سمیت دنیاکے پسماندہ ترین علاقوں پرناجائزقبضہ کرکے اوراپنی انسانیت دشمن ظالم فوجوں کے ذریعے اپناظالمانہ استبدادقائم کیے رکھاتھا۔قدرت نے کرہ ارض کے ہرخطے کی تہ میں خزانے دفن کیے رکھے ہیں اورایک حدیث مبارکہ کے مطابق قیامت کے نزدیک زمین اپنے خزانے اگل دے گی۔چنانچہ یورپی قبضہ مافیانے ہر جگہ سے قیمتی ذخائر،نایاب دفینے،دریاؤں میں بہتے ہوئے سنہرے موتی اورپہاڑوں میں پوشیدہ انمول معدنیات کواپنی زنبیل میں چھپایااوراسی مقصدکے لیے بنائی گئی ریلوے لائن کے ذریعے اپنی واردات کو بندرگاہ تک پہنچاکربحری جہازوں کے ذریعے سمندرپاراپنے کمین گاہ تک پہنچادیا۔پوری دنیامیں گورے سامراج کو ان چوریوں، ڈکیتیوں اورچیرہ دستیوں کے خلاف کسی قابل ذکر ردعمل کاسامنانہیں کرناپڑاتھا۔جب کہ ہندوستان کی صورتحال کلیۃ مختلف تھی کیونکہ یہاں ایک ہزارسالہ مسلمانوں کے اقتدارکے نتیجے میں شرح خواندگی سوفیصدکوچھورہی تھی،عوام الناس کا عمومی شعوربیدارتھا،مردوخواتین کو مقاصدزندگی سے آگہی حاصل تھی اور مسلمانوں سمیت کل اہل مذاہب بہترین تہذیبی وثقافتی وادبی ورثے کے حامل تھے اورباہمی یگانگت کامظاہرہ بھی تحریک خلافت کے دوران انگریزنے بنظرغائردیکھ لیاتھا۔خاص طورپر افریقی ممالک میں تو یورپی نواب بدمعاشوں نے وہاں کے حبشی افرادکو شکارکر کے ان کے ریوڑ کے ریوڑ اپنے ممالک میں درآمدکیے اور ان کو بیچ بیچ کر مال جمع کیا۔صدیوں تک افریقی ممالک کی بندرگاہیں حبشی انسانوں کی خریدوفروخت کی بہت بڑی منڈی بنی رہیں تھیں۔افریقہ میں یورپی حکومتیں انسانوں کے شکار کے اجازت نامے(لائسنس)جاری کرتی تھیں،انسانی حقوق کے ٹھیکیدارانسانوں کے گورے شکاری حبشی بستیوں سے قتل غارت گری،لوٹ مار،زورزبردستی،چھیناجھبٹی اوررسہ گیری کے ذریعے کالے رنگ کے مرد،عورتیں بچے اورجوانوں کو رسیوں میں باندھ کر ان کے گلے میں غلامی کاطوق ڈالے اپنوں سے ہمیشہ کے لیے جداکر کے اورملک بدرکرکے ساحلی اڈوں تک لاتے تھے اورپھریہاں سے انگریزبیوپاری ان حبشی نسل کے انسانوں کاسوداکرکے انہیں بحری جہازوں میں ہانکتے لادتے اپنے ملکوں میں لے جاتے اورآج جہاں یورپ کے عالمی اداروں میں قوموں کی بولیاں لگتی ہیں اوراقوام عالم کی خریدوفروخت ہوتی ہوتی ہے اور دنیابھرسے جمع ہوئے غداران ملت سے اپنی اپنی اقوام کی کم سے کم قیمت لگوائی جاتی ہے اسی طرح اس زمانے میں یہاں کالے انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں اور انسانیت کے دعوے دارآزادپیداہونے والوں کوسربازارفروخت کر کے شکم سیری اورزیرشکم تسکین کاایندھن فراہم کرتے تھے۔
انگریزحکومت ہرحال میں گاندھی جی کے خلاف کوئی اقدام اٹھاناچاہتی تھی اور انہیں گزشتہ تجربات کے باعث عوامی ردعمل کا بدترین خوف لاحق تھا۔صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ انگلستان میں بھی قلیل سہی لیکن کچھ لوگ تحریک خلافت کے بارے میں اپنی ہمدردانہ رائے رکھتے تھے کیونکہ تحریک کاموقف براہ راست لندن کی طرف سے کیے گئے وعدوں کے ایفاپر مشتمل تھا۔چنانچہ دہلی دوطرفہ دباؤ کی زدمیں تھا،ایک طرف اقدام کے نتیجے میں عوامی احتجاج کاخوف تھاتودوسری طرف لندن کی طرف سے گرفتاری کے سخت احکامات تھے بلکہ عدم گرفتاری کے نتیجے میں کچھ باثرشخصیات نے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے رکھی تھی۔اورشایداس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اقدام یاعدم اقدام کے اثرات کل دنیاپرمرتب ہوتے کیونکہ تاج برطانیہ کی قلمرومیں سورج توغروب ہی نہیں ہوتاتھا۔اس سلسلے میں اس وقت کے اخبار”ہندو“نے 8فروری1922کو برطانوی پارلیمان ہاؤس آف لارڈزمیں تحریک خلافت کے بارے میں ہونے والی تقاریر کو اپنی 9فروری1922کی اشاعت میں نقل کیاتھااوراس میں اس وقت کے پرنس آف ویلزکی تقریرکے اقتباسات اورجان ڈکسن آئی لنگٹن(1866-1936)جو برطانوی سیاستدان اور نیوزی لینڈ کے گورنربھی رہے تھے ان کی تقاریر بھی شامل کی تھیں۔جب کہ دوسری طرف 14فروری1922کو انڈین ہاؤس آف کامرس دہلی، یورپین ایسوسی ایشن کلکتہ اور 28فروری1922کو بنگال چیمبرآف کامرس کلکتہ کے جلسوں میں بھی بہت دھواں دھار تقاریرہوئیں جنہیں اس وقت کے اخبار ”روزنامہ انگلش مین کلکتہ“نے اپنی 15فروری اوریکم مارچ1922کی اشاعت میں تفصیلی طورپر نقل کیاتھا۔بہرحال یہ حالات طوالت پکڑسکتے تھے اور گاندھی جی کو مزید مہلت مل سکتی تھی اگر تحریک کے اندر اتحادویگانگت موجودرہتی اورہندومسلم اتحادبرقراررہتا۔بدقسمتی سے مسلمان راہنماؤں کی اکثریت توپہلے ہی پابندسلاسل تھی اوران نامساعد حالات میں تھوڑادیکھواورانتظارکروکی منصوبہ بندی سے گرفتارراہنماؤں کی آزادی تک چاروناچاروقت کو کھینچ لیاجاتاتو آج ہندوستان کانقشہ مختلف ہوتا۔لیکن ہندوقیادت نے مسلمان قیادت کی غیرموجودگی سے ناجائزفائدہ اٹھاکرجب تحریک کو کمزورکرنے کی سازشیں کیں تواس کابراہ راست اثربھی انہیں پر پڑگیااور 10مارچ 1922کو گاندھی جی پر بلآخرحکومت نے ہاتھ ڈال ہی دیااوراحمدآبادسے وہ دھرلیے گئے۔
حالات کی جس نبض کو ہندؤں نے شایدنہیں سمجھاتھا،انگریزبہت جلد سمجھ گیاتھا۔حکومت نے مزیدکچھ وقت دیے بغیر ٹھیک ایک ہفتے بعد مقدمے کاآغازکردیا۔یہ مقدمہ دوملزمان موہن داس کرم چندگاندھی اورشری شنکریال گھل بھائی بنکرکے خلاف انڈین پینل کوڈ کے سیکشن124Aکے تحت برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی فردجرم کے ذیل میں قائم کیاگیاتھا۔یہ مقدمہ دوحصوں میں مکمل ہوا،پہلے حصہ میں لگائے ریاست کے خلاف بغاوت کے الزام کی پیروائی تھی جب کہ دوسرے حصے میں گاندھی جی کے عدالت میں دیے گئے اقبالی بیان پر جرح تھی۔دوسرے ملزم شری شنکریال گھل بھائی بنکرجو ”روزنامہ ینگ انڈیا“کے مدیراورناشرتھے ان کے خلاف گاندھی جی کے لکھے تین خلاف ریاست مضامین کی اپنے اخبار میں اشاعت کاالزام تھا۔یہ مقدمہ احمدآباد کے ڈسٹرک اینڈ سیشن جج مسٹر سی این بروم فیلڈ کے روبروہفتہ مورخہ 18مارچ 1922ء پیش کیاگیا۔قومی نوعیت کے اس مقدمہ کی اہمیت کے باعث ایڈوکیٹ جنرل ہندوستان جے ٹی اسٹرانگ مان،پبلک پراسیکیوٹر احمدآباد راؤ بہادرگردھرتال اورشاہی نمائندہ مسٹراے سی وائلڈبھی عدالت کے روبرو اپنی سرکاری حیثیتوں میں پیش ہوئے۔ان کے علاوہ عوامی و سیاسی نمائندوں کی فوج ظفرموج عدالت کے سامنے موجود تھی۔طویل انتظار کے بعد خلاف معمول دن 12بجے جج صاحب اپنی نشست خاص پر براجمان ہوئے اور تاخیرکی وجہ الزامات میں کچھ سقم کی موجودگی کوقراردیا جن کی اصلاح میں وقت لگا۔رجسٹرارنے الزامات پڑھ کر عدالت کو سنائے،الزامات کے مطابق موہن داس گاندھی نے“روزنامہ ینگ انڈیا“میں تین مضامین لکھے تھے جن میں قارئین کوبرٹش انڈیاگورنمنٹ کے خلاف بغاوت پر اکسایاگیاتھا،پہلامضمون 29ستمبر1921کو”Tampering with Loyalty“کے عنوان سے،دوسرامضمون 15دسمبر1921کو ”The Puzzle and its Solution“کے موضوع پراور تیسرامضمون23فروری1922کو ”Shaking the Manes“کے نام سے شائع ہواتھا۔رجسٹرارنے یہ تینوں مضامین پورے متن کے ساتھ عدالت میں پڑھ کر بھی سنائے۔جج نے حسب روایت فرد جرم عائد کرتے ہوئے ملزمان سے پوچھاکہ آیاوہ ان الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا بحث وجرح میں جاناچاہتے ہیں؟؟؟بہرحال ریاست کی طرف سے آنے والے ماہرین قانون نے تحریک خلافت کے دوران ہونے والے پرتشددواقعات کوبھی ان الزامات کے حق میں قانونی نظیربناکر پیش کردیاگیا۔ جب عدالت نے ملزمان کو دفاع کاحق دیاتو پہلے گاندھی جی نے ایک زبردست تقریرکی جس میں تمام الزامات کو یہ کہ کرقبول کیاکہ وہ اپنی قوم کے راہنماہیں اوریہ سب کچھ ان کی سربراہی میں ہواہے۔پھرانہوں نے اپناتحریری بیان پڑھ کر سنایا جس کے مطابق انہوں نے اپنی عوامی زندگی کاآغاز1893مین جنوبی افریقہ سے کیاتھااور تب سے انہیں شدت سے یہ احساس تھاکہ برطانوی حکومت داری میں انہیں کچھ بھی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں صرف اس لیے کہ وہ ہندوستانی ہیں،اس پر انہیں کوئی حیرانی نہیں ہوئی اورانہوں نے حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھا،لیکن جب رولٹ ایکٹ1919منظورہواتوانہیں یقین کامل ہوگیاکہ برطانوی حکومت ڈاکوؤں کااقتدارہے جو یہاں لوٹ مارکرنے آئے ہیں اورلوگوں کی آزادیاں سلب کررہے ہیں،تب میں نے اپنی قوم کو حکومت کے خلاف بغاوت پرآمادہ کیا۔گاندھی جی کے اس بیان کے بعد انہیں چھ سال قیدبلامشقت سزاسنادی گئی۔لیکن بہت جلد ہندوانگریزگٹھ جوڑ کایہ پول بھی کھل گیااوردوسال کے مختصرعرصے کے بعد جب تحریک خلافت دم توڑ چکی توگاندھی جی کوعدالتی فیصلے کے علی الرغم گردے کی بیماری کابہانہ تراش کررہاکردیاگیااورتحریک پاکستان میں ان سمیت تمام ہندوراہنماؤں سے مسلمانوں کے خلاف خوب خوب فائدہ اٹھایاگیا۔