پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد پر شروع سے یکسو تھی لیکن ہماری جماعت میں اس پر دو رائے تھیں پر اب ہم بھی اس پر یکسو ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف کے یہ چند الفاظ جو انہوں نے زرداری صاحب اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد پریس بریفنگ میں کہے ثابت کرتے ہیں کہ پچھلے سال مارچ میں جب پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی راہیں جدا ہوئیں تواس وقت پیپلزپارٹی کا جو موقف تھا وہی درست راستہ تھا اسی لئے آج ایک سال گزرنے کے بعد پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کو بھی پیپلزپارٹی کے موقف پر ہی واپس آنا پڑا۔ وقت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پیپلزپارٹی تاریخ کے درست رخ پر کھڑی تھی اور وہ سب سیاستدان اور نام نہاد صحافی جو پچھلے ایک سال سے پیپلزپارٹی پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا پروپیگنڈہ کرتے رہے آج ان کے سارے تبصرے اور تجزیے غلط ثابت ہوئے اور پیپلزپارٹی کے نوجوان چیرمین بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی ویژن ان تمام جغادری سیاستدانوں اور صحافیوں پر حاوی نظر آیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور سچائی کو قبول کرنا بھی ظرف والوں کا ہی کام ہوتا ہے ورنہ تو کچھ بونے سیاستدان آج بھی اپنے کسی ذاتی ایجنڈے کے زیراثر موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کے روڈ میپ اور کوششوں پر شک و شبہ میں مبتلا نظر آتے ہیں، اسی طرح کچھ نام نہاد سنئیر صحافی اپنے پروپیگنڈہ سے بھرپور سیاسی تجزیے کے غلط ثابت ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنے اذلی تعصب اور بغض کے باعث آج بھی اپنا الگ ہی جرگہ لگائے پیپلزپارٹی پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں۔
پچھلے ہفتے شہباز شریف کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاون میں مسلم لیگی قیادت سے زرداری صاحب اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کے بعد پاکستان کی سیاست میں جو تیزی دیکھنے میں آئی ہے اس سے حکومتی صفوں میں واضح طور پر بے چینی کےآثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ حکومتی اتحادیوں کی اپوزیشن رہنماوں سے ملاقاتیں بھی ہواؤں کا رُخ بدلنے کی نوید سنا رہی ہیں۔ بہت سارے تجزیہ نگار مجوزہ تحریک عدم اعتماد کا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف پیش ہونے والے والی ناکام تحریک اعتماد کےساتھ تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو پوری مقتدرہ، اس وقت کے صدر مملکت اور سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے حکمرانوں کی آشیرباد حاصل تھی اس کے باوجود وہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی اس لئے موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مجوزہ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہو گا لیکن یہ تجزیہ نگار یہاں اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید عوامی مقبولیت کی معراج پر تھیں اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت عوام کی نمائیندہ حکومت تھی جبکہ موجودہ حکومت ایک ہائیبرڈ انتظام کے تحت آر ٹی ایس کے چمتکار کے ذریعے وجود میں لائی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت اپنی بدترین کارکردگی اور نااہلیت کی باعث اپنے اراکین کے لئے بھی بوجھ بن چکی ہے اور وہ اپنے حلقہ انتخاب میں جانے اور ووٹرز کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ وہ بےپناہ عوامی دباو ہے جس کی وجہ سے نہ صرف موجودہ حکومت کے اتحادی بلکہ ان کے اپنے اراکین بھی اس حکومت سے پیچھا چھڑانے کے لئے اپوزیشن کی طرف سے لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دے سکتے ہیں اور اس کی ایک جھلک سینٹ کےالیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کی صورت میں دکھائی بھی جا چکی ہے۔ موجودہ حکومت عوام کا اعتماد تو کھو ہی چکی ہے جس کا ثبوت پورے ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات اور خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں حکومتی امیدواروں کی عبرتناک شکست ہے جبکہ عدم اعتماد کی تحریک اس بات کا بھی فیصلہ کردے گی کہ موجودہ حکومت اور سلیکٹڈ وزیراعظم پارلیمنٹ کا اعتماد بھی کھو چکے ہیں۔
عدم اعتماد کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی ستائس فروری کو ہونے والے اپنے لانگ مارچ کی بھی بھرپور تیاریوں میں مشغول ہے۔ پورے ملک میں ورکرز کنونشن اور شمولیتی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شنید ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ سندھ، جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب سے گزرتا ہوا جب لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد پہنچے گا تو اس وقت تک تحریک عدم اعتماد کا ڈول بھی ڈالا جا چکا ہو گا۔ اس بھرپور عوامی دباو کے آگے ٹھہرنا ایک کمزور حکومت کے لئے بہت مشکل ہو گا، پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر بھرپور عوامی حملے کا مقابلہ کرنا سلیکٹڈ حکومت کےنہایت مشکل مرحلہ ہو گا جس سے بچنا اس حکومت کے لئے بہت مشکل ہو گا۔
اس وقت اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کا پورا فوکس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر مرکوز ہے لیکن پیپلزپارٹی کی سوچ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کے مرحلے کے لئے بھی پوری طرح واضح نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد اسمبلیاں نہیں توڑی جائیں گی کیونکہ اگلے انتخابات سے پہلے موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی متنازعہ انتخابی اصلاحات کو ختم کرنا اور متفقہ انتخابی اصلاحات کی جانی بہت ضروری ہیں کیونکہ اس کے بغیر اگلےانتخابات کا صاف شفاف ہونا ناممکن ہے۔ اگلے وزیراعظم کے انتخاب پر بھی پیپلزپارٹی کا اصولی موقف میثاق جمہوریت کے عین مطابق ہی ہے کہ جس پارٹی کی سیٹیں زیادہ ہیں اسی کا وزیراعظم لایا جائے، اس اصول کے مطابق وزیراعظم نون لیگ سے ہو سکتاہے لیکن اگر نون لیگ اپنا وزیراعظم نہ لانا چاہے تو پھر کسی اور کے بارے سوچا جائے گا۔ یہ وہی اصول ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی میں شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہیں اور سینٹ میں سید یوسف رضا گیلانی قائد حزب اختلاف ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پیپلزپارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں بطور قائد حزب اختلاف تعیناتی کے موقع پر نون لیگ نے اسے متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد صرف ایک معمول کی کاروائی رہ جائے گی۔
تحریک عدم اعتماد ایک بہت بڑا مرحلہ ہے جس کے لئے تمام اپوزیشن جماعتوں کا یکسُو ہونا نہایت ضروری ہے، اگرچہ تمام سرکردہ اپوزیشن رہنماوں کی جانب سے خلوص نیت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور اجلاس جاری ہیں، ایک دوسرےسے نوٹس بھی شئیر کئے جا رہے ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا اور باریک کام کرنے والوں سے ہوشیار رہنا ہو گا، غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا تاکہ ایک نااہل سلیکٹڈ حکومت سے نجات حاصل کی جا سکے۔ پچھلے سال مارچ میں بھی جب لوہا گرم تھا اور صرف ایک طاقتور ضرب لگا کر حکومت کو چلتا کیا جا سکتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپوزیشن اتحاد کو اس وقت پارہ پارہ کر دیا گیا جب کامیابی چند قدموں کے فاصلے پر نظر آ رہی تھی۔ آج ایک سال ضائع کرنے کے بعد پی ڈی ایم اگر موجودہ حکومت سے نجات کے لئے پیپلزپارٹی کے بتائے ہوئے راستے اور اپنے قیام کے اصل مقصد اور ایجنڈے پر واپس آ گئی ہے جس سے وہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد ہٹ چکے تھے تو اس موقع کو ضائع نہیں ہونا چاہئیے۔
حکمران جماعت تحریک انصاف جس کی بنیاد انصاف کے نام پر رکھی گئی تھی لیکن اس کے سربراہ عمران خان سے لے کر نیچے تک ان لوگوں نے قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پوراکرنے کی بجائے اپنا سارا زور سیاسی مخالفین سے انتقام لینے پر صرف کیا ہے، صداقت اور امانت کی آڑ میں کرپشن کی ایسی داستانیں رقم کی گئی ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، نااہلی اور بیڈ گورننس کے ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں، سٹیٹس کو توڑنےاور پروٹوکول نہ لینے کا دعوی کرنے والوں کے کتے ہیلی کاپٹروں اور قیمتی سرکاری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، صحافت اور ٹی وی چینلز کے زور پر اقتدار میں آنے والوں کے دور میں صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور بدترین سنسرشپ نافذ کر دی گئی ہے، انتخابی دھاندلی پر ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دینے والوں نے اقتدار اور اختیار کے نشے میں گلگت بلتستان، کشمیر، ڈسکہ اورخیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں جس طرح الیکشن قوانین اور الیکشن کمیشن کا مذاق اڑایا ہے اس کی بھی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہے۔ پاکستان میں بُری سے بُری حکومتیں بھی آئیں لیکن موجودہ حکمران شائد ان سے بھی آگے نکل گئے ہیں، اس حکومت کا واحد کارنامہ پچھلی حکومتوں کے کئے گئے کاموں پر اپنی تختی لگانا ہے۔ ملک میں بڑے سے بڑا حادثہ ہو جائے یا کچھ بھی ہوجائے تو وزیراعظم کے پاس اس کا صرف ایک حل ہے کہ اپنے دو درجن ترجمانوں کا اجلاس بلا لینا اور ان کو ہدایات جاری کرنا کہ سیاسی مخالفین کو غلیظ ترین الفاظ میں جواب دیں۔ جو جتنا بڑا جھوٹ بولے یا غلیظ زبان استعمال کرے وہ سرکار دربار میں اتنا ہی معتبر تصور کیا جاتا ہے اور اسے ایوارڈ سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں حکمران بھول چکے ہیں کہ یہ اقتدار عارضی ہےاور سدا بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ذات کی ہے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...