(Last Updated On: )
؎ شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
انسان شروع سے متجسس جبلت کا حامل ہے۔ کیا، کیوں اور کیسے جیسے لفظوں کی تشفی کے لئے اس نےکھوج شروع کی اور کائنات کے کئی راز اور پوشیدہ پہلو کھول کر رکھ دیئے۔ اس کی متجسس جبلت نے کائنات کے مادی، حیاتیاتی اور سماجی پہلوؤں کے بارے میں ایسی معلومات دیں، کہ جس کی وجہ سے آج دنیا ایسی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، جو ایک بحررواں کی مانند چل رہی ہے۔ گویا کہ انسان کا تجسس اسے کہیں پر بھی ٹکنے نہیں دیتا، اس لئے خوب سے خوب تر اور نئی دنیاؤں کی کھوج میں وہ آج بھی سرگرداں ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ شاید اسی لیے مولانا الطاف حسین نے فرمایا تھا کہ!
؎ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے، دیکھیئے جا کر نظر کہاں
تحقیق “Research” کا مطلب ہے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت احتیاط کے ساتھ سائنسی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے تجزیاتی مطالعہ کرنا، جس سے کسی بھی مسئلے کا حل یا خود مسئلہ کھل کر سامنے آ جائے۔ تحقیق عربی سے نکلا ہے،جس کا مطلب ہے دریافت کرنا، کھوج کرنا، چھان بین یا تفتیش کرنا۔ تحقیق اگر منظم طریقے سے کی جائےاور منطقی انداز سے کی جائے تو اس سے نیا علم بھی تخلیق ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر مختار احمد عزمی صدر شعبہ اردو منہاج یونی ورسٹی لاہور سے ایک دستخطی کتاب کا “تحفہ” موصول ہوا جس کا عنوان “تحقیق کے زاویے” ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی ادبی دنیا میں ایک قد آور شخصیت کے مالک ہیں، وہ ایک بہترین نقاد، محقق، شاعر، نثار اور ماہر اقبالیات ہیں، اور کافی ساری کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی اہم کتابوں میں 1: کتاب دل”شاعری”، 2: پہچان کے زاویے”تحقیق و تدوین” 3: سلیم احمد شخصیت اور فن “تحقیقی مقالہ پی۔ایچ۔ڈی”،4: گلزار اردو “گرامر” وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ زیر طبع کتب میں نقد جاں “شاعری” اور گوشہ صحرا/ پہچان “کالموں کا مجموعہ” بھی بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔
جس طرح قتیل شفائی “اورنگزیب” نے اپنے استاد شفائی سے انس و محبت کی بنیاد پر اپنا تخلص شفائی رکھا بالکل اسی نسبت اور انس و محبت کی بنیاد پر ہی ڈاکٹر مختار احمد عزمی نے بھی اپنے استاد محترم عبدالخالق سے تعلق خاطر کی یاد کو برقرار رکھا اور اپنے نام کے ساتھ “عزمی” کا اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی آج کل صدر شعبہ اردو منہاج یونیورسٹی لاہور ہیں، اور تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تحقیقی کتاب “تحقیق کے زاویے” کے پیش لفظ میں رقم طراز ہوتے ہیں کہ! “ہم نے یہاں وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب 14-2013میں اساتذہ کرام اور چیئرمین شعبہ کے بیٹھنے کے لیے کوئی معقول جگہ تک نہ تھی۔ کرنل “ر” محمد احمد رجسٹرار کی شفقت اور دفتر سے شعبہ اردو کا آغاز ہوا۔ ہم اور ہمارے ساتھی نیم کے پیڑ تلے بیٹھ کر طالبعلموں کی تفویضات “Assignments” چیک کرتے اور کھوکھا کنٹین سے چائے پیتے تھے۔ سخت گرمی اور حبس کے ماحول میں بھی پڑھاتے رہے۔ شعبہ میں راقم واحد ریگولر ٹیچر تھا۔ خود ہی کلرک اور خود ہی آفس بوائے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے منہاج یونیورسٹی نئی بلندیوں کو چھونے لگی۔ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں نہ صرف شعبہ اردو اور فیکلٹی آف لینگویجز نے بلکہ منہاج یونیورسٹی نے حیران کن ترقی کی ہے۔ اس کی بنیادوں میں قبلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا وژن، اخلاص، مہارت اور دعائے نیم شبی شامل ہے۔ صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے امریکہ اور آسٹریلیا کے اعلی تعلیمی اداروں سے کسب فیض کرنے کے بعد بطور ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز چارج سنبھالا اور دیکھتے ہی دیکھتے منہاج یونیورسٹی کو ملک کی اہم درس گاہ بنا دیا۔
ڈاکٹر مختار احمد عزمی کی کتاب “تحقیق کے زاویے” میں 17 تحقیقی مضامین شامل ہیں، جن میں سے 6 مضامین “English” میں ہیں۔ مصنف نے کتاب کا آغاز تعلیمات سید ہجویرؒ کی عصری معنویت سے کیا ہے اور اولیاء اللہ سے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے بعد فکرِ اقبالؒ پر مدلل بحث کی ہے، اقبالؒ کی فکر میں مذہب، فلسفہ، خودی، عشق، ملت، آرٹ جیسی تمام چیزوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
؎ سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اس سے اگلے باب/ مضمون میں مصنف نے ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت اور اسلوب پر بحث کی ہے، مصنف کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلوب تحریر کا ایک اہم عنصر درد مندی ہے۔ وہ دردمندی، جس میں سوز و ساز رومی بھی ہے اور پیچ و تاب رازی بھی۔ جس میں امت مرحوم کے زوال کا غم بھی ہے اور بنی نوع انسان کی بربادی کا دکھ بھی۔ یہ سوز وساز دردمندی جب تحریر کا روپ دھارتے ہیں تو “سیرۃ الرسول ؐ” جیسی شاہکار کتابیں وجود میں آتی ہیں اور جب تقریر میں ڈھلتی ہے تو لانگ مارچ اور دھرنے کی شکل میں کاخِ امرا کے در و دیوار میں رعشہ سیماب پیدا کر دیتی ہے۔ مصنف نے اس سے اگلے مضمون یا باب میں کرہ ارض سے انسانی ہجرت کی طویل داستان مدلل اسلوب اور پیرائے میں قاری کے سامنے رکھ دی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر مصنف کا مضمون “انسان دوستی، پناہ گزین اور ذہنی صدمات” بہت متاثر کن لگا، ویسے تو مصنف نے ایک ایک باب اور ایک ایک مضمون میں انتہائی مدلل گفتگو کی ہے اور حوالہ جاتی بحث کی ہے لیکن اس مضمون میں انسان ہونے کے ناطے ہم انسان جو دوسرے انسان کے لئے اپنے اندر دردِ دل رکھتے ہیں اس کا وسیع معنوں میں بیان ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ!
عہد حاضر میں ترکِ وطن اور تلاش پناہ کی رفتار اور شرح تیز تر ہو گئی ہے۔ بیسویں صدی میں دو بڑی جنگوں اور کافی چھوٹی جنگوں اور اکیسویں صدی میں “نائن الیون” کے ردعمل کی تباہی کے بعد کروڑوں لوگ ترکِ وطن پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس وقت افغانستان، کشمیر، فلسطین، عراق اور شام کے مہاجرین بیچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئےہیں۔ مسئلے کی گھمبیرتا کی وجہ سے اب ہر سال 20 جون کو “پناہ گزینوں” کا عالمی دن منانا جانے لگا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج کل: “4 کروڑ37 لاکھ لوگ مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں اور 2 کروڑ 75 لاکھ اپنے ہی ملکوں میں بے سکونت ہیں۔
؎ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
پوری کتاب کو پڑھنے سے گویا یہ گمان ہوتا ہے کہ قاری ایک “سپر سٹور” میں کھڑا ہے، جہاں دنیا جہان کی ہر ایک چیز دستیاب ہے۔ مذکورہ کتاب میں مصنف نے ہر ایک پہلو اور موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے اور مصنف کا اسلوب ایسے ہے کہ گویا وہ خود قاری کے سامنے آ کر گفتگو کر رہے ہوں، مصنف نے خوبصورت لفاظی، رعایت لفظی، تلمیحات اور استعارات کا استعمال کیا ہے۔ پوری کتاب کا ایک ایک لفظ گواہی دے رہا ہے کہ مصنف نے خوب عرق ریزی کی ہے۔ کچھ اس لحاظ سے بھی اسلوب دلکش ہوا ہے کہ مصنف نے پنجابی کے چند شیریں الفاظ کو بھی اردو میں یوں جگہ دی ہے کہ جیسے وہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے، موضوعات میں تنوع ہے، ہر مضمون میں ربط ہے، منظر نگاری ہے، مصنف ایک وسیع مطالعہ کے مالک ہیں اور نثر لکھنے کا فن جانتے ہیں۔