اب تک طاہر عدیم کی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔’’بامِ بقاء‘‘،’’تم کبھی بے وفا نہ کہنا‘‘اور ’’ترے نین کنول‘‘۔۔۔۔اوراب ان کا چوتھا شعری مجموعہ ’’بوسہ‘‘ کتابی صورت میں میرے سامنے ہے۔طاہر عدیم جرمنی میں مقیم ان معدودے چنداردو شعراء میں شامل ہیں جن کی شاعری پر اظہارِ خیال کرنا میرے لیے خوشی کا موجب رہا ہے۔ایک پُر گو اور پُر جوش شاعر کی حیثیت سے طاہر عدیم نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔میں ان کی طبیعت کی پیہم روانی کا چشم دید گواہ ہوں۔جب بھی جی چاہے ان کے اندر کے شاعر کواک ذرا چھیڑیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
طاہر عدیم نے نظمیں بھی کہی ہیں لیکن ان کے بھرپور اظہار کی صنف غزل ہی ہے۔زیر نظر شعری مجموعہ’’بوسہ‘‘میں صرف ان کی غزلیں شامل ہیں۔آغاز میں طاہر عدیم نے پیش لفظ کے طور پرایک نیم انشائی تحریر پیش کی ہے ،’’ریشمی چاندنی کے تھان پرجگنو آنکھیں۔۔۔۔‘‘۔اس میں انہوں باپ اور ماں کے بچے کے لیے بوسے سے بات شروع کی ہے اور بوسے کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے۔
’’بوسہ‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے بہت سارے اچھے اشعارپڑھنے کو ملے۔چند اشعار یہاں پیش کر رہا ہوں۔
تخت سباؔ کا ہو یا تخت ہزارے کا
پل بھر میں ہر تخت ہلایا جا سکتا ہے
میری پرواز سے خائف ہے وہ اب بھی طاہرؔ
مِرا دشمن مِرے ٹوٹے ہوئے پر مانگتا ہے
یہ خواب بسترِ خس و خاشاک سے اٹھا
میں کب کا بن چکا ہوں مجھے چاک سے اٹھا
طاہر عدیم شیشۂ دل کو بھی صاف کر
چشمِ یقیں سے دیکھ کہ اوہام میں ہے کیا
تخت پایا ہے تو پھر عزم کا پرچم بھی اُٹھا
وہ بھی سر کیا ہے کہ ہو جائے جو دستار میں گم
بیچ بازار میں مجھ پر نہ پڑی کوئی نظر
اے خدا کوئی نہ ہو یوں بھرے بازار میں گم
میں اس مکین سے خوش تھا نہ اس مکان سے خوش
چھپا کے زخم چلا ہوں ترے جہان سے خوش
طاہرؔ یقیں سے باندھ کے لاتا ہے عزم کو
تو بھی یزیدِ وقت نئی کربلا سے آ
اس نے ہارا جو حوصلہ، میں نے
اس بھری زندگی کو ہار دیا
طاہر عدیم کی شاعری میں خون کے رشتوں کا ذکر ان کی اپنے اُن رشتوں سے گہری محبت کا اظہار ہیں۔ماں،باپ،بیوی،بچے،بھائی ان کی شاعری میں جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں۔اپنے والد کی نصائح پر مبنی طاہر عدیم کی غزلوں کا ایک مجموعہ’’مِرے بابا نے کہا‘‘زیر ترتیب ہے۔’’بوسہ ‘‘
میں بھی اس نوعیت کی تین غزلیں شامل ہیں۔صرف ایک غزل کے ان اشعار سے ان کی اس نوعیت کی غزلوں کے دلچسپ اور انوکھے انداز کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
دل کی چکی کو چلانا مِرے بابا نے کہا
تھام کر وقت کا شانہ، مِرے بابا نے کہا
سانس گھٹتا ہے مِرا میرے کفن کے اندر
مِرا چہرہ نہ چھپانا ، مِرے بابا نے کہا
والدہ کے بارے میں طاہر عدیم کے جذبات اس شعر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
چاند کے آنگن میں جا بیٹھی ہے ماں
جانے کب لَوٹے گی چرخہ کاٹ کر
ہمارے بعض شعراء بیوی کے ڈر سے بیوی کو اپنی شاعری کا محبوب قرار دیتے ہیں لیکن طاہر عدیم کی شاعری کا محبوب حقیقت میں ان کی اہلیہ ہی ہیں۔پہلے شعری مجموعہ سے لے کر اس چوتھے شعری مجموعہ تک غزل کا روایتی محبوب ہو یا غیر روایتی محبوب دونوں مقامات پر مونا ہی مونا ہیں۔بیٹوں کا ذکر بھی اپنی جگہ اہم ہے لیکن بیٹیوں کے ذکر میں طاہر عدیم نے کیا ہی عمدہ شعر کہا ہے۔یہ ہر باپ کی فکر مندی کی کیفیت ہے۔
آتے جاتے مِری شاخوں کو نظر میں رکھنا
مجھ میں پہلی سی وہ طاقت مِرے مالی نہ رہی
خون کے رشتوں کی محبت اور اہمیت سے ہٹ کر پھر طاہر عدیم کی عمومی شاعری کی طرف چلتے ہیں اور چند مزید ملے جلے اشعار سے ان کی شاعری کا وہ عام رنگ دیکھتے ہیں جو حقیقت میں بہت خاص ہے۔
میرے اندر کے شخص نے طاہرؔ
میرے اندر ہی مجھ کو مار دیا
پَل کا راز ہے پایا وصل کی صدیوں سے
صدیاں کیا ہیں ہجر کے پَل سے سیکھا ہے
کٹ گئی ہے تیرگی میں عمر یہ
اب ترا روشن حوالہ کیا کروں
جب ہنسی تیری نہیں میرے لیے
موتیوں کی پھر یہ مالا کیا کروں
ہر کوئی اندر سے باہر آگیا
انتہا کا حبس تھا طاہر عدیم
میں مر گیا تو سانس نہیں آئے گا تمہیں
دیکھو ابھی بھی وقت ہے،سمجھا رہا ہوں میں
شاید مِری مدد کے بہانے وہ آسکے
سلجھی ہوئی جو ڈور تھی اُلجھا رہا ہوں میں
گزشتہ چند برسوں سے طاہر عدیم نے جرمنی میں ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ان تقریبات کی اپنی اہمیت ہے،پھر طاہر عدیم کو کلام سنانے کا ڈھنگ بھی آتا ہے اور مشاعرے کے جملہ لوازمات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔سو یہ سلسلہ اپنی جگہ اہم ہے ۔تاہم’’بوسہ‘‘کے آخر میں عابد خورشید نے طاہر عدیم کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک بہت اہم بات درج کی ہے۔میں ان کی اس بات کو یہاں پیش کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔
’’ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ لفظ کی اصل کا غذ پر ظاہر ہوتی ہے۔مشاعروں میں پڑھے جانے والے اشعارمیں شاعر کی پرفارمنس،اُس کا سماجی مقام سُننے والوں کواپنے زیراثر رکھتا ہے اور کاغذ پر لفظ اپنی ’’اصل‘‘میں ہوتا ہے۔‘‘(’’بوسہ‘‘ ص ۱۵۴)
مجھے امید ہے کہ طاہر عدیم اس اہم نکتے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے کامیاب ادبی سفر میں مسلسل آگے بڑھتے رہیں گے۔جرمنی میں طاہر عدیم جیسے اچھے اور شاندار شاعر کا ہونا جرمنی میں اردو شاعری کے لیے عزت و وقار کا موجب ہے۔میں ان کے شعری مجموعہ’’بوسہ‘‘کا خلوصِ دل کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔