ٹیگور کو ادب کا نوبیل انعام ملنا اور علامہ اقبال کا اس سے محروم رہنا
کچھ سوالات اور کچھ حقائق
علامہ اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کو ادب کا نوبل انعام نہیں ملا اور ربندر ناتھ ٹیگور (۱۸۶۱ء- ۱۸۴۱ء) اس انعام کے حق دار ٹھہرے۔ یہ مسئلہ آج بھی بحث طلب ہے۔ ربندر ناتھ ٹیگور کلکتہ (موجودہ کولکاتا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان فنونِ لطیفہ اور تصوف کا علم بردار تھا۔ آپ کے والد مہارشی دیوبندرناتھ ٹیگور عبادت و ریاضت، زہدو مراقبہ اور مشاہدہ و مطالعہ فطرت جیسی صفات کے حامل تھے۔ ساتھ ہی حافظ شیرازی اور رومی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس گھرانے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ مسلمانوں کے علوم اور تہذیب و تمدن سے پوری طرح واقف تھا۔ ان تمام چیزوں کا اثر رابندرناتھ ٹیگور نے بھی قبول کیا۔ اسی وجہ سے اس کے نظریہ حیات میں قبولیتِ شکر گزاری اور قدر شناسی پائی جاتی ہے۔ زندگی سے نفرت، جھنجھلاہٹ اور شکوہ شکایت سے آپ ہمیشہ دور رہے اور آپ میں مشرقی اقدار سے محبت، انسانیت سے ہمدردی، مذہب پسندی، جمال پرستی، تصوف پسندی اور دنیا سے بے زاری وغیرہ جیسی خصوصیات پیدا ہوئیں۔ جن کا اثر آپ کی شاعری، ناول، ڈرامے، افسانے، مصوری وغیرہ میں بھی نظر آتا ہے۔ ٹیگور کو ۱۹۱۳ء میں نوبل انعام برائے ادب حاصل ہوا اور اقبال کو شاید ہی کوئی بین الاقوامی اعزاز ملا ہو۔ انھوں نے مختصر وقفہ کے لیے سیاست میں بھی حصہ لیا تھا لیکن دونوں کو عوامی امور میں دلچسپی ضرور تھی اس کا اظہار ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔ ٹیگور مزاجاً صلح کل اور نرم رو تھے اور اقبال تیز رو اور متحرک مزاج تھے۔ ٹیگور انڈین نیشنل کانگریس سے منسلک تھے اور اقبال آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلق رکھتے تھے۔ ٹیگور نے ایک بے مثال خوش حال زندگی گذاری اور اسّی سال کی عمرو میں وفات پائی۔ اقبال کو پوری زندگی جدوجہد کرنی پڑی اور اکسٹھ سال کی عمرو میں بستر علالت پر انتقال کیا۔ ٹیگور ہمیشہ مستعد اور فعال رہے اور اقبال کی سستی اور کاہلی سے کبھی دوستی نہیں ٹوٹی۔ ٹیگور ایک عظیم شاعر، ادیب، فلسفی، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، مغنی اور مصور تھے اور اقبال شاعر، مفکر، فلسفی اور مدبر تھے۔
علامہ اقبال سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صوفی منش بزرگ انسان تھے۔ ان میں مذہبیت اور دین داری کا غلبہ تھا، چناں چہ آپ کی تعلیم و پرورش خالص صوفیانہ مذہبی اور اخلاقی اصولوں پر ہوئی۔ آپ کی والدہ محترمہ بھی دین دار اور عبادت گزار خاتون تھیں، اس لیے انھوں نے بھی ان کی مذہبی اور اخلاق تربیت میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ کے گھر میں شدت پسندی اور تنگ نظری نہ تھی۔ ان تمام چیزوں کا اثر علامہ اقبال پر بھی پڑا، چناں چہ آپ کی شاعری میں اس کے اثرات ہمیں واضح طور سے نظر آتے ہیں۔ اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں کشمیری برہمن کا دماغ، مسلمان کا دل، قرآن کریم کی تعلیمات، مغربی علوم، ہندو فلسفہ، جلال الدین رومی، ابن حزم اور شاہ ولی اللہ کی روحانیت، غالب کی شاعری، مارکس لینن اور نطشے کے انقلابی تصورات شامل ہیں:
خردافزودمرادرس حکیمان فرنگ
سینہ افروخت مراصحبت صاحب نظراں!
ٹیگور کی گیتا نجلی میں ویدانتی وحدت الوجودی فکر ملتی ہے۔ وجودی فکر کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہے جس کو صوفیاء نے اپنی زبان میں لامطلوب الا اللہ، لامقصود الا اللہ اور لا موجود الا اللہ کہا ہے۔ وجودی فکر کا سنگ بنیاد ’’ہمہ اوست‘‘ اور اصول ’’ہمہ موجود یک وجود حق دانستن‘‘ ہے اور اسی وجودی فکر کا کافی اثر گیتا نجلی پر بھی دکھائی دیتا ہے۔
عمران شاہد بھندر نے لکھا ہے:
’’رابندرناتھ ٹیگور نے ایک ایسے خاندان میں جنم لیا جس کا شمار ہندوستان کے چند انتہائی بااثر خاندانوں میں ہوتا تھا۔ ان کے دادا وار کا ناتھ کے ملکہ وکٹوریہ سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان روابط میں ٹیگور خاندان سلطنتِ برطانیہ کے لیے انتہائی اہم ’خدمات‘ سر انجام دیتا رہا ہے۔ اشرفیہ سے تعلق رکھنے والے رابندرناتھ ٹیگور نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے غیر مغربی لکھاری ہیں۔ ان کا شمار بہر حال نوبل انعام حاصل کرنے والی متنازع شخصیات میں ہوتا ہے‘‘۔
(رابندرناتھ ٹیگور اور نوبل انعام)
اقبال انگریزی کے ادیب یا شاعر نہیں تھے اور ان کے تراجم بھی انگریزی میں نہ ہونے کے برابر ہوئے تھے جب کہ ٹیگور کا انگریزی کا ابلاغ اقبال سے بہتر تھا۔ اقبال نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور توانائیوں کو ان باتوں میں صرف کیا جو اس پائے کے دماغ کے لیے بہتر نہ تھا۔ نوابوں، راجاؤں اور اسٹبلشمنٹ سے ان کے روابط نے اقبال کو ان کے مقصد سے دور کر دیا۔ ۱۹۱۳ء میں ٹیگور کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اقبال کی بھی یہ کوشش رہی کہ ان کو ادب کا نوبل انعام ملے مگر ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اقبال ٹیگور کے نوبل انعام ملنے کے بعد ۲۵ سال زندہ رہے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اقبال اسلام میں صوفی ازم کے قابل نہیں تھے جو اصل میں ٹیگور کی فکر سے انکار تھا۔ ٹیگور نے ایک اصلاح پسند ہندو کی حیثیت سے پرورش پائی۔ ان کے قالد پرہمو سماج کے رکن تھے۔ اقبال نے خالص اسلامی ماحول میں پرورش پائی۔ ان کے والد ایک کٹرسنی تھے۔ بعد میں ٹیگور ایک مصلح بن گئے۔ انھوں نے زندگی نفاق و انتشار کے بجائے اتحاد سے بسر کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ اقبال باغیانہ ذہن رکھتے تھے۔ وہ سماج میں ہنگامہ آرائی پر یقین رکھتے تھے تا کہ نیا معاشرہ تشکیل کیا جا سکے لیکن اقبال نے اپنے دوست سید امجد علی کو جو بعد میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سفیرمتعین کئے گئے بہت صاف گوئی سے کہا تھا اور اسی جہاز میں ہندوستانی سائنس داں سرسی وی رمن بھی موجود تھے جو اقبال کی بات سے بہت محفوظ ہوئے اور متاثر بھی کہ ’’ٹیگور اور میرے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ وہ آرام اور سکون کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کام کرتے ہیں لیکن میں عمل کی بات کرتا ہوں اور خود تساہل برتتا ہوں‘‘۔
جب ٹیگور کو نوبیل انعام ملا تو اقبال کو ’’امت مسلمہ‘‘ اور ’’پین اسلام ازم‘‘ کی یاد آئی اور وہ مسلمانوں کے دنیا پر حاوی ہونے کا ’خواب‘ دیکھنے لگے لٰہذا اسلام کی یادِ رفتہ اور اسلامی ناسٹلجیا کے رومانس میں گرفتار ہو کر کہتے ہیں:
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر بھی ہوشیار ہو گا
۱۹۶۳ء میں ۱۰۱۳ء کی نوبل کمیٹی کی کاروائی منظر عام پر آئی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کے سبب نوبل انعام ان باتوں میں نہ دیا جائے تو قومیت پرستی کا حامی ہو اور مخصوص قوم کے ملّی جذبات کو ابھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دیتا ہو۔ اقبال ملت اسلامیہ کو اقوام مغرب پر فوقیت دیتے تھے۔ کیا اس صورت حال میں اقبال کو ادب کا نوبل انعام مل سکتا تھا؟
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
(’’اقبال، مذہب، بانگ درا‘‘ حصہ دوم)
اقبال اسلامی نشاۃ ثانیہ کے قائل بھی تھے اور پین اسلام ازم ان کا خواب تھا اور بے تیغ لڑنے والا مسلمان (مجاہد) کا تشدد پسند رویہ اور خواہش بھی نظر آتی ہے۔ اقبال دنیا پر اسلام کا غلبہ چاہتے تھے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے بھی خواہاں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی قومیت سے انحراف اور اسلامی قومیت، اسلامی نشاۃ ثانیہ اقبال کے نوبل انعام نہ ملنے کا سبب تھا۔ علامہ اقبال کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اولین نوبل انعام کا اعزاز اقبال کے بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’’زیادتی‘‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن ۱۹۱۳ء سے ۱۹۳۸ء تک کے ۲۵ برسوں میں ایک بار بھی نوبل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔
اقبال اپنی زندگی کے آخری حصے میں ’نوبل انعام‘ سے بہت زیادہ متنفر ہو گئے تھے۔ فقیر وحیدالدین نے اپنی تصنیف ’’روزگار فقیر‘‘ میں یہ واقعہ درج کیا ہے:
’’ایک مرتبہ نوجوان طلبا سے گفتگو کے دوران ایک طالب علم نے ان سے (اقبال سے) سوال کیا ربندرناتھ ٹیگور کو ادب کا نوبل انعام مل گیا۔ آپ کو نہیں ملا، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘
اقبال نے طالب علم کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’نوبل انعام زندگی کے کسی شعبے میں کوئی اہم اور بڑا کارنامہ انجام دینے پر دیا گیا ہے۔ تو میں نے اب تک کون سا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جو مجھے نوبل انعام کے لیے منتخب کیا جاتا؟‘‘
کہتے ہیں ۱۹۱۶ء میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے کے لیے ٹیگور کوئی سوا سو نظمیں لے کر انگلستان گئے۔ وہاں انھوں نے انگریز مصور ڈیلمیر روتھن سٹائن سے ملاقات کی اور ان ہی کے توسط سے آئرلینڈ کے انقلابی اور نوآبادیات شکن شاعر والٹر برٹن ییٹس سے رابطہ کیا۔ ییٹس نے ٹیگور کی نظموں کی اصلاح کی۔ ییٹس نے ۱۹۱۳ء میں ٹیگور کی نظم ’’گیتانجلی‘‘ کا تعارف بھی تحریر کیا اور اسی سال نومبر کے مہینے میں ٹیگور کا نام ادب کے نوبل انعام کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کے بعد جب ییٹس نے ٹیگور کی تحریروں کو توجہ اور گہزائی سے پڑھا تو ان کے کاموں کو ’’جذباتی کوڑا کرکٹ‘‘ (Sentimental Rubbish) کہہ کر یکسر مسترد کر دیا۔
مگر ایک طبقہ آج بھی یہ خیال کئے بیٹھا ہے کہ کسی سازش کے تحت اقبال کو نوبل انعام سے دور رکھا گیا مگر خاطر نشان رہے کہ اقبال کا نام کبھی بھی نوبل انعام کمیٹی کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ ۱۹۱۳ء میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبل کمیٹی نے کبھی ان کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔ اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سر کا خطاب سات برس پہلے ۱۰۱۵ء میں ہی مل گیا تھا۔ ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خوشی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند ہیر کی روایتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔ ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پُرمایہ زبان تو ہوتی۔
اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا۔ ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔ یہ بیان تھا ’سر‘ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا اس شخص کے بارے میں جس نے انگریزی کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کر رکھا۔ ۱۹۱۵ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ لیکن برطانوی راج میں پنجاب میں عوام پر تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ ٹیگور نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں کم و بیش پوری متمدن دنیا کا دورہ کیا اور لیکچر بھی دئیے۔ ۱۹۳۰ء میں ’’انسان کا مذہب‘‘ کے عنوان سے لندن میں کئی بلند پایہ خطبات ممالک اور نیویارک میں اپنی ان تصاویر کی نمائش کی، جو ۲۸؍ برس کی عمر کے بعد بنائی تھیں۔ تین ہزار گیت مختلف دھنوں میں ترتیب دئیے، بے شمار نظمیں لیکھیں، مختصر افسانے لکھے، چند ڈرامے بھی لکھے۔ ہندوستان کی کئی جامعات اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریت کی ڈگری دی۔ ٹیگور کو بنگالی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔
یہ حیقیت ہے کہ نوبیل اور لینن انعام متنازعہ ہیں جس میں گُھن کے ساتھ گندم بھی پس جاتاہے۔ یہ دونوں ادارے اپنے مزاج میں ثقافتی، نظریاتی اور اجتماعی انا کے سبب قدامت پرست (قدامت پسند نہیں) ہیں۔ جب نوبل انعام کمیٹی نے ٹالسٹائی پر کراہیت آمیز مذہبی ہمدردی، ابسن پر اخلاقی جنس پرستی اور تھامس ہارڈی کے خدا پر اٹھائے گئے سوالات کو مسترد کر دیا گیا تھا جو سیاست زدگی اور لبرل ازم کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔ گوئٹے مالا کے ناول نگار مینول انجیل اسٹروس (۱۸۹۹ء-۱۹۷۳ء) جنھوں نے ظلم، غلامی اور ناانصافی کے خلاف لکھا اور امیریکہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ انھیں ادبی نوبیل انعام سے قبل ۱۹۶۵ء میں لینن انعام سے نوازا گیا۔ بہت سے لوگوں کو نوبیل انعام نہیں ملا جن میں گاندھی جی، ارجنٹائن کے ادیب خورخے بورہس اور غفار خان وغیرہ شامل تھے۔ انعام کے لیے نامزدگی کے باوجود یہ سب ناکام رہے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ژان پال سارتر نے ادب کا نوبیل انعام قبول کرنے سے اس لیے انکار کیا تھا کیوں کہ وہ یہ انعام لے کر ’’ادارہ‘‘ بنانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ادیب کو سرکاری اور دیگر پابندیوں کے بغیر اپنا اظہار کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوبیل انعام کا ادارہ ایک ’’مغربی ادارہ‘‘ ہے اور وہ مشرق اور مغرب کے تنازعات کو وقت پر سمجھ نہیں پاتا۔ سارتر یہ نہیں چاہتے تھے کہ نوبیل انعام لینے کے بعد لوگ انھیں ’’نوبیل انعام یافتہ ژان پال سارتر‘‘ کہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس انعام کو لے کر سارتر کی ’’وجودی انا‘‘ مجروح ہوتی تھی۔ بہرحال نوبیل اور لینن انعام میں سیاسی جبر پوشیدہ ہوتا ہے اور کچھ انعام ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو ان کے نظریاتی گماشتے ہوتے ہیں اور ’’لوبنگ‘‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیوں کہ شعرِ اقبال کا ایک سرا اگر بطونِ ذات میں تھا تو دوسرا وسعتِ کائنات میں تھا لیکن ٹیگور کے مقابل نوبیل انعام سے محرومی یقیناً ان کے سینے کا ایک داغ بن گئی تھی جس کی کسک انہوں نے آخری دم تک محسوس کی ہو گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔