کسی بھی معاشرے کا سب سے حساس فردادیب ہوتاہے جس کی معاشرے کے حسن و قبیح پر گہری نظر ہوتی ہے۔ سماج کے تہہ میں چھپے ہوئے ناسوروں کو ڈھونڈنکالنے کے لیے اور اس پرقلم اٹھانے کے لیے سب سے پہلے سماجی شعور حاصل کرنا ہوتاہے۔ سماج کا درست علم وہی حاصل کرسکتا ہے جو سماجی ارتقاء کا شعور رکھتا ہو۔ تاریخی شعور کا تقاضا ہے کہ سماج کی درست تصویر اتارنے کے لیے سماج کے اعلیٰ طبقے کے ساتھ ساتھ نچلے طبقے کے کچلے ہوئے افراد، کسانوں اور مزدوروں کے صحیح حالات ان کے روز مرہ کے مسائل کی نشاندہی کی جائے اور بہتر سماج کی تعمیر کے لیے ان کے روز مرہ کے مسائل کا قابل قبول حل بھی پیش کیا جائے۔
بنگلہ ادب کے نوبل انعام یافتہ شاعر وادیب رابندر ناتھ ٹیگورسماجی شعو ر رکھنے والے حساس ادیب تھے۔ان کے ناولوں نے ان کو بقائے دوام کے دربار میں جگہ وی اور انھیں دنیا ئے ادب کے صف اول کے ناول نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ انکے تخلیقات کے اب تک انگریزی اور اُردو میں بے شمار تراجم ہوچکے ہیں۔
رابندر ناتھ کے ناولوں کی تعدا د (جوکتابی طور پر شائع ہوئے) ۳۱ہیں۔ انہوں نے شاعری اور ناول نگاری تقریباً ساتھ شروع کی تھی۔ ان کا پہلا ناول ”کرونا“ قسط وار رسالہ ”بھارتی“ میں بنگلہ سن ۴۸۲۱ مطابق ۷۷۸۱ ء شائع ہوا۔ لیکن غالباًیہ مکمل نہیں ہو پایا تھا، لہٰذا کتابی طور پر یہ ناول شائع نہیں ہو ا۔ اس کے بعد اس رسالے میں ”بوٹھا کرانیر ماٹ“ (۱۸۸۱ء) شائع ہوا یہ دونوں تاریخی ناولیں ہیں اور اُن پر ناول نگار بنیکم چٹر جی کا نمایاں اثر ہے لیکن ٹھاکر نے اس کے بعد ہی اپنی راہ الگ نکال لی۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ تاریخی ناولیں، تاریخ نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ ناول کی ضرورت کے مطابق تاریخ کو محض پس منظر کے طور پر کام میں لایا جاتا ہے اس طرح یہ ناولیں جشوؔ ریا تر پورہ کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ”راجر شی“کے بعد طویل سات سال تک ربند ناتھ نے کو ئی تاریخ نہیں لکھا۔ اس کے بعد ان کا دوسرا قدم ”چوکھیربالی“ (۲۰۹۱ء)اور ”نو کا ڈوبی“ (۶۰۹۱ء) آتے ہیں۔ لیکن یہ ناولیں بھی ایسی نہیں ہیں جن کا خاص طور پر ذکر کیا جائے بلکہ کئی نقا دوں کا خیال ہے کہ ”نوکا ڈوبی“ رابند رناتھ کا سب سے کمزور ناول ہے۔
رابندر ناتھ کے ناولوں میں ”گھر ے بائرے“ (۶۱۹۱ء) ”چتو رنگ“ (۶۱۹۱ء)”جو گا جوگ“ (۹۲۹۱ء) اور ”ششیر کو بتیا“
(۰۳۹۱ ء) ایسے ہیں جو مقبول ہوئے۔”گھرے بائرے“ اور ”چارادھیائے“ (۴۳۹۱ء) دونوں کا موضو ع دہشت پسند بغاوت کی تحریک ہے، ”جو گا جوگ“ ایک نامکمل ناول ہے۔ٹھا کر کے تمام ناولوں میں ”گورا“ سب سے صخیم اور اہم ترین ناول ہے۔ جس کے لئے وہ ہمیشہ یادرکھے جائیں گے۔ **”گورا“ **کی تخلیق کا زمانہ ۹۰۹۱ء تا ۱۲۹۱ء ہے۔ ۱؎
رابند رناتھ ٹیگور کا تعلق بھی ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو سماج کے دکھ کو اپنی روح میں اترتا ہو ا محسوس کرتے ہیں۔وہ نقاد جنھوں نے رابندر ناتھ کو محض شاعر حسن و عشق، شاعر فطرت، شاعر رو حانیت وغیرہ کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں انھوں نے ٹھا کر کو یا تو سمجھا ہی نہیں یا اگر سمجھا ہے تو وہ مفاد پرستوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں، جن کے لئے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ ٹھا کر کی اصلیت کو عوام سے پوشیدہ رکھیں۔یہ درست ہے کہ رابندر ناتھ سیا سی معنوں میں اشتر اکی یا کمیو نسٹ نہیں تھے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس عہد کے کسی سیاسی رہنما، اشتر ا کی یا کمیونسٹ رہنما نے بھی ہندستان کی معاشی حالت،یہاں کے کسانوں اور مزدورں کی روز مرہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کو اتنا صاف اور واضح طو ر پر پیش نہیں کیا،جتنا کہ ٹھا کر نے کیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ انھوں نے ہندوستان کی معاشی حالت کا نہایت گہرائی سے مطالعہ کیا تھا، تب ہی تو وہ محسوس کرپائے کہ انقلاب آنے کو ہے اور اس انقلاب کے قدم رک نہیں سکتے۔ ۲؎
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ رابند رناتھ محنت کشوں کے نمائندے تھے۔ لیکن غالبا ً ٹھاکر محنت کشوں کے جتنے قریب آئے تھے اس سے زیادہ اس سماجی پسمنظر میں کسی ادیب کے لئے مزدوروں کی طرفداری کرنا ممکن نہیں تھا۔ اور ہندستان کی ادبی تاریخ میں اس وقت کا کوئی فنکار ایسا نظر نہیں آتا جس نے رابندرناتھ کی طرح محنت کشوں کا ساتھ دیا ہو محنت کشو ں سے متعلق رابند رناتھ کے شعور کا سفر انیسویں صدی کے آ خری دہا ئی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی کی تیسری دہا ئی تک و ہ وقت ضرورت مزدوروں کے حق میں آئے ہیں۔ انیسو یں صدی کے آخر میں ہماری جنگ آزادی ابتدائی مرحلے میں تھی۔ قومیت اور آزادی وغیرہ کی باتیں اونچے متوسط طبقہ اور دانشوروں کے گھروں کی چہاردیواری تک محدود تھیں۔ مزدوروں کی تحریک بھی ابھری نہیں تھی جنگ آزادی میں مزدور شامل نہیں ہو ئے تھے۔ تعلیم کی روشنی چند گھرو ں تک محد دو تھی۔گزشتہ صدی کے آخر میں دوچار ٹریڈ یونین برائے نام قائم ہوئی تھیں پھررفتہ رفتہ تحریک آزادی جتنی بڑھتی گئی اس میں اونچے طبقہ کے بدلے درمیانی طبقہ کے لوگ شامل ہوتے گئے۔ محنت کشوں کی لڑائی کا رشتہ تب تک جنگ آزادی سے منسلک نہیں ہوا تھا۔ دانشور جو آزادی کی باتیں کرتے تھے وہ بھی مزدوروں سے اپنے تعلقات قائم نہیں کر پائے تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ آزادی کے پہلے دور میں رابند رناتھ محنت کشوں کے سلسلے میں سوچنے لگے تھے اور ان کی تخلیقات میں مزدوروں کی باتیں آنے لگی تھیں لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ ٹھاکر نے تاریخ کے نئے دھارے کو سمجھ لیا تھا اور غالبا ً وہ پہلے فنکار ہیں جن کی تخلیقات میں مزدوروں کا ذکر اتنا کھل کر آیا ہے۔ رابندر ناتھ کے ادب میں محنت کشوں کے جو کردار ہیں وہ ایسے ہیں جو اس عہد کے کسی اور فنکار کی تخلیقات میں ناپید ہیں۔ ۳؎
انھوں نے اپنے ناول ”گورا“ میں سماج کے ان پہلو ؤں کو پیش کیا ہے جو ۷۵۸۱کی جنگ آزادی کے بعد ہند و مسلم دونوں کی پستی کا سبب تھے۔ اس ناول میں ٹیگور نے اپنے عہد کے بڑے اور اہم موضوعات کو لیا۔ ذات پات،صنف، مذہبی روایتوں کے بیچوں بیچ اصلاحی تحریکا ت کو اُجاگر کیا۔ اس ناول کے ترجمہ کا اقتبا س ملا حظہ کیجئے۔
سماجی اخلاقیا ت ہوں یا انفرادی نیکی کا تصور یا عمل اعلیٰ سماج میں ہی نشونما پا تا ہے۔ لیکن جب انسانی آسودگی کے راستے میں ہزاروں روکاوٹیں حائل ہو کر اسکے راستے مسدودکرتی ہوں تو انسان فرار کی راہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ جیسے ٹیگور نے اپنے ناول ”نجات“ میں پیش کیا۔
”رام لال جیسے سنجیدہ فطرت کے انسان کو بھی دفاتروں کے دروازوں پر ملازمت کی امید واری کے لیے خاک چھاننی پڑی۔ لیکن ملازمت کی ایک معمولی سی اُمید بھی دکھا ئی نہ دی۔ ازدو اجی سراؤں کے گدھوں کی عبرتناک حالت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔ ترک دنیا کا خیال اگر ایام مصیبت میں نہ آئے تو کب آئے۔
تب رام لال نے خوب غور کیا۔ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں مہا تما بدھ کی طرح ترک دنیا کا نیک عمل کروں گا۔ بیچ پھوٹ چکا تھا۔صرف آبپاشی کی ضرورت تھی۔ پٹرول کا ذخیرہ پُر تھا ضرور ت تھی ایک دیا سلائی کی رگڑ کی۔انجام کا رمجبور لا چار، بچارا رام لال ایک روز تاریکی شب میں گھر سے نکل کر چپکے سے چل دیا۔ کہاں؟ یہ پتا نہیں“۔ ۵؎
ملک میں سرمایہ دارانہ نظام جس طرح مزدوروں کا خون چوس رہا تھا انھیں لوٹ رہا تھا، کمیو نسٹ نہ ہونے کے باوجورٹیگورنے اس نظام کی شدید مذمت کی۔ وہ سیاستدان نہیں تھے۔ کسی کسان سبھا سے ان کا تعلق نہیں تھا اور نہ ہی مزدور رہنما یا ٹریڈیو نین لیڈر تھے اور نہ کبھی انھوں نے خود کو سیاسی رہنما قرار دیا اور نہ ہی کسانوں اور مزدوروں کا رہنما۔ انھوں نے ہمیشہ خود کو ایک ادیب ہی سمجھا اور ایک حساس ادیب کی حیثیت سے محنت کش عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کو دیکھا، محسوس کیا اور اس کی نشاندہی کی۔ انھوں نے اپنے ناول کے کرداروں کے ذریعے دنیا کو بتایا کہ اس دنیا کو چلانے والے دراصل مزدور ہی ہیں۔ مستقبل کا دارومداران کی محنت پر ہے۔ مزدور سماج کے رہنما نہیں ہوتے مگر انقلاب کی رہنمائی محنت کشوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ ایک جلسے کی تقریب میں دنیا کی معاشی حالت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
”موجود ہ تہذیب میں دیکھتا ہوں کہ ایک مقام پر لوگو ں کا ایک گروہ (طبقہ) غذا کی پیداوار کے لئے اپنی تمام تر قوت صرف کررہا ہے، اور دوسری طرف ایک اور مقام پر ایک اور گروہ (طبقہ) کے لوگ آرام سے رہ کر اس غذاپر زندہ ہیں۔۔۔۔
آج کا معاشی مسئلہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے عالم بھی اس کی حقیقی وجہ تلاش نہیں کرپارہے ہیں۔ روپیہ ہے کہ جمع ہوتا جارہا ہے، ڈھیر ہوتا جارہا ہے، حالانکہ اس کی قوت خرید، اس کی قیمت گھٹ رہی ہے۔۔۔۔۔دولت کی پیداوار اور اس کی تقسیم میں جو فرق تھا، بھید تھا، وہ آج بہت بڑ ھ گیا ہے“۔ ۶؎
رابند رناتھ ٹیگورنے اپنے ناول ”کلموہی“ میں سماج کے طبقاتی فرق کا بڑے دلکش انداز میں نقشہ کھینچا ہے۔ راج لکشمی جو ایک مالدار بیوہ ہے اپنے بیٹے مہندر کے دوست بہاری کو صرف اس لیے اپنے زرخرید غلام کی حیثیت دیتی ہے کہ وہ مالدار نہیں جب کہ بہاری مہندر سے زیادہ راج لکشمی سے محبت کرتا ہے انھوں نے اپنے ناول ”گورا“ میں بھی طبقاتی سماج کی نشاندہی کی ہے۔ناول میں گاؤں میں غیر ملکی حاکموں نے کسانوں، کا شکاروں پر مظالم ڈھائے اور اس پسماندہ طبقے نے اسے سہا۔ جدید یت کے جو فوائد یاثمرات تھے وہ شہر کے امرأکی جھولی میں آئے۔
ٹیگورنے اپنے کردار کے ذریعے ہندوستا نی سماج کے مخصوص تہذیبی و ثقافتی رویے کی عکاسی کی ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے متوسط طبقے سے تعلقرکھنے والی خواتین خانہ کی تنہائی اور بے وقعتی کے احساسات کا حقیقت پسند انہ جائزہ لیا۔ ٹیگور نے شوہروں اور بیویوں کے عدم مطابقت کو اپنی چشم مشاہدہ میں رکھنے کے باوصف اپنے ناولوں میں ان غیر رسمی تعلقات کو اپنا موضوع بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔انھوں نے اپنے ناول ”نجات“ میں ”کملنی“ کے کردار کے ذریعے سماج کی آنکھوں سے پردا ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ کملنی جو لاثانی حسن کی مالک ہے اس کا حسن روشنی کی لکیر کی طرح جیسے نیند سے بیدار ہوتے ہوئے انسان کی آنکھوں میں عجیب چکا چوند پیداکردیتاہے مگر پھر بھی شوہر کی بے اعتنا ئی کا شکا ر ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ :
”کبھی کبھی آئینہ کے سامنے جاکر باندھا ہوا جوڑا یکا یک کھول ڈالتی ہے اور بے وقت ہی اسے باندھنے بیٹھ جاتی ہے۔زلفوں میں ڈوری گوندھ کر دونوں بازو اُوپراٹھا کر جوڑا باندھتی ہے۔ پھر فرصت کا وقت ہوتا ہے۔سامنے کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا تب سُستی کی وجہ سے اپنے نرم اور ملائم بستر پر لیٹ جا تی ہے۔
کملنی کے کوئی بچہ نہیں۔ وہ ایک رئیس کی لڑکی اور رئیس کی ہی بیوی ہے۔
اسے خود کرنے کے لیے گھر میں کوئی خاص کا م نہیں۔ وہ اکانت میں اکیلی روزانہ اپنی جوانی کو خود اکھٹا کررہی ہے۔ اب وہ جوانی اس کے سنبھا لے نہیں سنبھلتی۔ خاوند ہے مگر وہ اس کے قابو میں نہیں ہے۔ ۷؎
ٹیگورنے اپنے ناول ”نشٹینر“ میں ایک شادی شدہ عورت کو اپنے چچیرے دیور کی محبت میں مبتلا ہوتے دکھا یا۔ ”دوئی بون“ میں ایک شادی شدہ آدمی، اپنی بیوی اور سالی کی محبت کے ساتھ رشتوں کی ایک تثلیث قائم کرتا ہے ”کلموہی“ میں شادی شدہ مہندر اپنی دور کی بیوہ بھابھی نبودنی کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنی سادہ لوح بیوی کی حق تلفی کرتا ہے۔ ایسے تعلقات کو ہندو ستا نی اشرافیہ نہ کل قبو ل کرتا تھا نہ آج کرتا ہے مگر ہندوستا نی سماج کے گھٹن زدہ ماحول میں یہ ناقابل قبول کردار بھی پنپ رہے تھے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ملک کو جو مسائل درپیش تھے ٹیگورکی بصیرت ان تمام مسائل کو سمجھ رہی تھی۔ سما ج کے اندر جو برائیا ں سرائیت کرچکی تھیں انھیں دور کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ خاص کر ہندوستان کے درمیانی طبقہ کے گھروں میں عورتوں کی افسوس ناک حالت دیکھ کر وہ بہت متردّد تھے۔ اور انھوں نے اپنی پرزور تحریرکے ذریعہ اس کو بے نقاب کرکے بڑی شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی۔اپنے کرداروں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے استحصال جیسے موضوع کو انھوں نے اپنے ناول میں جگہ دی۔ اپنی خود غرضی اور کمینہ پن کی وجہ سے مردوں نے اپنے زنان خانے کو عقوبت خانہ بنادیا تھا اور اس پر طرّہ یہ کہ وہ بے تامل یہ سمجھتے تھے کہ عورتوں کو اپنے حال میں خوش رہنا چاہیے کیونکہ قانون قدرت کا یہی منشاہے۔ عورت نے اگر آزاد فضامیں سانس لینے کی خواہش کی یا ظلم سہنے سے انکار کیا تو اسے بغاوت کہہ کر سزا کی حقدار قرار دیا جاتا تھا۔ ناول** ”گورا“ **میں اس کا عکس یوں نظر آتا ہے۔ناول ”سنجوگ“ میں بپراداس نے اپنی بہن کمو کو کہا۔
”میر ماں نے ذلت برداشت کی تھی، وہ تمام عورت ذات کی ذلت تھی۔ کمو کیا تو اپنی انفرادی حیثیت سے اپنی مصیبت کو بھلا کر اس بے عزتی، اس تحقیرکے خلاف کھڑی ہوسکتی ہے۔ کبھی بھی ہار نہ ماننے کے لیے؟
کمو سرجھکا کر آہستہ آ ہستہ بو لی۔ ”لیکن بابا تو ماں سے بہت محبت کرتے تھے۔
بپراداس نے کہا:”یہ مانتا ہوں۔ لیکن اتنی شدید محبت کرنے کے باوجود بھی وہ بڑی آسانی کے ساتھ ماں کی تحقیر کر جاتے تھے۔ اس میں سراسر قصورسماج کا ہے۔
اس لیے میں سماج کو کبھی معاف نہیں کرسکتا“۔
”سماج نے عورت کو اس کے حقوق دینے کے بجائے ہمیشہ اسے فریب دئیے ہیں۔اسی سماج کے خلاف جنگ کرنی ہے“۔ ۹؎
اسی ناول میں کمو جب اپنے شوہر مدھوسودن کے مظالم سے تنگ آکر اپنے بھائی بپراداس کے پاس آگئی اور سسرال واپس جانے سے انکار کردیا تو بپراداس نے سماج کا آئنہ قبل از وقت بہن کو دکھا کر اس کے ارادے کی مضبوطی کا اندازہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہتا ہے:
”دیکھ، کمو! وہ لوگ فساد کریں گے ضرور۔ سماج کے بل پر قانون کے بل پر، ہنگامہ کرنے کا انھیں حق حاصل ہے۔اس لیے میں اس کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں۔لیکن مقابلہ کرناہے تو پھر ساری شرم، تما م فکروں اور کل اندیشوں کو بھلا کر، سما ج کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہو نا ہوگا۔ گھر کے باہر چاروں طرف بدنامی کے طوفان اٹھیں گے۔ ان طوفانو ں کے بیچ میں سر اُٹھا کر تجھے چلنا ہوگا“۔ ۰۱ ؎
ناول ”کلموہی“ کا نسوانی کردار نبودنی جوتعلیم یافتہ اور خوبصورت تھی مگر اس کی تعلیم اس کی خامی بن گئی اور مجبوراً ایک بوڑھے شخص سے بیاہ دی گئی جو چند مہینوں میں پر لوک سدھار گیا اور نبودنی اپنی جوانی اکیلے کاٹنے پر مجبور کردی گئی۔ مگر وہ سماج سے اور سماج کی ناانصافی کے خلاف جس نے اس سے خوش رہنے کا حق چھین لیا بغاوت کرتی ہے۔ وہ محبت اور مسرت کو عورت کا حق سمجھتی ہے اسی لیے شادی شدہ مہندر اور اس کے دوست بہاری دونوں کے دلو ں میں اپنی محبت جگاتی ہے اور مہند ر کی ماں کے ٹوکنے پر بڑی د ھٹائی سے جو اب دیتے ہو ئے کہتی ہے: رابند رناتھ کا بنیادی خیال یہ تھا کہ اس وقت تک ہندوستان سے غربت، جہالت، بھید بھاؤ، چھوت چھات اور فرقہ پرستی دور نہیں ہوسکتی جب تک گاؤں سے کام کی ابتدانہ کی جائے یعنی جب تک دیہی عوام کے معیار ِز ندگی کو بلند نہ کیا جائے، ان میں تعلیم کی روشنی نہ پھیلائی جائے۔ اپنی زمینداری کے سلسلے میں جیسے جیسے وہ دیہی زندگی سے قریب تر ہوتے گئے ان کا خیال اور بھی پختہ ہوتا گیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے رہنماؤں میں، سیاسی جدوجہد کرنے والوں میں جب کسی نے دیہی ترقی کی طرف، دیہاتی سماج سدھار کی طرف نظر نہیں ڈالی تھی، تب وہ دیہاتی عوام کے معیار ِ زندگی کو بلند کرنے کے لئے خود عملی جدوجہد شروع کرچکے تھے۔ رابند رناتھ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کو ملک کے لوگو ں کے سامنے رکھتے، رہنماؤں سے کہتے اور اگر وہ کام کرنے کو تیار نہ ہوتے تب وہ خود کا م کر نے لگ جاتے۔ سرکا خطاب حکومت کو واپس کردینے کے سلسلے میں بھی ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ”اگر کو ئی کام کے لئے آگے نہ بڑھے، تو تم کو اکیلا ہی کام کرنا چاہئے“۔ ۲۱ ؎ انھوں نے اس خیال کا بارہار اظہار کیا۔
اپنے ایک مضمون میں رابندر ناتھ نے اپنے عہد کے زمینداروں کے گھناؤنے کردار،ان کی انگریز دوستی اور حاکموں کی خوشامد پر بار بار وار کئے جس سے واضح ہے کہ وہ اپنے دور کے زمینداروں کے کردار سے نہایت نا خوش تھے اور ان کے ایسے کرتوتوں کو قومی بے عزتی سمجھا کرتے تھے۔ ۷۹۸۱ ء میں انھوں نے زمینداروں کے کردار کے سلسلے میں لکھا:۔
”ہمارے ملک کے زمیندار۔۔۔۔۔ظلم ڈھا کر لگان وصول کرسکتے ہیں۔۔۔۔
ہمارے زمیندار اپنے آپ کو انگلستان کے لارؔڈ طبقہ کی طرح سمجھتے ہیں اور اس لارڈؔ(Lord)طبقہ کی نقل کرتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں ”ہم ارسٹوکرائٹ (Aristocrat)اشراف ہیں۔۔۔۔۔ہما رے ملک میں راجا، ”رائے بہادر“ وغیرہ کو دیکھ کر لوگ دل سے احترام نہیں کرتے اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے خطابات پانے والے عوام کے دلوں میں ایک انچ بھی بلند مقام حاصل نہیں کرسکتے“۔ ۳۱؎
ناول ”گورا“ میں ان کا یہ خیال یوں سامنے آتاہے: ٹیگورکو کئی بارسما ج سُدھار کے لیے اکیلے ہی آگے بڑ ھنا پڑا۔جب سب پیچھے ہٹ گئے وہ اکیلے بڑھے اور جو کچھ وہ خود کرسکتے تھے انھوں نے کسی کی پرواکئے بغیر کیا۔ دیہاتی زندگی سدھار کے سلسلے میں بھی وہ خود اپنے دو چار کارکنوں کو لے کر اپنی زمینداری کے علاقے میں کام کرنے لگے! انہوں نے اپنی زمینداری کے تحت دو پر گنہ میں تعلیم کا انتظام، پینے کے پانی کا انتظام، کسانوں کے قرض کا انتظام، دیہی کو آپرٹیو (امداد باہمی) کا قیام (یا د رہے کہ شا نتی نکتین میں بھی انہوں نے ایسا انتظام کیا تھا اور سنتھا لوں کے لئے ایک کو آپرٹیو اسٹورس کھولا تھا، پھر شری نکتین میں جدید کا شت کا انتظام کیا تھا) جدید طریقے پر مشین سے کاشت کاری کا کا م اور پھر پنچایت قائم کرکے پنچائتی عدالت کا قیام وغیر ہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ (ایسے کئی کام جس پر آزادی کے بعد اب ہم غور فکر کرنے لگے ہیں اور چند عملی قدم بھی اٹھا چکے ہیں۔) اور اسی طر ح دیہاتیوں کی ترقی اور دیہاتیوں کو اپنی مدد آپ کرنے کا درس دینا شروع کیاتھا۔ اس کے برسوں بعد جب ۰۳۹۱ء میں انہوں سوویت روس کا سفر کیا تب انہوں نے وہاں کے کسانوں اور مزدوروں کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ برسوں پہلے انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کی ترقی کے سلسلے میں جو کچھ سوچا تھا اور عملی طور پر اقدامات کئے تھے، وہ کام اگر حکو مت اپنے ہاتھوں میں لے کر انجام دے تو ملک کی ترقی نہایت تیز رفتار ہوگی۔ اس لئے انہوں نے روسؔ کے سماجی انقلاب کی بھر پور تعریف کی اور کھل کر اس نظام حکومت کے گن گائے ہیں۔ ۵۱ ؎
غرض بنگلہ ادب میں رابندر ناتھ ٹیگورنے ناول کے فن کو وہ عروج عطا کیا جسے تقریباً ایک صدی گزرنے کے بعد بھی کو ئی ناول نگار انھیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے میں کامیا ب نہیں ہوسکا۔ انھوں نے اپنے نا ولوں میں مکمل طور پر کردار وں کو ابھار کر پیش کیا۔ زندگی کے وسیع میدان کے ہر پہلو پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ وقت کے نباض کی طرح سماج کو پرت در پرت کھو لتے چلے گئے۔ ٹیگورنے اپنے فن سے بنگلہ ادب کا سر اتنا بلند کردیا کہ ہم فخر کے ساتھ ان کا مقابلہ دنیا کے دیگر عظیم ناول نگاروں میں کرسکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...