مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کا وژن حد درجہ محدود ہے۔ اس حقیقت میں اگر اب بھی کسی کو شک ہے تو اس کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے!
گزشتہ دو دنوں کے اخبارات اس جماعت کے لیے شرمندگی سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک سرخی تو کچھ زیادہ ہی عبرت ناک تھی۔
ZARDARI MAKES SHARIFS EAT HUMBLE PIE.
انگریزوں نے بھی کیا کیا محاورے باندھے ہیں!
یہ بات امام غزالیؒ سے منسوب ہے کہ انسان کی آنکھ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی اور یہ اس میں بہت بڑا نقص ہے لیکن اس آنکھ کا کیا ہوسکتا ہے جو دیوار کے اِس طرف بھی کچھ نہیں دیکھ سکتی!
خوش گمانی کہتی ہے کہ اگر میاں برادران اپنی جماعت کے متوازن ارکان سے مشورہ کرتے، یا ان کا کہا مانتے تو نوکر شاہی کے ایک گھسے پٹے آزمودہ مہرے کو پنجاب کی حکومت کے لیے کبھی نہ پیش کرتے لیکن جب انہوں نے اپنے ایک خاندانی وفادار کو تختِ صدارت پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت کس سے مشورہ کیا تھا اور کس کا کہا مانا تھا؟
ذاتی اور خاندانی وفاداری! ان حضرات کا ہمیشہ سے معیار یہی رہا ہے اور منطق کہتی ہے کہ آئندہ بھی یہی رہے گا۔ ان کے پرورش کنندہ جنرل ضیاء الحق کا معیار بھی یہی تھا۔ مجاہد ہوا باز ایم ایم عالم نے جب اسے کہا کہ وہ غلط لوگوں کو آگے لارہا ہے تو جرنیل کا جواب واضح تھا: آخر وفاداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے! مولانا ظفر احمد انصاری نے ایک بار نصیحت کرنے کی کوشش کی کہ سرحد سے تعلق رکھنے والے اپنے اس رفیقِ کار سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتے جس کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ کا ایک ملک بھی سمگلنگ کا ذکر کرنے لگ گیا ہے۔ جرنیل کا جواب پھر واضح تھا۔ ’’آخر ذاتی وفاداری بھی کوئی شے ہوتی ہے۔‘‘
متوازن فکر رکھنے والا کوئی شخص نوکر شاہی کے ایک ایسے رکن کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی چیف منسٹری کے لیے آخر کیوں کر تجویز کرسکتا ہے جس کی غیرجانبداری کے کوسوں تک آثار نہ ہوں؟ ضیاء الحق کے مشہورِ زمانہ ریفرنڈم کو کامیاب کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا پھر میاں صاحب کے دورِ حکومت میں اسے بیرونِ ملک تعینات کیا گیا جو ایک غیر معمولی بندہ پروری تھی۔ پسندیدہ برادری سے اس کا تعلق ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب بھی وہ نون لیگ سے وابستہ ہے۔ اس کی ساری تربیت اور پیشہ ورانہ پس منظر نوکری کے حوالے سے ہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان سمجھاتے سمجھاتے دنیا سے رخصت ہوگئے کہ اللہ کے بندو! لگان جمع کرنے والے اہلکاروں کو پالیسی سازی کا کام نہ سونپو۔ ڈپٹی کمشنر کے سر پر سونے کا تاج بھی ہو تو اصلاً وہ لگان جمع کرنے والا سرکاری ملازم ہے اور بس۔ اس سے ایک رمق زیادہ نہ ایک رمق کم۔ جب اس قبیل کے لوگوں کو پالیسی سازی کا کام سونپا جائے تو نتیجہ مہلک نکلتا ہے۔ الطاف گوہر جیسے لوگ ’’عشرۂ ترقی‘‘ مناتے ہیں اور ملک دو لخت ہوجاتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب خود لکھتے ہیں کہ میں اس طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا تھا۔ شہاب نامہ ادبی شاہکار تو ہوسکتا ہے، پورا سچ کبھی نہیں کہلا سکتا۔
خدا جمیل الدین عالی کی عمر دراز کرے۔ ان کے سینے میں بہت کچھ محفوظ ہے۔ کاش! وہ اب یہ امانت قوم کو سونپ ہی دیں۔ دو سال پہلے کی بات ہے یہ کالم نگار کراچی میں ان کے درِ دولت پر حاضر تھا۔ مشہور ادیب اور ’’مکالمہ‘‘ کے مدیر جناب مبین مرزا بھی موجود تھے۔ عالی صاحب نے شہاب صاحب کا ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح ایوب خان کو مٹھی میں رکھنے کی ترکیبیں کرتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس قوم کی کشتی کیسے کیسے ناخدا کھینچتے رہے ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی
شاعری ایک ایسا فن ہے جو کسی سے سیکھا نہیں جاسکتا۔ اگر یادداشت فریب نہیں دے رہی تو یہ بات ڈاکٹر حمید اللہ نے ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ میں بیان کی ہے۔ (وہ تو خطابت کو بھی اسی زمرے میں شمار کرتے ہیں!) شعر کو موزوں پڑھنے کا ملکہ اکتسابی نہیں ہوتا، وہبی ہوتا ہے۔ آج تک تاریخ میں کسی ایسے مکتب کا ذکر نہیں جہاں شاعری سکھائی جاتی ہو۔ اس سے ذہن میں ایک دلچسپ سوال اُبھرتا ہے۔ کیا وژن کو بڑھایا جاسکتا ہے؟ نہیں! بدقسمتی سے یہ بھی جتنا عطا ہوتا ہے اتنا ہی رہتا ہے۔ محمد تغلق اگر دس بار بھی بادشاہ بنتا تو اس نے پڑھا لکھا بے وقوف ہی کہلانا تھا۔ ہمایوں اور زندہ رہتا‘ تب بھی متلّون مزاج ہی رہتا۔ میاں صاحب تیسری بار مسند آرائے اقتدار ہوئے تب بھی اسلوبِ حکومت وہی رہے گا۔ ؎
پرند میرے وزیر، جگنو سفیر ہوں گے
میں اپنا اسلوبِ حکمرانی بدل رہا ہوں
نہیں! میاں صاحب ایسا کبھی نہیں کہیں گے۔ وہ ایک مخصوص برادری (یا کمیونٹی کہہ لیں) سے باہر نہیں نکلیں گے۔ ان کی پالیسی سازی کا انحصار نوکرشاہی کے انہی ارکان پر ہوگا جو ان کے گرد حصار باندھے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ چوبِ خشکِ صحرا سے بھی زیادہ بیکار ہوچکے ہوں۔ وژن ہوتا تو آج کراچی، اندرونِ سندھ اور بلوچستان کی زمین میں ان کی جماعت کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوتیں اور شاخیں ہر طرف سایہ فگن ہوتیں۔ (یہ جو مہاجر پرندے نون لیگ کی جھیل کے کناروں پر آبیٹھے ہیں، موسم بدلتے ہی واپس اُڑ جائیں گے)۔ وژن ہوتا تو ہزارہ کے دھرنے کے دوران وہ کوئٹہ منتقل ہوجاتے لیکن کراچی، اندرونِ سندھ اور بلوچستان کس شمار اورکس قطار میں ہیں‘ یہاں تو خود پنجاب ان کے معشوقانہ تغافل کا شکار ہے۔ ایسے حضرات بھی‘ جو ان سے وابستہ ہیں‘ برملا کہہ رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی شہر کو پنجاب سمجھا ہوا ہے ؎
مری داستانِ غم کی کوئی قید و حد نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک
وہ ذہنی طور پر جہانگیر کے پسندیدہ شہر سے کبھی باہر ہی نہیں نکلے۔ یہ کالم نگار ذاتی اور خاندانی حوالے سے پیپلزپارٹی سے دور کا تعلق بھی نہیں رکھتا لیکن وہ جو کہتے ہیں، چاروں صوبوں کی زنجیر … تو پیپلزپارٹی نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ آصف علی زرداری کی صدارت ایک حادثہ ہے لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ علاقے، برادری اور شہر سے ماورا ہو کر کام کرتے رہے۔ محرکات جو بھی تھے، انہوں نے افرادی قوت اطراف واکناف سے اخذ کی۔
کاش! مسلم لیگ کے زعماء کبھی اس بات پر غور کریں کہ فوج کے کمانڈرانچیف سے لے کر صوبے کے نگران وزیرِاعلیٰ تک میاں صاحبان جس کو بھی منتخب کرتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں، وہ ایک مخصوص برادری ہی کا کارکن ہوتا ہے۔ ایک ہی برادری کا، اور ایک ہی شہر کے مکینوں کا ان کے گرد جمگھٹا ہے۔ مصاحب بھی وہی ہیں، مشیر بھی وہی اور کارندے بھی وہی۔ جس سیاست کو وہ پورے ملک کے لیے بروئے کار لاسکتے تھے، اسے انہوں نے ایک تنگنائے سے باہر ہی نہ نکلنے دیا۔ جس کاغذ سے وہ سمندر بنا سکتے تھے، اس سے انہوں نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی اور اسی میں مگن ہیں۔ سبحان اللہ، سچ کہا ہے اللہ کی کتاب نے۔ ’’ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی‘ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کردی اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ یوں کہ کچھ نہیں دیکھتے!‘‘