تفتیش:
ممبئ کے ایک پولیس آفیسر کی ذہانت اور ایمانداری نے گمنام اور ناقابل شناخت لاش کے قاتل کو جیل پہنچا دیا۔ ایک سچی داستان:
ممبئ کے مضافات میں پولیس کو کچرا کنڈی سے ایک خاتون کی لاش ملی۔ لاش کا چہرہ جلا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے خاتون کو قتل کرنے کے بعد شناخت چھپانے کے لئے لاش کا چہرہ جلا دیا ہے۔ پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے ھسپتال پہنچا دی۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ لاش دو دن پرانی ہے۔ خاتون کی عمر پچھتر برس کے قریب تھی۔ اس کو سر پر کسی سخت چیز سے چوٹ لگا کر قتل کیا گیا تھا اور موت کے بعد لاش کو جلانے کی کوشش کی گئ۔ پولیس نے آس پاس کے تمام تھانوں کو اطلاع کردی کہ اگر کسی پچھتر سالہ خاتون کی گمشدگی کی کوئ رپورٹ ہو تو فوری طور پر اطلاع دی جائے لیکن آس پاس کے کسی بھی تھانے میں کسی ایسی خاتون کی گمشدگی کی رپورٹ نہیں ملی۔ تفتیشی انسپکٹر نے ھسپتال کے میڈیکو لیگل آفسر سے رابطہ کر کے لاش کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہی۔ میڈیکو لیگل آفیسر نے مزید بتایا کہ لاش کے ساتھ تو کوئ ایسی قابل شناخت چیز نہیں پائ گئ جس سے کہ مرنے والی کہ شناخت ہو سکے۔ چہرہ جلنے سے اس بری طرح مسخ ہو چکا تھا کہ شناخت ناممکن تھی۔ البتہ ایک بات یہ پتہ چلی کہ بڑی بی کے کولہے کی ہڈی کا آپریشن ہو چکا تھا اور غالبا'' ان کو کولہے کی ہڈی میں خرابی کے بعد آپریشن کر کے مصنوعی ہڈی لگائ گئ تھی۔ انسپکٹر نے ڈاکٹر سے کولہے کی مصنوعی ہڈی نکال کر اس کی چھان بین کے لئے درخواست کی۔ کولہے کہ مصنوعی ہڈی کے جائزے سے پتہ چلا کہ یہ ٹائٹینیم کی بنی ہوئ تھی اور اس پر اس کو تیار کرنے والی کمپنی کا نام اور سیریل نمبر بھی درج تھا۔ انسپکٹر یہ سیریل نمبر لے کر یہ ہڈی بنانے والی کمپنی کے آفس پہنچا۔ کمپنی کے کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ نے زرا سی دیر میں ریکارڈ کھوج نکالا۔ تفصیلات کے مطابق یہ ہڈی تین سال پہلے ممبئ کی ایک فرم نے آرڈر کی تھی۔ یہ فرم ھسپتالوں کو مصنوعی اعضا فراہم کرتی تھی۔ کمپنی نے اس کی خریداری کی رسید کی نقل بھی فراہم کردی۔ اب انسپکٹر کمپنی کی بتائ گئ فرم کے آفس پہنچی۔ فرم کے اکائونٹ آفس سے پتہ چلا کہ یہ ہڈی ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے کے عیوض ایک خیراتی ھسپتال کو فراہم کی گئ تھی۔ پولیس نے ھسپتال پہنچ کر ریکارڈ میں رسید کے نمبر کی چھان بین کے بعد پتہ چلایا کہ یہ ہڈی بملا دیوی نامی ایک ستر سالہ خاتون کو لگائ گئ تھی جس کے کولہے کی ہڈی بوسیدگی کی وجہ سے انتہائ کمزور ہوچکی تھی اور اس کو چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ اس آپریشن کا خرچہ علاقے کےکونسلر کی سفارش پر ایک ایسے ادارے نے برداشت کیا تھا جو غریب اور نادار افراد کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں مالی امداد مہیا کرتا تھا۔ اب پولیس اس کونسلر کے آفس پہنچی۔ کونسلر نے بتایا کہ بملا دیوی اسی علاقے کی ایک کھولی میں رہتی تھیں انتہائ گرم اور جھگڑالو مزاج کی یہ بڑی بی اپنے بیٹے اور بہو کے رویے سے تنگ آکر ان سے علیحدہ ہو چکی تھی۔ بڑی بی کا بیٹا اور بہو کسی گائوں میں مقیم تھے اور عرصہ دراز سے ان کا بڑی بی سے کوئ ملنا جلنا نہیں تھا۔ اب سے تین سال پہلے یہ اکثر کونسلر کے آفس آ کر اس سے مدد کی درخواست کرتی تھی کہ اسے اس کے کولہے کی ہڈی کے آپریشن کے لئے امداد فراہم کی جائے۔ جب یہ روز روز لنگڑا لنگڑا کر کونسلر کے آفس کے سامنے دھرنا دینے لگی تو کونسلر نے ایک فلاحی ادارے کی مدد سے اس کے آپریشن کا بندوبست کیا تھا۔ بڑی بی کا آپریشن کر کے ان کو مصنوعی جوڑ لگادیا گیا۔ بڑی بی دن بھر گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ سے کارامد اشیا چن کر اس کو فروخت کر دیتی تھیں۔ کھانا پینا بھی کسی ٹھیلے ڈھابے سے مفت میں مل جایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کو ماہانہ اپنے مرحوم شوہر کی پینشن بھی ملتی تھی جسے وہ ہر ماہ باقاعدہ بینک سے کیش کرواتی تھی۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ بڑی بی نے پنشن اور کچرے کی فروخت سے کافی رقم جمع کر کے کہیں چھپائ ہوئ ہے۔ ۔ اب پولیس بڑی بی کی کھولی کی تلاشی لینے پہنچی۔ پوری کھولی کچرے سے اٹا ٹٹ بھری تھی۔ جگہ جگہ کاغز گتے اور ڈبوں کے ڈھیر جمع تھے۔ کھولی کی تلاشی کے دوران پولیس کو بڑی بی کا شناختی ‘کارڈ و دیگر دستاویزات بھی مل گئیں۔ اس طرح لاش کی شناخت کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اب پولیس کو کھوج تھی کہ آخر بڑی بی کو قتل کس نے کیا اور قتل کے محرکات کیا تھے۔ بھلا ایک کچرا چننے والی پچھتر سالہ بوڑھی سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ اب پولیس نے کھولی کے آس پاس کے لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کردی۔ اکثر افراد نے بتایا کہ بڑی بی کے گرم مزاج اور تیز زبان کی وجہ سے کوئ ان سے ملتا جلتا نہیں تھا۔ کیونکہ بڑی بی زرا زرا سی بات پر بیچ چوراہے کھڑے ہو کر انتہائ غلیظ گالیاں دے کر پورے خاندان کی ماں بہن ایک کر دیتی تھیں۔ البتہ کچھ عرصے سے ان کے سامنے والی کھولی میں مقیم بھیکو نامی شخص ان کی کھولی میں آتا جاتا دیکھا گیا تھا۔ اکثر بھیکو کی بیوی بھی بڑی بی کو کچھ نہ کچھ کھانے کے لئے پہنچاتی تھی۔ بھیکو سبزیوں کا ٹھیلا لگاتا تھا لیکن عادی نشئ بھی تھا جس کی وجہ سے اس کے مالی حالات اچھے نہ تھے۔ اکثر اس کا بیوی سے جھگڑا بھی رہتا تھا۔ پولیس بھیکو کی کھولی پر پہنچی تو اس کی بیوی نے بتایا کہ بھیکو تو ایک ھفتے سے کسی دوسرے شہر ایک مندر میں کسی دیوی کے درشن لئے گیا ہوا ہے۔ پولیس نے اس مندر پہنچ کر بھیکو کو حراست میں لے کر ممبئ پہنچا دیا جہاں زرا سی تفتیش کے بعد بھیکو نے سب کچھ اگل دیا۔
بھیکو کا کہنا تھا کہ وہ خراب مالی حالات کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔ اس نے بھی بڑی بی کی چھپائ ہوئ دولت کے بارے میں لوگوں سے سنا تھا۔اس لئے پڑوسی ہونے کے ناطے اس نے بڑی بی سے راہ و رسم بڑھائ۔ بیوی کو بھی ھدایت کی کہ وہ بڑی بی کو کھانے پینے کے لئے کچھ نہ کچھ دے دیا کرے۔ جب بڑی بی کا اس پر اعتماد بڑھا تو اس نے ان کی کھولی میں بھی آنا جانا شروع کردیا تھا۔ اس بہانے یہ بڑی بی کی کھولی کی تلاشی لینا چاہتا تھا کہ بڑی بی نے قم کہاں چھپا کر رکھی ہے۔ لیکن بڑی بی کی کھولی میں موجود کچرے کباڑ کے ڈھیر میں رقم کی تلاش بھوسے کے ڈھیر میں سوئ کی تلاشی کے مترادف تھا۔ لیکن یہ وقتا'' وقتا'' کسی نہ کسی بہانے اپنی تلاشی جاری رکھتا۔ ایک رات جبکہ بڑی بی سو رہی تھیں اور یہ کچرے میں تلاشی لے رہا تھا تو اس کو پرانے ڈبوں کے درمیان دبا ایک خاکی کاغذ کا لفافہ ملا جس میں اچھی خاصی تعداد میں کرنسی نوٹ بھرے ہوئے تھے۔ ابھی یہ ان کو سنبھال بھی نہ پایا تھا کہ بڑی بی کی آنکھ کھل گئ۔ بڑی بی نے اس کو نوٹوں کا تھیلا پکڑے دیکھا تو اس کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس کو ڈر ہوا کہ اگر بڑی بی نے مزید چیخ پکار کر کے محلے والوں کو اکٹھا کرلیا تو نہ صرف یہ کہ اس کی بے عزتی ہوگی بلکہ جس رقم کے لئے اس نے یہ سب منصوبہ بندی کی تھی وہ بھی ہاتھ سے جائے گی۔ یہ سوچ کر اس نے پاس ہی پڑی لوہے کی یک موٹی راڈ سے بڑی بی کے سر پریکے بعد دیگرے تین چار وار کر کے ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ رات گزرنے پر اس نے کھولی میں موجود کچرے سے ایک بڑا بورا نکال کر اس میں بڑی بی کی لاش کو ٹھونس کر اپنے سبزی کے ٹھیلے پر رکھ کر دور ایک کچرا کنڈی پر پھیک دیا۔ ایک تو آدھی رات کا وقت تھا دوسرے یہ منڈی سے اپنے ٹھیلے پر اکثر سبزی ترکاری کی بوریاں رکھ کر لاتا تھا اس لئے کسی کو اس پر شک نہ ہوا۔ لاش کچرا کنڈی پر پھینکنے کے بعد اس نے مٹی کا تیل بڑی بی کے چہرے پر چھڑک کر آس پاس کے کوڑے کو آگ بھی لگادی تاکہ بڑی بی کی لاش ناقابل شناخت ہوجائے اور پولیس اس تک نہ پہنچ سکے۔ پولیس نے اس کے قبضے سے بڑی بی کی کھولی سے چرائے گئے ڈھائ لاکھ کے قریب رقم بھی برامد کرلی جس میں سے پندرہ ہزار روپے یہ خرچ بھی کرچکا تھا۔ کھولی کی مزید تلاشی پر آلہ قتل یعنی لوہے کی راڈ بھی دستیاب ہوگئ۔
اس طرح ممبئ پولیس کے ایک قابل اور ایماندار آفیسر کی محنت اور ذہانت سے ایک قاتل اپنے انجام کو پہنچا۔ ایک بظاہر ناقابل حل کیس کی گتھی سلجھ گئ جس کا کوئ سرا پولیس کے پاس نہ تھا۔ کسی بھی قتل کی مزید تفتیش کے لئے لاش کی شناخت ضروری ہوتی ہے تاکہ شکوک و شواہد کی بنا پر لواحقین سے چھان بین کی جا سکے۔ لیکن یہاں تو لاش کی شناخت ممکن تھی نہ کوئ اور سراغ ایسا تھا کہ جس کی مدد سے تحقیقات آگے بڑھائ جا سکتیں۔ یہ انسپکٹر کوئ سراغ یا رپورٹ نہ ملنے پر بڑی آسانی سے بڑی بی کی لاش کو لاوارث قرار دے کر اس کا کریا کرم کروادیتا اور کیس کی فائل بند کردیتا۔ لیکن زرا سی کھوج اور اپنے پیشے سے محبت اور ایمانداری نے اس کو سرخرو کیا اور قاتل کو سزا ہوئ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔