ہمارے یہاں تفسیر کے جو معنی بتائے جاتے ہیں وہ کھول کر بیان کرنا کے ہیں ۔ یعنی کسی تحریر و قول کے مطالب کو سامین کے ذہن کے قریب کرنا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد قران کے معافی و مفہوم کو واضح کرنا ۔ بالفاظ دیگر تفسیر وہ علم ہے جس میں قران کی کیفیت اور الفاظ کے معنی ، ان کے انفرادی و ترکیبی حالات اور ان کے تمتات کا بیان ۔
بعض علماء کا بیان ہے کہ تفسیر اصطلاح میں نزول آیات ان کے شان نزول اور ان کے اسباب نزول اور ان کے علم کو کہا جاتا ہے اور اس بات کو جاننے کو تفسیر کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ آیات قران کے مکی اور مدنی محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ ، خاص و عام مطلق و مقید ، حلال و حرام ، وعدد و وعید ، عبرت و امثال ہونے کی ترتیب معلوم ہو ۔
کہا گہا تمام انسان یکساں عقل و قابلیت کے حامل نہیں ہوتے ہیں ، ان کی استعداد اور صلاحیتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے ، کوئی کج فہم ہے کوئی زود فہم ، کوئی ذکی فہم ہوتا ہے اور کوئی بالکل غبی ۔ اس لیے قران کے کلام کو سمجھنے میں ہر شخص یکساں نہیں ہوتا ہے ۔ پھر عام لوگوں کا کلام تو الگ رہا لیکن جہاں معاملہ اللہ کے کلام کا ہو ۔ جس کی جامعیت ، عمہ گیری بسط اور وسعت کا کچھ ٹھکانہ نہیں ۔ جس میں بے شمار مطالب فصاحت و بلاغت ، اوصاف کلام اور معنی و بدیع کی ایک دنیا آباد ہو ۔
لیکن قران تو کہتا ہے ہم نے آسان کرکے بیان کیا ہے اور ایک دوسری جگہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔ ایک شخص جو عرب کا رہنے والا ہے اور عربی اس کی مادری زبان ہے تو اس کے لیے قران کی تفسیر کی ضرورت کیوں پڑی ;238; جب کہ یہ ابتدا میں عربی میں لکھی گئیں تھیں ۔ آج کے دور میں مسلمانوں میں جو عقائد راءج ہیں ان ترقی و ترویج میں حدیث کے بعد تفسیر و تاویل کا حصہ ہے ۔ اس کے ذریعے اسلام میں خرافات اور ایسے عقائد داخل کیے گئے جو کہ بنیادی طور پر اسلام سے مختلف ہیں ۔
اب مسلمانوں کو ان کے بچپن سے یہ بتایا جاتا ہے کہ قران کریم کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا ہے اور یہ صرف وہی عالم سمجھا سکتا ہے جو کہ عربی دان اور حدیث و فقہ کا ماہر ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں قران کی تفسیر لکھنے والے ان علوم کے ماہر نہیں ہوتے ہیں اور بشتر تفسیر لکھنے والے ان علوم کو نہیں جاتے ہیں ۔ وہ کچھ قدیم تفسیروں میں قطع و برید اور اپنے خیالات کو داخل کرکے تفسیر لکھتے ہیں ۔ جنہیں ہم جزو ایمان سمجھتے ہیں ۔
ہ میں یہ باور کیوں کرایا جاتا ہے کہ قران کی تفسیر و تشریح آنحضور کی زمہ داریوں میں سے ایک تھی اور قران کریم میں فرمایا ’اور وہ قران کی تعلیم دیتے اور سیکھاتے ہیں ’ اور یہ کہا گیا کہ آپ کے بعد صحابہ کرام قران کی تفسیر کرتے رہے ۔ اس بارے میں بہت سے صحابیوں کے نام آتے ہیں ۔ جن میں عبداللہ بن عباس اور حضرت ابن کعب زیادہ مشہور ہیں ۔ اس کے بعد کے دور میں ہزاروں تفسیریں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے ان صحابیوں کے نام سے تفسیروں کے ذریعے دوسرے عقائد کے علاوہ بائیبل کو قران کا حصہ بنا دیا گیا ۔ یہاں ہم صرف حضرت عبداللہ بن عباس کے حوالے سے کچھ سوالات کرتے ہیں ۔
آنحضور سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن عباس کے لیے فرمایا ’تو قران کا اچھا ترجمان ہے’ ۔ مگر حضرت عبداللہ;230; ابن عباس ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا اور فتح مکہ کے کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت کا انتقال ہوگیا تھا اور مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس آٹھ دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے ۔ جب کہ حضرت عبداللہ ابن عباس مکہ رہتے تھے اور انہوں نے ہجرت بھی نہیں کی تھی ۔ جب کہ آنحضرت کے انتقال کے وقت حضرت عبداللہ ابن عباس کی عمر زیادہ سے زیادہ تیرہ برس عمر تھی ۔ تو دس بارہ سال صحبت میں رہنا اور آنحضرت کا حضرت عبداللہ ابن عباس کے بارے میں بالا الذکر کلمات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ اس سے ضاف ظاہر ہے کہ یہ روایات وضع کردہ ہیں اور اس طرح کی دوسری روایات جو ملتی ہیں وہ وضعی ہیں اور عرب کے رہنے والوں کو کسی تفسیر یا تاویل کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ یہ روایتیں اس وقت وضع کی گئی جب کہ نئے نئے عقائد اسلام میں داخل کیے گئے ہیں ۔ یہاں ہ میں ان روایتوں کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی اور عرب صاف صاف بیان کرتے تھے اور ان میں تاویل یا تفسیر کا رواج نہیں تھا ۔ یہاں سوال پیدا اٹھا ہے کہ تفسیر و تاویل کا رواج کہاں سے آیا ہے ۔ اس کے لیے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ عبادسی خلیفہ المہدی نے وہ لوگ بظاہر مسلمان تھے مگر درپردہ مانی تھے ان کی سرزش کے لیے ایک خاص افسر کو مقرر کیا اور یہ لوگ زندیق کہلاتے تھے ۔ جو کہ فارسی زندیک سے نکلا ہے اور یہ ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو اوستا کے اصل متن کے بجائے اس کی تاویل اور تفسیر کے ذریعے ان کے معنی اپنی رائے کے مطابق کرلیتے تھے اور اس کی تاویل کرتے تھے ۔ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ تفسیر کا دستور ایرانی ہے اور اس کے ذریعے انہوں نے اپنے خیالات اور عقائد کو اسلام میں داخل کیا اور ان کی تاویلیں کی گئیں جو کہ شیعوں اور خاص کر اسمعیلیوں کا خاص عقیدہ ہے ۔ یعنی معنی ظاہری چھوڑ کر باطنی معنی لینا ۔ تاویل کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون پہلے لکھ چکا ہوں ۔
ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں لکھتا ہے کہ جوارش ایرانی بادشاہوں کا ایک خاص رسم الخط تھا ۔ جس میں لکھا تو آرمی جاتا تھا اور اسے پڑھا پہلوی میں جاتا تھا ۔ مثلاً ملکان ملکہ لکھا جاتا تھا اور اسے پڑھا جاتا شاہ شہان ۔ یعنی ایرانیوں میں دستور تھا جو کچھ لکھا جاتا اس کو ظاہری سمجھتے تھے اور اس کی جگہ وہ الفاظ پڑھتے وہ تھے جسے درست سمجھتے تھے ۔ اس طرح فعل کے معنوں میں بھی تبدیلی پیدا کردیتے تھے ۔ مثلاً عربی کا لفظ ’زور’ جس کے معنی زبردستی ہیں ۔ مگر پہلوی میں پڑھتے وقت اس کو دھوکا دیا پڑھتے تھے ۔ یہ بھی قدیم ایرانی زبان پہلوی کی خصوصیت تھی اور اس اثر کے تحت تفسیر کا علم ایجاد کیا گیا ۔ اس کا فائدہ یہ تھا تحریر کے معنی عام لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے ۔ اس طرح کسی بھی عبارت کے معنی اپنی مرضی اور عقائد کے تحت لیے جاتے تھے ۔ اس طرح تفسیر کا علم ایجاد کیا گیا ۔ جس کے زریعے اسلام کے بنیادی عقائدہ کو معطل کر دیا اور اپنی پسند کے عقائد داخل کیے کیے گئے اور اس کی سادگی کو گورکھ دھندہ بنادیا اور اس روایات کے علاوہ نئی نئی اصطلاحات وضع کیں گئیں اور قران کو دوسروں کے لیے ایسا الجھا دیا کہ عام آدمی اس کو سمجھنے سے قاصر ہوگیا اور اسے صرف بے سمجھے پڑھنے کو غنیمت جانا ۔