انتہا پسند ہندو‘جلد یا بدیر‘وزیر اعظم مودی سے بددل ہوں گے۔ اگر اس بددلی کا آغاز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورے سے ہو گیا ہے تو اس میں پاکستان کو کیا گھاٹا ہے؟
میز کے اس طرف سائل ہو کر بیٹھنے میں‘ اور میز کے دوسری جانب حاکم ہو کر بیٹھنے میں بہت فرق ہے۔نظر کا زاویہ بدل جاتا ہے ۔اشیا کا حجم تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ جوپہلے انگور کا دانہ لگتا تھا ‘ اب تربوز دکھائی دیتا ہے۔ہم ماضی قریب میں اس کی مثال دیکھ چکے ہیں۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہر وقت علی بابا چالیس چور کا نعرہ لگاتے تھے۔یہاں تک کہا گیا کہ ہم زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔لوڈ شیڈنگ کے ایشو کو نمایاں کرنے کے لیے دفاتر خیموں میں منتقل ہوئے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔کسی نے سڑکوں پر گھسیٹا نہ کوئی اور حساب کتاب ہوا۔یہاں تک کہ جن آئینی مناصب پر پیپلز پارٹی نے اپنے انتہائی متنازع افسروں کو فائز کیا تھا ‘انہیں ہٹانے کے لیے مسلم لیگ نواز کی حکومت نے خفیف سی حرکت تک نہ کی!اس لیے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ترجیحات بدل گئیں۔ سیاہ سفید اور سفید سیاہ ہو گیا۔ اب لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج تو کیا‘اس کا جواز پیش کیا جاتا ہے!
شیخ مجیب الرحمن انتخابات میں کامیاب ہوئے تو عقل مندوں نے اس وقت مشورہ دیا تھا کہ حکومت ان کے سپرد کر دو۔ بنگالی عوام چھ ماہ کے بعد ان کی مخالفت پر اتر آئیں گے۔ذوالفقار علی بھٹو انگریزی تو خوب بولتے تھے اور فرنگی لباس کا بھی ذوق رکھتے تھے لیکن وژن ہوتا تو حزب اختلاف میں بیٹھ جاتے اور تماشہ دیکھتے ۔وزیر اعظم بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمان کے تیور ہی اور ہوتے۔بنگالی عوام کے مطالبات کو مکمل طور پر تسلیم کرنا ان کے لیے ناممکن ہوتا۔مغربی پاکستان کی مدد انہیں ہر حال میں درکار ہوتی۔منظر نامہ کچھ سے کچھ ہو جاتا!
وزیر اعظم مودی کی وزارت عظمیٰ کو اسی حوالے سے دیکھیے‘ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ بننا اور بات ہے اور اٹھائیس ریاستوں کا وزیر اعظم بننا بالکل دوسری بات ہے۔وفاقی حکومت میں تامل ‘مراٹھی‘تیلگو‘ ملیالم اور بنگالی زبانوں کے انتہائی مضبوط اور سرگرم پریشر گروپ ہیں جو بیورو کریسی پر چھائے ہوئے ہیں۔بھارت کی جنوبی ریاستوں کا نکتہ نظر‘شمالی نکتہ نظر کے بالکل الٹ ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جو کچھ وفاق کے بارے میں کہتے رہے یا جو اعلانات انتخابی مہم میں کرتے رہے‘ان پر من و عن عمل کر سکیں۔
انتہا پسند ہندو‘جو انتخابی مہم میں مودی کی سپاہ کا ہر اول دستہ تھے‘ ابھی سے بدظن ہونا شروع ہو گئے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دینا ان کے لیے ایک غیر متوقع خبر تھی جسے انہوں نے ناپسند کیا۔ دوسرا بڑا صدمہ تامل ناڈو کے صوبے کو پہنچا جو سری لنکا کے صدر کو دعوت دینے پر ناخوش ہے!تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جیاللیتا نے کہا ہے کہ سری لنکا کے صدر کو حلف برداری کی تقریب میں دعوت دے کر نریندر مودی نے تامل عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔جیاللیتا نے تقریب میں آنے ہی سے انکار کر دیا۔بنگلہ دیش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔مودی نے ہمیشہ بنگلہ دیش کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ بنگلہ دیشی بھارت میں آ کر ملازمتیں اور دیگر وسائل کو استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے بقول یہ صرف بھارتیوں کا حق ہے۔اگر حسینہ واجد حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرتیں تو حزب اختلاف انہیں آڑے ہاتھوں لیتی۔حسن اتفاق سے وہ چین کا دورہ مکمل کر کے وہیں سے جاپان جا رہی تھیں۔اس مصروفیت نے ان کی غیر حاضری کو جواز فراہم کر دیا۔
پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دینے کے خلاف بھارتی انتہا پسندوں نے جو دلائل دیے ہیں ان میں دو اہم ہیں۔اول یہ کہ اس سے پہلے جب واجپائی نے بس کا سفر کر کے پاکستان کو نزدیک لانے کی کوشش کی تھی تو کارگل کا واقعہ پیش آ گیا۔ دلیل دینے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے حالات اب بھی اسی قبیل کے ہیں۔اس لیے مودی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔دوم 2013ء کی پاکستانی انتخابی مہم کے دوران طالبان نے اکثر سیاسی جماعتوں کو دھمکی دی تھی۔ سوائے مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے۔ایک سابق بھارتی سفیر نے تو یہا ں تک کہا ہے کہ طالبان کا یہ احسان میاں صاحب کے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔ اس لیے وہ شدت پسندوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کر سکتے۔
وزیر اعظم نے مودی کی دعوت قبول کی تو پاکستان میںجن حلقوں نے واویلا مچایا وہ دراصل اسی مزاج کے حلقے ہیں‘ جنہوں نے بھارت میں مودی کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ مودی نے پاکستانی حکومت کے سربراہ کو دعوت نامہ ارسال کیا۔انتہا پسندی‘ سرحد کے دونوں طرف موجود ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان میں بھی ایسے حضرات موجود ہیں جو بھارت پر ایٹم بم گرانے کی بات کرتے رہتے ہیں۔یہ اور بات کہ پاکستانی عوام کی اکثریت شدت پسندی کی کبھی بھی حامی نہیں رہی۔
کیا بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر بنیادی تنازعات (مثلاًکشمیر یا پانی کی تقسیم) کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی؟نہیں!ہرگز نہیں!چین اور تائیوان کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔چین کی ’’وحدت‘‘کا مقام چینی آئین میں وہی ہے جو ہمارے آئین میں قرار داد مقاصد کا ہے!چینی آئین میں لکھا ہے …’’پوری چینی قوم (بشمول تائیوانی عوام)کا فرض ہے کہ وہ مادر وطن کو دوبارہ ایک کرنے کے عظیم کارنامے کو سرانجام دے‘‘اس کے ساتھ ہی چین نے تائیوان کی جغرافیائی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے عسکری تنصیبات کا رخ اسی کی طرف کیا ہوا ہے۔2010ء تک دو ہزار میزائل اسی طرح رکھے جا چکے تھے کہ ان کا نشانہ تائیوان بنے۔
لیکن واضح آئینی موقف اور مکمل جنگی تیاریوں کے باوجود چین اور تائیوان کے باہمی تعلقات معمول کے ہیں۔بے شمار ایسی کمپنیاں جن کے ہیڈ کوارٹر تائیوان میں ہیں‘چینی کمپنیوں کے ساتھ’’جوائنٹ وینچر‘‘یعنی مشترکہ سرمایہ داری کر رہی ہیں۔تائیوان کے سرمایہ کاروں کا گروہ چین میں نہ صرف اقتصادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے بلکہ اسے ایک بھر پور معاشی طاقت سمجھا جاتا ہے!ثقافتی فرنٹ پر تائیوان اور چین ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔ دونوں کے عجائب گھر مشترکہ نمائشیں منعقد کرتے ہیں۔طالب علم استاد‘محققین اور صحافی آتے جاتے ہیں۔ کتابیں جو ایک حصے میں شائع ہوتی ہیں‘دوسرے حصے میں دوبارہ چھاپی جاتی ہیں‘2008ء میں جب چین میں زلزلہ آیا تو تائیوان نے امدادی ٹیمیں بھیجیں جن میں ریسرچ سکالر بھی شامل تھے تاکہ زلزلہ کے بارے میں پیش گوئیوں کو زیادہ قابل اعتماد بنایا جا سکے۔
کیا بنیادی اختلافات کے ضمن میں پاکستانی موقف اتنا کمزور ہے کہ تجارتی ثقافتی اور تعلیمی تعلقات سے یہ موقف شکستہ ہو جائے گا؟نہیں!ایسی کوئی بات نہیں۔یہ بات ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں‘بلکہ مذاکرات سے حل ہو گا!اگر دونوں ملک مسلسل حالت اضطراب میں رہیں‘ رویوں کو معاندانہ رکھیں اور ایک دوسرے کا اقتصادی اور ثقافتی بائیکاٹ کیے رکھیں تو اس سے کشمیر کا مسئلہ تو حل نہیں ہو گا‘ہاں اور مسائل ضرور جنم لیں گے!دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ تجارت کے ضمن میں جو پاکستانی حلقے احتجاج کرتے ہیں اور آوازے کستے ہیں‘وہ کرکٹ کے دوستانہ میچوں پر خاموش رہتے ہیں۔
اسلام اتنا کمزور ہے نہ پاکستان اور نہ پاکستانی موقف کہ تعلقات کو معمول پر لانے سے تڑک کر کے ٹوٹ جائے!مومن کو تدبّر کا حکم دیا گیا ہے تکبّر ‘سختی اور نفرت کا نہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“