" وحدۃ الوجود کی راہ سلوک کی روشنی بنانے والے انسان اور صوفی جنگل کے زیر اثر انسان میں در آنے والے وحشی جبلتوں کے خلاف اپنے بھرپور ردّعمل کا ظہار کرتے رہے ہیں" ۔۔{ صفحہ ۱۰}
میں نے کئی برس پہلے ابن العربی کی کتاب "فصوص الحکم "ترجمہ پڑھا تھا جو بابا ذہین شاہ تاجی مرحوم نے نہایت سادہ زبان میں کیا تھا۔ اس ترجمے کو پڑھ کر ابن عربی کا فلسفی " وحدت وجود" کی بہتریں تفھیم ہوجاتی ہے اور دیگر فلاسفہ کے اس نظرئیے پر ذہن سوچنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ کچھ نشتوں میں راقم السطور نے بابا ذہین شاہ تاجی کی زبانی کئی فکری اور علمی نشتوں میں ابن عربی کے " نظریہ وحدت والوجود"کا عام فہم ذکر سنا تھا۔ اور زہین شاہ تاجی کے انھی تفھیمی اور تشریحی باتوں کو سنکر اس نظرَیے سے مجھے دلچسپی پیدا ہوئی۔اور اس کر میں نے اس موضوع پر " قوسی مطالعہ" {cross study} بھی کی۔ اور کئی کتب اور مضامین بھی پڑھے۔
ابن العربی کا پورا نام ابوبکر محمدبن العربی الحاتمی الطائی ہے۔ اکثر مآخذ میں اُن کی کنیت ابوبکر اور کچھ تذکرہ نگاروں نے عبداﷲ درج کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد میں اِن دونوں حوالوں سے معروف ہوں۔ آ پ مشرق میں ابنِ افلاطون اور ابنِ سُراقہ کی کنیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ابنِ عربی اپنے عقیدت مندوں اور مقلدوں میں ’’شیخِ اکبر‘‘ کے خطاب سے خاص شہرت رکھتے ہیں، لقب ’’محی الدین‘‘ ہے۔ آ پ ۱۷ / رمضان ۵۶۰ھ، بمطابق ۷ا/اگست ۱۱۶۵ء کوجنو بی سپین کے شہر مُرسیہ میں پیدا ہوئے۔ خاندان کا تعلق بنو طے سے ہے۔ اسلام کی فکری روایت میں ابن عربی اپنے مخصوص نظریہ تصوّف، فلسفہ اور کشف کے باعث ایک جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کو محض صوفی یا فلسفی کہنا درست نہیں، کیوں کہ ان کی فکر کا دائر ہ اہم سماجی اور اسلامی علوم مثلاً قرآن کی تفسیر، علمِ حدیث، اصولِ فقہ، الہٰیات، فلسفہ، تصوّف، صرف و نحو، سیرت، وقائع نگاری، نفسیات، صوفیانہ شاعری، مابعدالطبیعیات اور فلسفہ زمان و مکان کے پیچیدہ مسائل تک پھیلا ہوا ہے۔
حضرت شیخ محی الدین محمد علی الہاتمی الا ندلسی الد مشقی المعروف بہ حضرت ابن عربی جنہوں نے نظریہ وحدۃالوجود کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور اسی بات کی طرف شروع میں بتایا گیا ہے ۔کہ جو کچھ بیان کیا ہے ۔ اس کے لیے ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کی گی ہیں جن کو سمجھ لیناعوام تو کجا خواص کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
ابن العربی اپنی مشہور زمانہ تصنیف فصوص الحکم کے فص حکمتہ قدوسیہ فی کلمتہ ادریسیہ میں لکھے ہیں :
ترجمہ : " پس حق تعالٰی بذاتہ علی ہے ۔ با ضافت علی نہیں ۔ کیوں اعیان ثابتہ و معلومات الہیہ جن کو و جود خارجی نہیں،ہنوز ختم عدم میں ہیں۔ ان کو وجود خارجی کی ہوا تک نہیں لگی۔ پس اعیان ثابتہ باوجود موجودات خارجیہ میں متعدد معلوم ہونے کے ہنوز اپنے عدم اصلی پر ہیں ۔ اور ذات جو مجمو ع صور تجلی ہے ۔ مجموع اور کثرت سے بحثییت تقدئی ظاہر اور مجموع اور کثرت میں بحثییت اطلاق باطن ہے ۔اگرچہ خلق ، خا لق ، سے متمیز ہے ۔ مگر حقیقت ووجود کے لحاظ سے ایک ہی شے خالق بھی ہے ۔ اور وہ مخلوق بھی۔اور وہ مخلوق بھی ہے اور خالق بھی ۔ تمام مخلوفات ایک ہی عین حقہ سے ہیں ؟ نہیں ۔ بلکہ وہی عین و ذات واحد حقہ اعیان و ذوات کثیر میں نمایاں ہے
شیخ محی الدین نے ابن عربی اس کے بعد مولانا رومی اور دوسرے صوفیا اور صوفی شعراء نے اس نظریہ کو کلام میں اس کو پیش کیا ۔ اس کے ایک طرف تو یہ معنی لیے جاتے ہیں کہ عشق حقیقی میں خود کو اتنا کم کردو کہ تمہا ری ہستی فنا ہوجائے اور یہی صوفیا کی معراج رہی ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق توحید یہ نہیں ہے کہ خدا واحد ہے ۔ بلکہ توحید یہ ہے کہ اس کے سوا کائنات میں کوئی دوسرا وجود نہیں ہے اور تمام مخلوق اسی کی ذات کا حصہ ہے اور مخلوق کی اس کی ذات علحیدہ کرکے مت دیکھو ۔۔۔۔۔
ابن العربی نے وحدت الوجود کے حق میں جہاں عقلی اور نقلی دلائل دیئے ہیں وہاں باطن یعنی کشف کو بھی پیش کیا ہے ۔ مگر اس بارے حضرت مجدو الف ثانی کا کہنا نے ہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ وجودی صوفیہ کا سکر ہے اور مشاہد حق کا ادنیٰ سا مقام ہے اور اگر سالک اس مقام سے آگے نہیں بڑھا تو وہ فریب دید کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ مقام دراصل سالک کی غیر معمولی محویت و استغراق کا پیدا کردہ ہوتا ہے ۔ اس سے بھی آگے مقامات سلوک ہیں ، جن سے گزرے بغیر سالک حقیقت الحقائق اور موجودات عالم کے درمیان ربط کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکتی ہے ۔ تصوف کی روح تصور فنا ہے اور اسی کا نام مشاہدہ حق ہے ۔ اس کے مختلف درجہ ہیں ۔ اس مشاہدے کا تعلق تمام تر انسان کے باطن سے ہے اور اس میں قلب کو مرکزی حثیت حاصل ہے اور ان کے مشاہدے میں انسانی حواس اور عقل کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ {وحدت الوجود (فلسفہ، تنقید و اثرات از عبدالمعین انصاری، اردو جون2018}
ڈاکٹر اسرار احمد رقم طراز ہیں " شیخ ابن عربی کے نزدیک اعیانِ ثابتہ حقیقت ِمحمدیہ کا عین' اور حقیقت ِمحمدیہ ذات باری تعالیٰ کا عین ہے' کیونکہ شیخ کے ہاں صفاتِ ذاتِ حق' عین ذاتِ حق ہے' بلکہ شیخ کے ہاں صفت علم' صفت قدرت کا عین اور صفت قدرت' صفت علم کا عین ہے۔ چونکہ شیخ ابن عربی کے نزدیک صفت علم بھی عین ذات ہے لہٰذا صفت علم میں تنزل سے مراد عین ذات میں تنزل ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں اللہ کی ذات میں تو تنزل نہیں ہوا لیکن کلمہ 'کن' یعنی اللہ کی صفت کلام جو نہ عین ذات ہے اور نہ غیر ذات یا من وجہ عین ذات ہے اور من وجہ غیر ذات ہے' اس میں تنزل ہوا ہے"۔ مولانا رومی کے بعد جس شخصیت نے شیخ محمداقبال کو جس نے بہت متاثر کیا وہ ہے شیخ اکبر محی الدین ابن ِ عربی۔شیخ ابن عربی کے متعلق ابو طالب انصاری لکھتے ہیں :
"ابوبکر محی الدین بن علی عربی مشہور صوفی اور نظریہ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلغ اور عالم تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ تمام کائنات اور مافیہا ذات خداوندی کی مظہر ہیں۔ لہٰذا تمام مذاہب بھی اپنی اصل میں برابر ہیں۔ اپنے اپنے زمانے میں ابن تیمیہ، تفتا زانی اور مجدد الف ثانی ان کے شدید نکتہ چینوں میں سے تھے جبکہ سیوطی فیروز آبادی اور عبدالرزاق کاشانی ان کے حامیوں میں سے تھے۔
ابن العربی کا ان فلاسفہ کے ساتھ موازنہ از حد دل چسپ امر ہے، ان تینوں کا اسلوب حیران کن حد تک آپس میں گہری مماثلت رکھتا ہے۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ایم ایچ یوسف اپنی انگریزی تصنیف ”Ibn Arabi-Time and Cosmology” میں جدید فزکس کے کئی نظریات ابن عربی کے فلسفے سے اخذ کرتا ہے اور یوں وہ شیخ اکبر کو جدید اصطلاح کے مطابق ایک ”Physicist” کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ آئی المونڈ (I.Almond) پسِ ساختیات کے حوالے سے ابن عربی کو پرکھتا ہے، سن ۲۰۰۴ء اس کی شائع ہونے والی کتاب”Sufiism and Deconstruction: A comparative study of Derrida and Ibn Arabi”
ابن العربی کی تفہیم میں نئے در وا کرتی ہے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے، پی۔ کوایٹس (P.Coates) اور آر جے ڈوبی (R.J.Dobie) ابن عربی کو جدید تاریخِ فلسفہ میں بلند مقام عطا کرتے ہیں، ان حکما نے ابن عربی کے ’’تصورِ برزخ‘‘ میں علمِ فلسفہ کے ان درجنوں مسائل کا حل ڈھونڈ نکالا جو بقول ان کے ارسطو سے لیکر جدید امریکی فلسفی رچرڈ مکے رورٹی (Richard Mckay Rorty) تک لاینحل تصور کیے جاتے تھے۔ شاہ کازیمی (Shah-kazemi) فلسفہ ابن عربی کا موازنہ جاپانی مفکر ڈوجن زین جی (Dogen Zhungzi) چینی حکیم زوآنگ زی (Zhuangzi) اور معروف ہندوستانی فلسفی شنکر اچاریہ(Shankaracharya) کے مشترک فکری پہلووں پر سیر حاصل تبصرہ کرتا ہے۔ اس موضوع کے تفصیلی مطالعے کے لئے شاہ کازیمی کی لاجواب تصنیف ”Paths to Transcendence:According to Shankara, Ibn Arabi, and Meister Eckhart.” کا مطالعہ ضروری ہے۔ چین کے مسلمانوں نے ابن عربی کی علمی میراث کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سکول قائم کیا جس کا نام ”The Han Kitab” ہے، یہ ادارہ ابن عربی اور کنفیو شس کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیمات ایک ساتھ فروغ دے رہا ہے۔ فلسفہ ابن عربی کے اطلاقی اور عملی پہلووں کوایک ادارے کی صورت میں عام کرنا یقینا ایک انوکھی مثال ہے۔ یہ تازہ حقائق ابن عربی کی آفاق گیر بصیرت کو نمایاں کرنے کی صرف ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔ ابن عربی صحیح معنوں میں اسلامی علوم کا بحرِناپیدا کنار ہے، یہاں کائناتی راز اسرار کے دبیز پردوں سے باہر نکل کر عوام و خواص سے ہم کلام ہونے لگتے ہیں۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ اس بات کی وضاحت لازمی ہے کہ شیخ اکبرکا فلسفہ وحدت الوجود حجرہ نشینی کا درس نہیں دیتا، بلکہ انسان کی حرکی قوتوں کو مہمیز عطا کرتا ہے۔ یہ خا لصتاً ایک عملی اور انقلابی فلسفہ ہے اور اسے بجا طور پر علم کی معراج کہنا چاہیے۔ یہ فلسفہ انفس و آفاق کو علوم کے مجموعی چوکھٹے میں رکھ کر فہم کے اصل در وا کرتا ہے۔ وجود ) (beingکی اس کیفیت و ماہیت کا اصل ادراک صرف وہی کر سکتا ہے جو قطرے میں دجلہ دیکھنے اور دکھانے پر قادر ہو۔ گویا مرزا غالب کے الفاظ میں:
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جز میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہء بینا نہ ہوا
شیخ اکبر کے فلسفہ وحدت الوجود کی تشریح و تو ضیح کے لئے ماجد فخری نے فصوص الحکم کے مطالعے سے جو روشن نتائج اخذکیے وہ لائقِ توجہ ہیں:
“According to Ibn Arabi,divinity and humanity are not two distinct natures,but rather two aspects which find their expression at every level of creation.Divinity corresponds to the hidden or inward(batin)aspect to the external or outward (zahir).In philosophical terminology, the first corresponds to substance,the second to accident.The manifestation of reality reaches its consummation in man”(9)
فلسفہ وحدت الوجود کا یہی وہ باریک نکتہ ہے جس کی راست جانکاری ضروری ہے، یہی وجودی فلسفہ انسان کو اُس کے اصل مقام سے آگاہ کرتا ہے، اس فلسفے کی رو سے انسان صحیح معنوں میں کائناتِ اصغر ہے، انسان کو اگر کائنات کا سَت یا خلاصہکہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا، کیونکہ بظاہر یہ مٹھی بھر خاک کا پُتلا کائنات کی کاملیّت اور خدائی صفات کو اپنے اندر سموئے بیٹھا ہے، اپنی انہی افضل خصوصیات کے باعث قرآنِ حکیم نے اسے خدا کا نائب کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ {شیخ الا کبر محی الدین ابنِ عربی : ایک تعارفی مطالعہ —- عامر سہیل، ' دانش' نومبر 1917۔ انٹر نیت پر}۔ حدت الوجود کو انگریزی میں پین تھی ازم (Pantheism) کہتے ہیں، مغرب میں اس کے معروف ترین مبلغین میں معروف اطالوی ریاضی دان اور عیسائی راہب گیوردانو برونو، معروف جرمن فلاسفر جارج ولیم فریڈرک ہیگل، یہودی فلاسفر بارخ سپینوزا اور معروف تھیوریٹکل فزیسٹ البرٹ آئن سٹائن شامل تھے، چین میں اس کے معروف ترین مبلغ لاؤزے تھے،جبکہ یونان میں ہیر اقلاطیس اس عالمگیر سچائی کے پرچارک تھے۔ دنیا میں ان گنت مذاہب مروج رہے ہیں، مگر مطلق سچائی ہر دور میں ایک ہی رہی، پس جس پر انکشاف ہوا اس نے اعلان کر دیا، جو محروم رہ گیا وہ پھر اس طرف نہ آ سکا۔ وحدت الوجود ایک روشنی ہے اور یہ صرف اسی پر منکشف ہوتی ہے جسے حتمی سچ کی جستجو ہو، علاوہ ازیں تو انسان کہیں نہ کہیں پھنس ہی جاتا ہے، وحدت الوجود عقلیت اور بصیرت کا حتمی مقام ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ذہین ترین لوگ آخر کار وحدت الوجود پر ہی مقیم ہوتے ہیں۔ابن عربی کا فلسفہ (وحدت الوجود ) کی دو شاخیہں ہیں۔ پہلی یہ ہےکی خارج میں صرف ایک ہی ذات کا وجود ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ آفاق میں جو بے شمار مظاہر دکھائی دیتے ہیں ہیں وہ ذات واحد کے مظاہر اور اشکال کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں۔ اور اس کو انسان حقیقت کا نام دے کر اسے اپنے شعور اور وجود میں بسا لیتا ہے ۔ حالانکہ وہ ایک چیز کو نقل کرکے اپنے شعور کا حصہ بھی بنا لیتا ہے۔
کتاب خریدنے کیلۓ نیچے دستیاب پتے پر رابطہ کریں۔
مصنف: عبد السلام
مرتب : ڈاکٹر سعادت سعید
ناشر: ادارہ ثقافت اسلامیّہ۔ ۲ کلب روڈ لاہور
فون:042363127 ۔۔۔۔۔ 36305920
ای میل [email protected]