حضرت شیخ سعدی کا قول ہے ’’ تمہاری اَصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو گوشت اور ہڈیاں ہیں ‘‘۔
بات ہے بھی دل کو لگنے والی انسان کو اللہ نے علم سے فضیلت عطا کی ہے جس کا محورّ سوچ ہی ہے اپنی سوچوں کو بہترین پیرائے میں پرو کر لفظوں کو مالا کا روپ دے لینا حیدر قریشی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اسی وجہ سے ان کی نظمیں طویل و مختصر، مختصر نظمیں زندگی کے سرد گرم دکھ سکھ الفت و مروت کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی پہلوئوں کو بطریق احسن اجاگر کرتی چلی جاتی ہیں جس میں تخلیق کار کے تمام تر تجربات یعنی حاصل حیات کا نچوڑ اور عرق عرق افکار ان کو ایک بہترین ماہر عمرانیات ثابت کرتا چلا جاتا ہے اور قاری بیٹھے بیٹھے ان دیکھے جہان اور ہمہ پہلو انسان سے ملاقات کرکے خود کو ہلکا پھلکا اور شاداں و فرحاں محسوس کرنے لگتا ہے ۔
نظموں کے موضوعات جہاں مٹی سے محبت کا پتہ دیتے ہیں وہاں مسائل ، وسائل اور برتائو کے حوالے سے ایک عمرانی تاریخ کا گہوارہ بھی ثابت ہوتے ہیں ۔
طویل یا مختصر جس بھیبحر میں ادب تخلیق کیا ۔ حسنِ لطافت کو گویا معراج ہی کراکے دم لیا ہے ۔ ان کی خدمت میں الفاظ کس طرح ہاتھ باندھے حاضر ہوتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
لفظوں کو جستجو ہوئی اپنے وجود کی
مفہوم اپنے رشتے نئے ڈھونڈنے لگے
معنوں کی اک بساط بھی بچھنے لگی نئی
مفہوم کے حوالے سے تفہیم چاند کی
ان پانچ سطروں میں شاعر کی کیا کیا خوبیاں واضح ہوگئی ہیں دیکھے ۔ جب بھی لفظوں کو اپنے وجود کی جستجو ہوتی ہے تو وہ حیدر قریشی کے پاس حاضری دیتے ہیں کہ اے درویش نامہم زمانہ ۔ ہمیں بطریق ابتر برت رہا ہے تاویلوں کی زد میں ہیں تو ہمیں اپنی نکھری نکھر ی تخلیق کے سانچے میں ڈھال کر پیکر زندہ و جاوید عطا کر دے ۔
مفاہیم کا تعلق ساز بھی یہی درویش ہے اور بے بدل ہے ۔ فنی پختگی کے ساتھ ساتھ خیال اتنا اعلیٰ ہے کہ لفظوں سے کھیلنا شاعر کا من پسند مشغلہ ہے اور پھر آخر میں بزرگِ بے مثال کی حق گوئی دیکھتے کہتا ہے وہ زمانہ گزر گیا جب ہم چاند کو چہرہ کیا کر تے تھے اب تو خلق کا اَحساس ہے ۔ زمانے کے غم ہیں اور ہم ہیں وہ دن ہوا ہوئے جب ۔ تجھے گل کے روبرو کرنے کی تمنا رہا کر تی تھی ۔
اس کے بعد نثر کے میدان میں آپ نے جو کارہائے نمایاں کر دکھائے ہیں انہوں نے گویا ایکپند نامہ کو سلیس انداز میں بیان کر دیا ہے جس کا اَثر اس لیے زیادہ ہوا کہ حیدر قریشی جس طرح منظر نگاری میں کمال رکھتے ہیں اسی طرح جذبات کو بیدار کرنے میں بھی ثانی نہیں رکھتے ۔
خصوصاً والدین کے ساتھ برتائو پر مبنی تحریریں درسِ اَدب کا کامل نمونہ پیش کر تی ہیں ۔
اَفسانہ نگاری آسان کام نہیں اس میں لکھاری سارے کمردار خود کر رہا ہوتا ہے حتیٰ کہ آپ اور میرا یعنی قاری کا کردار بھی خود ہی کر رہا ہوتا ہے اور ایسا جملہ تخلیق کرتا ہے جسے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے دل کی بات گھر کی قصہ اور دنیا کی خبر بھی کہہ سکیں ۔
المختصر غم جاں غم جاناں اور غمِ زمانہ کو محض چند صفحات پر اس طرح بکھیر دینا کہ ان کی شدت تمازت اور تقاضے سب پر عیاں ہو جائیں اس ساری کاوش کا نام افسانہ نگاری ہے اور حیدر قریشی اس کاوش میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں ان کا کوئی ایک اَفسانہ اپنے قاری پر یہ حقیقت نہایت خوش آئند پُر مسرت اور مثبت انداز میں عیاں کرکے رکھ دیتا ہے ۔ جس کا نقشہ راشد اوعر راشد نے اس خوب صورت شعر میں کھینچا ہے ۔
ایک قطرہ ہی سہی آنکھ میں پانی تو ہے
اے محبت تیر ہونے کی نشانی تو رہے
حیدر قریشی کے مضامین قاری کے لیے ایک ساحرانہ سلطنت کے دروازے کھولے چلے جاتے ہیں ۔ اپنی شریکِۂ حیات کے بارے میں ان کی تحریر مبارکہ محل ایک بہترین سماج اور محبت بھرے جہاں کی سیرانی عطائوں کا مخزن ہے اور کچھ نہیں اتنی وسیع و عشق شخصیت کے لامحدود کارناموں اور اَدبی عمرانی کے ساتھ ساتھ صوفیانہ فتوحات پر جنبشِ قلم کی جسارت مجھ سے طفلِ مکتب کے لیے یقینا کٹھن تھی لیکن قیسِ ادب شفیق دوست محمد یوسف وحید کی اَدب دوستی ترغیبِ عمل کے ساتھ مرے مرشد زادہ سیّد صبغت اللہ سہروردی کی رہنمائی اور میری طرح بہتوں کے زیست ساز ظفر جتوئی کی تربیت نے آپ کے لیے چند سطروں کا ساماں کر دیا ۔
میں نہایت مسرت محسوس کر رہا ہوں یہ جان کر کہ گڑھی اختیار خان کی جن روحانی فضائوں میں ، میں سانس لے رہا ہوں ۔ اس کی ہوائوں کو بہت سے اللہ کے پیاروں سمیت جناب حیدرقریشی کے پردادا حضرت میاں میر محمد کے وجودِ مسعود سے نکہت آمیز لمس مُیسّر آچکا ہے ۔ ہمیں حاصل روحانی تسکین میں ان کی شب خیزی اور آہِ سحر کی کرشمہ سازی بھی کارفرما ہے ۔ قلندر وقت حضرت خواجہ دُر محمد المعروف ’’ دُر پاک ‘‘ سے ان کا ربط روحانی ہے اور مجھے یہ کہ میں درپاک غریب نواز کے نواسے حضرت خواجہ محمد عالم کوریجہ سے انس کی نسبت ’’ اَسیرِ عالم ‘‘ بھی کہلاتا ہوں اور ’’ عاشق صادق‘‘ بھی ۔
حیدر قریشی صاحب کا تخلص ارشدؔ ہے اور مجھے شاعرِ کیفیت امان اللہ ارشدؔ سے شرفِ تلمذ بھی حاصل ہے ۔ ربطِ محبت بھی اتنی نسبتوں نے میرے دل میں حیدر قریشی کی محبت کو عمیق تر کر دیا ہے ۔
ان کی شخصیت خصوصاً ان کی کتاب ’’ مبارکہ محل ‘‘ پر ایک مقالے نے میرے ذہن میں جگہ بنا لی ہے مگر
اے یار تیرے غم سے فرصت ملی اگر
تبدیلیاں کروں گا اس عالمِ کہن میں
٭٭٭
اس بات سے کسی کو مفر ہے نہ ہوسکتا ہے کہ شاعر ایک چنیدہ روح ہوتا ہے ۔ جسے مظاہرِ قدرت تخلیق ناطق ہو کر ملتے ہیں ۔ اگلا مرحلہ قسمت کی یاوری سے طئے ہوتا ہے وہ یہ کہ شاعر مائل بہ قبولیت ہو کر کائنات کے ذرّے ذرّے سے مخاطب ہو کر ذکرِ یار کے وظیفہ ٔ نافع کی داغ بیل ڈال دے ۔
اب یہ داغ بیل کیسے ڈالی جاتی ہے یہ خاک کا پتلہ کلیمِ ثانی کے درجے پر کیسے فائز ہو جاتا ہے ۔ اگر آپ کا ربط روحانی قوی ہے تو روحِ اقبال سے رُجوع فرمائیے اور بالمشافہ کسبِ فیض کی ٹھان لی ہے تو پھر حیدر قریشی کی تقرب کی سعی کیجئے ۔
کیونکہ علم کے لیے نیت اور کتاب کے ساتھ اُستاد کی ضرورت سے انکار ناممکنات کا سرنامہ ہے ۔
اُستاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تو لو
اُستاد تو ہر دَور میں اَنمول رہا ہے
جہانِ ادب میں بالکل طفلِ مکتب ہوتے ہوئے حکم حاکم کی تعمیل کے تحت جب میں نے حیدرقریشی کی اَدبی فتوحات پر توجہ کی تو یہ مصرع بلاساختہ یاد آیا کہ
یہ نصف صدی کا قصّہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
یہی بات ان کی پرکاری پر دلالت بھی کر تی ہے اور ان کے ہمہ پہلو ہونے کی غمّاز بھی ہے ۔ اصنافِ سخن سے مکمل وفا کر نا بلکہ سخا کر نا اور انہیں جدّت آمیز بنانا تو کوئی ان سے سیکھے ۔
کوئی ایک صنف بھی ایسی نہیں جس پر زیادہ اور مکمل یا مختصر مگر جامع کاوش اس محسنِ اَدب کی انفرادیت کو منواتے نہ چلی جا رہی ہو ۔
حمد ، نعت ، غزل اور ماہیا نے حیدر قریشی کے جرعہ فیض سے بہت سے بھی زیادہ وُصولا ۔
عمرانیات کی ہمہ قسم تحقیق کا نچوڑ ہمیں جن جواہر پاروں سے روشناس کراتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم نے اگر ’’ بچے ‘‘ کو پہنچاننا ہو تو اس کے ’’ انتخاب ‘‘ سے پہچانو ۔
اور اگر ’’ بڑے ‘‘ کو پہچاننا ہو تو اس کے ’’ استحضار ‘‘ سے پہچانو ۔
بس یہیں پہ آکے حیدر قریشی اپنی روایتی منکسر المزاجی کے باوجود بھی اپنے اعلیٰ اَدبی مرتبے کو چھپا نہیں پا رہے اور ان کی ہمہ قسم مہارت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے ۔ آئیے کچھ مثالوں سے اس حقیقت سے آشنائی اور لذتِ ذوق کو مہمیظ کر تے چلیں ۔
ہے میری روح میرے جسم کے ہر ذرہ میں پنہاں
تو اپنے جسم کو اک شہرِ روحانی میں رَکھا ہے
دیکھیں وَ نَفَختُ فیھا مِن روحی یَر جع کلِ شی ئِِ اِلیٰ اَصلِہِ
کو کس حسین امتزاج سے پیش کر دیا ہے اور اَحساسِ زیاں اور عَدُو مُبین کی کارستانی سے بے راہ رواں اُمت کو کس کاٹ دار انداز میں اَحساسِ زیان کی ترغیب دلائی جارہی ہے ۔
نصوع کو بھی دیکھ لیں گے فرصت میں
ابھی نمٹ تو لیں مومن فروع سے پہلے
بلاشبہ مظاہرِ قدرت ہر شاعر کے لیے ماخذِ اعظم ہوا کر تے ہیں مگر حیدرقریشی کو دیکھئے کہ کس قرینے سے فکر بیدار کو وحدتُ الوجود کی طرف راغب کرنے میں مصروف ابلاغ ہیں ۔
نہ پورا سوچ سکوں ، نہ چھو سکوں ، نہ پڑھ پائوں
کبھی وہ چاند ، کبھی گل کبھی کتاب لگے
ذرا یہ مقطع دیکھئے ، شانِ بے نیاز ی کی داد دیجئے ۔
حیدر ہم ان کے دل سے اُتر آئے خود مگر
ان کو ہمارے دل سے اُترنا نہ آسکا
تعلماتِ اصلیہ کا مطالعہ اور پھر درسِ حقائق کا فریضہ کیسے اَدا کر تے ہیں ۔ حیدر قریشی کے اس شعر سے سیکھ لیجئے ۔
ہماری ایڑیوں سے اب کوئی چشمہ نہ اُبلے گا
نہ قسمت میں ہماری بیتِ اہل ہونا ہے
ایک عمرانی حقیقت ہمارے سامنے مسلم صداقت کے طور پر موجود ہے کہ
’’بندہ ای بندے دا دارو اَے‘‘
اسی مضمون کو حیدر قریشی کے خوبصورت پیرائے میں بیان کرنے میں کس اَحسن طریقے سے کامیا ب ہوئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں
کردارِ فقیہاں مری آزادہ روی بھی
گمراہی کے لیکن یہی اَسباب نہیں تھے
اشتکاک لفظ و استد لال کے ماہرِ اعظم علامہ سیّد محمد فاروق القادری اپنی ایک عصری محفل میں فرماتے ہیں ۔
جو وہ طائرِ لاہوتی ہے سنگ سنگ کرتا ہے یا پھر عرفان و آگہی کے قلزم ذخار کے کہنہ مشق غواص کی وہ ڈُبکی ہوا کرتا ہے جس میں وہ جہانِ معانی دَر معانی اَصل الا ُصول ، گوہرِ مقصود یا مادۂ حقائق نہ صرف پاتا ہے بلکہ لا کر یارانِ ساحل کے سامنے رکھ دیتا ہے ‘‘ ۔
’’اس جواہر پارے کی اگر سلیس کی جائے تو وہ بات قرینِ حقائق ہو ۔ جب کہی جائے جس سے کہی جائے تو نہ صرف تازہ اپنی لگے بلکہ اَفشاں تر ہوتی جائے ،شعر کہلاتی ہے ‘‘۔
آئیے اسی تناظر میں حیدرقریشی کے چند اشعار دیکھتے ہیں ۔
تم نے وہ منظر ہی کب دیکھے ہیں جب
درد سمندر دل دریا میں کرتے ہیں
یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدرؔ
یا رب پیہم اشک دُعا میں گرتے ہیں
اندازِ تخاطب پہ ذرا غور فرمائیے ۔ عام فرد سے بات ہے ہی نہیں صرف اور صرف جستجو کے خوگر سے کام ہے اور اسے بھی مزید تلاشنے کا درس دیا جا رہا ہے
مصرعِ ثانی پر نظر کا مرکزہ مان کر دیکھئے ۔ عام روش سے ہٹ کر بلکہ بالکل تضاد بات کی گئی ہے کیونکہ روٹین کے مطابق دریا سمندر میں گر ا کر تے ہیں نہ سمندر
اسی سے واضح ہوا کہ کسی جہان دیگر کی بات ہو رہی ہے بلاکم کا ست وہ محبت کا ہی جہان ہے کیونکہ میرا اپنا ہی شعر اس کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
اُلٹی گنگا بہتی ہے بحرِ عشق میں
جو ڈوب جاتے ہیں یاں وہ پار ہوتے ہیں
اب ذرا تیسرے مصرع میں دیکھئے ۔
ایک خاص وقت کا ذکر ہے کہ ایک حال یہ تھا کہ کچھ واضح نہیں تھا ، ہر چیز مبہم تھی اور سفر مطلوبہ سرحد تک پہنچا ہے تو اب نہ صر ف دُعائیں ہیں بلکہ اَشکوں سے وضو کی خو بھی ہوگئی ہے اور یہ اَشک بھی خوشی اور تشکر کے ہی ہیں ۔ اس سارے منظر نامے کے واضح کر نے کے لیے حیدر قریشی کو خراجِ تحسین پیش کر نے کے لیے ایک عارف کے شعر کا دوسرا مصرع ان کی نذر کرتا ۔ شعر نعت کا ہے لہٰذا عنایت مزید کے یقین اوربرکت کی نیت سے پورا شعررقم کیا جاتا ہے ۔
اے ختم رُسُل قُرب تو معلومم شد
دیر آمدۂ ی از رہ دور آمدہ ٔ ی
القصّہ حیدر قریشی کسی بھی صنف میں مجرب و مستحسن حقائق کو طشت از بام کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔ ماہیا کی صنف حیدرقریشی کے اَحسانات اُتارنے کا خواب ہی نہیں دیکھ سکتی اور اسی میں ریت رواج کو جس طرح زندگی حیدرقریشی نے عطا کی ہے اور جس خوبصورت انداز میں ترسیل پیغام کا سامان فراہم کیا ہے ۔ ادب کی دیوی اسے بھگوان مانے رَہ ہی نہیں سکتی ۔
میں ان ہی کا ایک شعر آپ کی نذر کر تے ہوئے فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ۔
ہم تہی دست آبروئے فقر
سود دے کر زیان مانگتے ہیں
آئیے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں
سب صبحوں کا تاج ہوئی
رحمتِ عالم کو
جس شب معراج ہوئی
مہکار ہے کلیوں کی
جیسے دُعا کوئی
دھرتی پہ ہو وَلیوں کی
’’ اپنا وطن کشمیر ‘‘ کا اَعتراف دیکھئے ۔
یادوں کے خزینے میں
خان پور اپنا تو
آباد ہے سینے میں
مل مہکی فضائوں سے
یار نفل باہر
اندر کی خلائوں سے
جیتا کبھی ہارا تھا
’’گلی ڈنڈا‘‘ بھی
اک کھیل ہمار اتھا
مستی سے بھری پہلی
الہڑ مٹیارین
جب کھیل گئیں ’’ککلی‘‘
ہر رَسم اُٹھا دی ہے
کو کلا کھیلے ہیں
بچپن کو صدا دی ہے
سوہنی ہے یا ہیر ہے وہ
اتنی ہے مجھ کو خبر
جنت کا انجیر ہے وہ
٭٭٭