اکیسویں صدی میں جہاں ادب کا مجموعی اسلوب بدلا ہے وہیں سائنس اور ٹکنالوجی کی برکات سے طباعت واشاعت کے شعبوں میں بھی ایک انقلاب آیا ہے۔ بالخصوص اردو ادب کے حوالے سے گر بات کی جائے تو رسائل اور اخبارات کا ایک سیل رواں بلکہ سیلاب آیا ہوا ہے اور رسائل وجرائد کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شمعیں روشن بھی ہورہی ہیں،اسی رفتار سے گُل بھی ہورہی ہیں۔رسالوں کی اس بھیڑ میں ایک رسالہ ہے ’’ادب سلسلہ‘‘ جو گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل منزل ارتقا کی سمت تیزی سے گامزن ہے اور اس کا ہر شمارہ خوب سے خوب تر ہوتا جارہا ہے۔صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کا تازہ ترین شمارہ سرِ دست میرے پاس زیرمطالعہ آیا ہے جس پر جولائی تا دسمبر 2020 کی تاریخ درج ہے۔ یہ اردو زبان وادب کا عالمی سلسلہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر اردو فکشن کو پیش کرنے کی تخصیص سے متصف ہے۔ اس پر خصوصی شمارہ افسانہ نمبر بھی درج ہے اور شاید اسی بناپر اس میں شعری تخلیقی ادب کی پیش کش سے اس بار دانستہ طورپر گریز کیا گیاہے۔
مشمولات پر نظر دوڑائیے تو آج کے ادبی منظر نامے پر موجود جگمگاتے ستاروں کی ایک انجمن دیکھنے کو ملے گی۔ قدو س جاوید، علی احمد فاطمی، سید احمد قادری، ابن کنول، آفتاب احمد آفاقی، شہاب ظفر اعظمی، اسلم جمشید پوری اور غلا م ربانی (بنگلہ دیش ) کے علاوہ بھی کئی اہم نامور شخصیات کے پُر مغز مضامین موجود ہیں۔ جن میں اکیسویں صدی کے اردو فکشن کی صورتحال کا بھرپور طریقے سے احتساب و انشراح پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً باب نقد اکیسویں صدی میں’’ اردو افسانہ ویژن اور اقلیتی ڈسکورس‘‘ میں پروفیسر قدوس جاوید نے اپنے مضمون کا کما حقہ جائزہ لیا ہے۔ اس مضمون کی وسعت اور وقعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ادب سلسلہ کا یہ پہلا مضمون ہے اور اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح دوسرا مضمون بھی ستائیس صفحات پر مشتمل ہے جس میں پروفیسر علی احمد فاطمی نے اردو کے چند نئے ناول کا بھر پور تبصرہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔ ’’مجھے تلاش ہے ان ناولوں کی جن کی دنیاؤں میں کھوکر آدمی خود کو پاتا ہے۔‘‘ وارث علوی کے حوالے سے ان تمام اہم ناولوں کا جائزہ لیا گیاہے جو گزشتہ صدی کے ناولوں سے نہ صرف تکنیک اور اسلوب کے لحاظ سے مختلف ہے بلکہ موضوعاتی سطح پر بھی اپنے دامن میں بے پناہ تنوع رکھتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ صرف2019 میں ایک سال کے دوران پانچ سات ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ اس تیز رفتاری سے اردو ادب میںناول کے فقدان کی شکایت بڑی حد تک ختم ہوگئی ہے۔ اردو کی خواتین افسانہ نگاروں کا منظرنامہ کا تناظر عالمی ہے۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے اپنے اس مضمون میں ناقدانہ انداز سے ان تمام قابل ذکر افسانہ نگاروں کو شامل کرلیا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے افسانے لکھ رہی ہیں اور اکیسویں صدی میں بھی اتنی فعال اور تازہ دم ہیں۔ اسی طرح بہار کے تمام ناولوں کو محیط ڈاکٹرشہاب ظفر اعظمی نے آغاز سے موجودہ اکیسویں صدی کے بیس برسوں میں منظر عام پر آنے والے تمام ناولوں کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیا ہے، جو کہ اس وقت کسی دوسرے صوبے میں اتنی کثیر تعداد میں نہیں لکھے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ’’نیا اور عالمی اردو افسانہ‘‘ میں بڑی محنت اور جگر سوزی کے ساتھ افسانوں کا جائزہ لیا ہے۔
’’ احتجاج اور عصری افسانہ‘‘ کے عنوان سے محمد بشیر مالیرکوٹلوی نے احتجاج کے حوالے سے بھرپور اپنی تنقیدی آراء پیش کی ہے۔ بنگلہ دیش کے بہت ہی فعال ناقدپروفیسر محمد غلام ربانی نے ’’اکیسویں صدی میں بنگلہ دیش کا اردو افسانہ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش کی قومی زبان بنگلہ ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کے اردو پسند حضرات نے اردو افسانہ نگاری کو جاری رکھا ہے اور وہاں اردو افسانے کا مستقبل روشن ہے۔
مغربی بنگال میں افسانے کے عصری مسائل کا بھرپور جائزہ پیش کرتی ہیں صوفیہ شیریں، وادیٔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے جواں سال تنقید نگار غلام نبی کمار نے ’’نیا قلم نئی روشنائی‘‘ کے تحت چند اہم افسانے اور ان کے تجزئیے پیش کئے ہیں جو کہ اکیسویں صدی کے تناظر میں نوشتہ ہے۔یہ ایک طویل مضمون ہے جو موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے۔حسن امام منظر نے ’’بہار میں اردو شاعری 1980 کے بعد‘‘ ایک عمومی جائزہ لیا ہے۔ واثق الخیر جوکہ پوسٹ ڈاکٹریٹ ہیں ان کا قابل قدر مضمون ’’ناول میں شہری آبادی کے سماجی مسائل‘‘ شامل اشاعت ہے جو کہ قارئین کی توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔’’ اردو کے فروغ میں ٹیلی ویژن کا کردار‘‘ ایک ایسے نوجوان ادیب کے قلم سے نوشتہ مضمون ہے جو خود بھی ٹیلی ویژن کی دنیا سے وابستہ ہیں میری مراد فرمان چودھری سے ہے، ان کا مضمون صحافیوں کے لیے تجربات ومعلومات کا اہم ذخیرہ رکھتا ہے۔
سلسلۂ افسانہ کے عنوانات کے تحت تخلیقی ادب کے لیے صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ اس شمارہ میں افسانے سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے ان کے پسندیدہ افسانہ نگاروں کی بہت ہی مشہور ومقبول کہکشاں موجود ہے جن کا تعلق ملک اور بیرون ملک سے ہے جن کے افسانوں میں ہجرت کے ساتھ ساتھ کرب ذات وکائنات کے موضوعات بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔شموئل احمد، نعیم بیگ(پاکستان) محمد حمید شاہد(پاکستان)، خالد جاوید، انجم عثمانی، اسلم جمشید پوری، صدف مرزا( جرمنی)، رومانہ رومی( پاکستان)، عشرت معین سیما( جرمنی)، قمر جمالی، ثمینہ سید(پاکستان) اور انجلاء ہمیش( پاکستان) سے یہ کہکشاں جگمگارہی ہے۔
شعبہ ہائے حیات کے عنوان کے تحت میڈیکل سائنس سے متعلق دو مضامین اس شمارے میں شامل ہیں۔ ان میں پہلا مضمون ڈاکٹر بلال احمد کا’’ انتشارِ شعر ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ اور دوسرا مضمون’’ وبائی امراض کے مطالعہ میں عرب اطباء کی خدمات‘‘ کا ایک عالمی جائزہ ڈاکٹر عبداللہ کے پُروقار قلم سے موجود ہے جو یقیناً اپنے آپ میں معلومات کے ایک خزانے سے کم نہیں۔
انٹرویو کا ایک نیاکالم اس تازہ شمارے سے شروع کیا گیا ہے جس کے تحت دو انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔پہلا انٹرویو ’’ڈاکٹر پرویز شہریار سے گفتگو ‘‘میں غلام نبی کمار نے دلچسپ پہلوؤں پر بات چیت کی ہے اور ان کی شخصیت کے راز ہائے سر بستہ کو وا شگاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دوسرا انٹرویو سہ ماہی ادب سلسلہ کے مدیر محمد سلیم (علیگ) سے معروف شاعر جناب زبیر الحسن غافل صاحب کی خصوصی گفتگو ہے جس میں محمد سلیم( علیگ )نے بہترین طریقے سے سوالات قائم کئے ہیں اور غافل صاحب کی شخصیت کے پرتوں کی عقدہ کشائی کی ہے اور انہیں اپنے قارئین سے بھرپور طریقے سے متعارف کرایا ہے۔
اس شمارہ میں پروفیسر اسلم جمشید پوری صاحب کا ’’ سوالنامہ ‘‘ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے بہترین افسانہ اور بہترین ناول کا حاصل شدہ معطیات کی بنیاد پر تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔
بحیثیت مجموعی ادب سلسلہ کا شمارہ نمبر 14 جلد نمبر5 کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر تنویر فریدی (علیگ) اور مدیر محمد سلیم ( علیگ) مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ادب کی خدمات کے لیے اپنا بیش بہا وقت صرف کررہے ہیں اور کسمپرسی کے اس عالم میں اپنی جیب سے رقم خرچ کرکے اردو زبان کی آبیاری کررہے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...