”تبصرہ نگاری“ ایک دلچسپ فن ہے۔ تبصرے ملکوں پر بھی کیے جاتے ہیں اور نظاموں پر بھی۔ تبصرے شخصیات پر بھی کیے جاتے ہیں اور کتابوں پر بھی۔ تبصرے حالات پر بھی کیے جاتے ہیں اور موسموں پر بھی…. تبصرہ کائنات میں موجود ہر ہر چیز، ہر ہر کام اور ہر ہر شے پر ہوسکتا ہے۔
یاد رکھیں کہ تبصرے کی بیسیوں اقسام ہیں اور تبصرہ کرنے کے کئی مختلف انداز ہیں۔ تبصرے کی کوئی بھی قسم ہو اور تبصرے کا کوئی بھی انداز ہو، لیکن ایک بات قدرِ مشترک ہے کہ تبصرہ نگار کا ذہین فطین، وسیع المطالعہ، گہری نظر، حاضر جواب، گرم سرد چشیدہ، ماہر، پڑھا لکھا، تیزطرار قادر الکلام اور فی البدیہہ کہنے جیسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے۔
مثال کے طور پر آپ کسی کی ناک پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ کو ناک کی قسمیں معلوم ہونا ضروری ہے کہ ناک کتنے انداز کی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر پکوڑا ناک، چپٹی ناک، ستواں ناک، ڈڈو ناک، اونچی ناک، موٹی ناک، چھوٹی ناک، کھڑی ناک وغیرہ وغیرہ
اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کون سی ناک خوبصورتی کی علامت کہلاتی ہے اور کون بدصورتی کی؟
کون سے ممالک کے باشندوں کی کس قسم کی ناکیں ہوتی ہیں؟
چینی اور تھائی باشندوں کی ناک چپٹی ہوتی ہیں۔
افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی ناک پکوڑا ناک کہلاتی ہے. وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح اگر آپ کسی ملک کے نظام پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک میں کون سا نظام رائج ہے؟
صدارتی نظام ہے یا پارلیمانی؟
جمہوریت ہے یا آمریت؟
بادشاہت ہے یا شورائی نظام چل رہا ہے؟
اس ملک کے آئین میں اس کے لیے کون سا نظام وضع کیا گیا تھا اور عملاً کون سا نظام رائج ہے؟
اس ملک میں کس قسم کے نظریات کی حامل جماعتیں ہیں؟ مذہبی ہیں یا سیکولر ہیں؟ سوشلسٹ ہیں یا سرمایہ داریت کی علمبردار ہیں؟ وہ کیا چاہتی ہیں؟ کون سے نظام کے لیے جدوجہد کررہی ہیں؟
تو جس چیز، کام اور شے پر تبصرہ نگار تبصرہ کرنا چاہتا ہے اس کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہیے ورنہ تبصرہ صحیح نہیں ہوگا تبصرہ نگار تبصرے کا حق ادا نہیں کرسکے گا اور جب تبصرہ نگار تبصرے کا حق ادا نہیں کرسکے گا پھر اسے شرمندگی اُٹھانا پڑے گی سبکی ہوگی لوگ ہنسیں گے
تبصرہ کی لفظی اور اصطلاحی تعریف:
جب تبصرے کا اصطلاحی معنی مراد لیا جائے تو اس وقت خاص اور معروف تبصرہ مراد ہوتا ہے اوروہ ہے کتب، رسائل، جرائد اور مطبوعات پر تبصرہ، تنقید اور نقد و نظر کرنا
لیکن جب لغوی معنی مراد لیا جائے تو پھر عام تبصرہ مراد ہوتا ہے یعنی ہر چیز اور کام پر تبصرہ کرنا
تبصرے کے لغوی معنیٰ ہیں: ”تنقید کرنا، توضیح کرنا وغیرہ۔“ اس معنی کے لحاظ سے آپ کسی بھی چیز پر تبصرہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت دونوں ہی معنیٰ مراد ہیں یعنی کتابوں اور مطبوعات پر تبصرہ کرنا بھی اور اس کے علاوہ دنیا جہاں کی چیزوں اور کاموں پر تنقید، تبصرے اور رائے دینا بھی۔
یاد رکھیں! تبصرہ نگاری ایک مستقل فن ہے۔ جس طرح دیگر فن سیکھے جاتے ہیں اسی طرح تبصرہ نگاری کا فن بھی سیکھا جاتا ہے۔ کتابوں، رسالوں، جریدوں، اخباروں اور دیگر مطبوعات پر اپنے تاثرات لکھنا ایک باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کیونکہ آج بازار میں رنگارنگ قسم کی بے شمار کتابیں چھپ کر مارکیٹ میں آرہی ہیں۔ باذوق قارئین کے لیے انتخاب ایک گھمبیر مسئلہ بنا ہوا ہے کہ کون سی کتابیں خرید کر لائبریری کی زینت بنائی جائیں؟
اور کون سی کتاب ایک اچٹتی ہوئی اور سرسری نگاہ سے زیادہ توجہ کی مستحق نہیں؟
کتاب کے شائقین کو اس کشمکش سے نکالنے کے لیے تمام چھوٹے بڑے اداروں نے کتابوں اور رسالوں پر تبصروں کے مستقل سلسلے شروع کر رکھے ہیں اور اپنے اپنے دفاتر میں کتابوں، رسالوں، جریدوں اور دیگر مطبوعات پر تبصرے کے لیے ماہر تبصرہ نگار رکھے ہوئے ہیں، اور یہ تبصرہ نگار ”تبصرہ نگاری“ کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فنی تبصرے کرتے ہیں۔ ہر کتاب کو تبصرے کے قابل نہیں سمجھا جاتا .تبصرہ کرنے کے بنیادی اصول:
تبصرہ کرنے کے بنیادی اصولوں میں سے چند ایک یہ ہیں۔ کسی بھی کتاب پر تبصرے کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب سے پوری طرح واقفیت پیدا کی جائے۔ کتاب کے مصنف اور مو ¿لف کو جانچا پرکھا جائے کہ یہ کون ہیں؟
اس کا عملی اور فنی بیک گراﺅنڈ (Background) کیا ہے؟ یعنی سب سے پہلے مصنف اور مؤ لف سے تعارف اور آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔
دوسرے نمبر پر کتاب کے موضوع کو سمجھا جائے کہ کس موضوع اور فن پر یہ کتاب لکھی گئی ہے؟ ”دیگ کے چند دانے چکھ لینے“ سے پوری دیگ کا تو اندازہ ہوسکتا ہے لیکن کتاب کے چند صفحات پڑھ لینے سے پوری کتاب کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے چنانچہ دیگ کے چند دانوں کو چکھنے والا اصول یہاں لاگو نہیں کرنا چاہیے۔
کتاب سے واقفیت اور موضوع سے آگاہی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب کی تمہید، مقدمے وغیرہ پڑھنے کے بعد کتاب کی فہرست پر اچٹتی سی ایک نظر ڈالیں۔
اس کے بعد قلم، پنسل یا ہائی لائٹر ہاتھ میں لے لیں۔ کتاب کو چیدہ چیدہ مقامات سے دیکھیں۔ شروع سے آخری صفحے تک دیکھتے چلے جائیں۔ جب شروع سے آخر تک سرسری دیکھ لیں تو پھر الٹے ورقوں یعنی آخری صفحے سے پہلے صفحے کی طرف چیدہ چیدہ مقامات دیکھتے چلے آئیں۔
اس دوران خصوصی اور اہم جگہوں کو نشان زدہ اور خط کشیدہ کرتے رہیں۔ اگر کوئی بات اہم ترین لگے تو اس کا حوالہ کتاب کے شروع یا آخر میں جلد کے ساتھ خالی سفید صفحے پر یادداشت کے طور پر نوٹ کرلیں تاکہ مراجعت میں آسانی ہو۔ پوری کتاب کو ایک دو مرتبہ اس طریقے سے دیکھنے کے بعد کتاب کے موضوع، فن اور اس کے جملہ مندرجات سے کسی حد تک واقفیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کتاب کو رکھ دیں۔
کچھ دن تک اس پر غور و فکر کرتے رہیں، سوچتے رہیں اپنے ذہن میں خاکہ بناتے رہیں کہ اس کتاب میں خاص بات کون سی ہے؟
اور اس کتاب کا طرئہ امتیاز کیا ہے جس کا میں خصوصی طور پر ذکر کروں؟
جب یہ مضمون ذہن میں پک جائے بالکل تیار ہوجائے تو پھر کاغذ پر خاکہ بنائیں، رف لکھیں، اہم مقامات جن کو آپ نے پہلے سے ہی نشان زدہ اور خط کشیدہ کرکے ممتاز کیا ہوا ہے اسے ایک نظر پھر دیکھیں۔
جب کاغذ پر خاکہ بن جائے اہم باتیں نوٹ کرلی جائیں، خصوصیات نمبر وائز لکھ لی جائیں۔ اہم ترین پوائنٹ کو نمایاں کرلیا جائے تو پھر اللہ کا نام لے کر تمہید باندھیں۔ تمہید میں تعارف، تصنیف و تالیف کا ایسا پس منظر بیان کیا جاتا ہے، جس سے کتاب کے فن اور موضوع پر روشنی پڑتی ہو۔ اسی طرح تمہید اور ابتدائیے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ مستقل تصنیف شدہ کتاب ہے یا جمع کردہ مواد اور تالیف ہے؟
یہ ترجمہ ہے یا کسی متن کی شرح ہے؟ کالموں کا مجموعہ ہے یا کسی خاص اہم علمی موضوع پر لکھی گئی تحقیق ہے؟ کتاب کا پورا پس منظر اسی تمہید میں بیان کیا جاتا ہے۔
تبصرہ نگاری کا روایتی طریقہ:
تمہید و ابتدائیے کے بعد دوسرے حصے میں کتاب کے مقام اور مرتبے پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کتاب کے علمی، ادبی، سیاسی اور فنی باریکیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تبصرہ نگار اپنے آپ کو عادل قاضی اور منصف مزاج جج کی جگہ پر رکھ کر غیرجانبدار رہ کر منصفانہ اور بے لاگ تجزیہ کرتا ہے۔ کتاب کی خوبیاں اور خامیاں قارئین اور عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اگر اس اصول کو نہ اپنایا جائے تو تبصرہ نگار کی شخصیت اور ثقاہت مجروح ہوجاتی ہے اور عوام اسے جانبدار تصور کرنے لگتے ہیں۔
تحریر کے آخری حصے میں عموماً کتاب، جلد، کاغذ، پیپر، چھپائی، طباعت، رنگ اور معیار جیسی کیفیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ناشر اور مصنف کو مشورے بھی دیے جاتے ہیں کہ وہ ان ان چیزوں کی اصلاح کرے، اور آیندہ ایڈیشن میں اصلاح و ترمیم اور اضافات میں فلاں فلاں باتوں کا خصوصی طور پر خیال رکھے، اور ان ان باتوں سے اجتناب کرے۔ سب سے شروع میں یا آخر میں کتاب کی عام قیمت، رعایتی قیمت، ناشر کا پورا نام، فون نمبر اور کتاب ملنے کے ایڈریس وغیرہ بھی لکھے جاتے ہیں۔.تبصرے کا جدید اسلوب:
یہ تو تھا کتابوں پر تبصرے کا اصل اور قدرے قدیم طریقہ کار۔ آج کل جدید طریقہ یہ چل رہا ہے کہ کتاب کا مصنف ازخود ہی تبصرہ لکھ کر کتاب کے شروع میں رکھ دیتا ہے۔ تبصرہ نگار یا مضمون نویس کاپی پیسٹ کرلیتا ہے۔ کتاب کے ورق الٹنے اور پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی جاتی۔ نہیں! ایسانہیں کرنا چاہیے۔ یہ مصنف، کتاب اور قارئین سب کے ساتھ ناانصافی والی بات ہے۔
مضمون نگار کالم اور مضمون کے انداز میں بھی تبصرے کر رہے ہیں۔ اس میں عموماً مصنف اور کتاب دونوں کی خوبیاں بیان کردی جاتی ہیں۔ تبصرے کے اصول، قواعد اور مقاصد کو مدنظر نہیں رکھا جارہا، بلکہ جس کالم نگار، مضمون نویس، رائٹر کو جو کتاب بھی اچھی لگے، پسند آجائے وہ اس پر کالم لکھ دیتا ہے۔ آپ خود سوچیں جب کسی ثقہ اور مشہور کالم نگار نے کسی کتاب کا ذکر اپنی کسی تحریر میں کردیا تو اس کے چاہنے والے اس پر اعتماد کرکے وہ کتاب خرید لیں گے، پڑھنے کے بعد پتہ چلے گا کہ اس میں تو کوئی ایسی خاص بات نہیں جس کا ذکر کالم نگار نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ وہ تعریف تو جھوٹ پر مبنی تھی، اور پھر….!!
تبصرے اور تقریظ میں فرق:
ایک اور بات یاد رکھیں کہ تبصرے اور تقریظ میں فرق ہوتا ہے۔ اگرچہ تقریظ، مقدمے اور پیش لفظ میں بھی انہی اصولوں کو اپنانا چاہیے جو تبصرے کے لیے ہیں کیونکہ تقریظ، مقدمہ اور پیش لفظ لکھوانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جائے۔ یہ صرف نظری بات ہے، عملاً ایسا نہیں ہورہا ہے۔
عملاًیہ ہورہا ہے کہ تقریظ میں تقریظ لکھنے والا شخص مصنف اور کتاب کی تعریفیں ہی کرتا ہے اس کی خوبیاں ہی گنواتا ہے۔ بعض حضرات تو بے جا طور پر کتاب اور مصنف و مو ¿لف کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے کو بھی عار نہیں سمجھتے، دیانتداری کے اصول کو بھول بھال کر جھوٹی خوبیاں ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ جو بات حق اور سچ ہو وہی کرنی چاہیے، کیونکہ تبصرہ ہو یا تقریظ، مقدمہ ہو یا پیش لفظ قارئین کی عدالت میں گواہی دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ تقریظ کے معاملے میں بھی اعتدال ہی اختیار کرنا چاہیے۔
کتابیں ہی کیا آپ جس چیز اور جس کام پر بھی تبصرہ کریں، تنقید کریں، نقد کریں، تجزیہ کریں ان سب میں سچ کا ساتھ دیں اور انصاف کا دامن نہ چھوڑیں۔ افراط و تفریط سے کام نہ لیں۔ اعتدال اختیار کریں۔ جہاں تنقید کی ضرورت ہو کھل کر تنقید کریں، جو تعریف کا مستحق ہے اس میں بخل سے کام نہ لیں۔
صحافت کے میدان میں نوواردوں کو چاہےے کہ وہ دیگر کاموں اور مصروفیات کے ساتھ ساتھ تبصرہ نگاری کا فن سیکھنے پر بھی توجہ دیں۔ ابتدا میں مشق کے طور پر آپ ہر ہر چیز اور ہر ہر کام پر تبصرہ کریں۔
مشہور ادیب، شاعر اور دانشور جناب عطاءالحق قاسمی کہتے ہیں کہ میں اپنی کالج لائف میں ہر چیز پر تبصرے کیا کرتا تھا حتیٰ کے لڑکیوں کے ناکوں، جوتوں اور ان کے چلنے کے اسٹائل پر بھی تبصرے کیا کرتا تھا۔
یقینا شروع شروع میں اس میں دقت اور مشکل پیش آئے گی لیکن جب آپ مطالعے، معلومات، حاضرجوابی، عمیق نظری، تیز طراری، قادر الکلامی اور ذہانت سے کام لیں گے تو رفتہ رفتہ آپ کو تبصرہ نگاری اور نقد و تنقید کا فن بھی آنے لگے گا۔
یاد رکھیں! یہ تبصرہ کرنا اور یہ تبصرہ نگاری کا فن لکھنے لکھانے کے دیگر کئی کاموں میں آپ کی مدد کرے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ سیاسی کالم نگار بننا چاہتے ہیں تو اس میں بھی تو سیاست پر تبصرہ و تجزیہ کیا جاتا ہے۔ دیکھیں! تبصرہ ہر چیز اور کام پر ہوتا ہے، شخصیات پر بھی ہوتا ہے اور حالات پر بھی۔ صدرِ مملکت پر بھی ہوتا ہے اور رکشہ ڈرائیور پر بھی۔ کتابوں پر بھی ہوتا ہے اور جرابوں پر بھی قدرِ مشترک تبصرہ ہے۔ آپ کو صحیح تبصرہ اور تجزیہ اسی وقت آئے گا جب آپ ہر چیز اور ہر کام پر تبصرہ کرنے کی عادت ڈالیں گے۔
یہ چند دنوں مہینوں اور سالوں کی مشق آگے چل کر آپ کو ایک اچھا ادیب، عمدہ انشا پرداز، ثقہ تجزیہ نگار، ماہر دانشور، صاحب طرز مضمون نویس، خوبصورت اینالسٹ اور غیرجانبدار صحافی اور جرنلسٹ بنادے گی۔ تو آج ہی سے تبصرے کا آغاز کیجیے۔ تبصرے کرتے رہیں، آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ غلط تبصرے کرتے کرتے صحیح تبصرے کرنے لگ جائیں گے ان شاءاللہ!
“