مولانا وحیدالدین خان بھارت معروف مسلمان مذہبی سکالر ہیں۔95 سالہ مولانا وحیدالدین نے اپنے ذہنی سفر کا آغاز قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی ہند سے وابستگی سے کیا تھا۔ چند ہی سال بعد وہ جماعت اسلامی کی سیاست اور مولانا مودودی کی مذہبی فکر سے مایوس ہوکر تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے۔ مولانا وحیدالدین خان تبلیغی جماعت سے بھی زیادہ عرصہ تک وابستہ نہ رہ سکے اور 1970 میں اسلامی مرکز کے نام سے اپنا علیحدہ مرکز قائم کرلیا اور اپنی دینی فکر کی ترویج و اشاعت کے لئے 1976 میں ماہنامہ رسالہ’الرسالہ‘ کے نام سے جاری کیا جو باقاعدگی سے شایع ہوتا ہے۔ بعدازاں انھوں نے الرسالہ کے انگریزی اور ہندی ایڈیشن بھی جاری کئے۔ الرسالہ مولانا کی تحریروں کے لئے وقف ہے اور اس میں مولانا کی دینی اور سیاسی فکر کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ مولانا زود نویس ہیں انھوں نے دو سوقریب کتابیں لکھی ہیں۔ انھیں بھارت سرکار کی طرف سے پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے اور امن اور مذہبی ہم آہنگی کے لئے ان کی خدمات کی بدولت انھیں کئی ایک بھارتی اور بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ایوارڈز دیئے ہیں۔ پیرانہ سالی کے باوجود آج کل انٹر نیٹ پر لیکچر دیتے ہیں۔ مولانا نے ویسے تو اسلام، امن اور مذاہب کے مابین پرامن بقائے باہم کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں لیکن ان کی دو کتابیں بہت اہم ہیں: ایک جو انھوں نے مولانا مودودی کے تصور اسلام کے بارے میں ’تعبیر کی غلطی‘کے عنوان سے لکھی ہے اور دوسری کتاب جس پر پاکستان میں پابندی عائد ہے شتم رسول کا مسئلہ:قرآن وحدیث کی روشنی میں ہے
مولانا وحیدالدین خان کا مولانا مودودی پر اعتراض ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر وتشریح اس طریقے اور انداز سے کرتے ہیں جس سے ان کے سیاسی موقف اور حکمت عملی کا جواز پیدا ہوسکے۔ مولانا وحیدالدین خان اسلام اور سیاست کے باہمی اختلاط کے مخالف ہیں۔ وہ اسلام کو ایک دعوت سمجھتے ہیں نہ کہ سیاست۔ان کے اسلام کا مقصد بنی نوع انسان کو اللہ کی حاکمیت اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی دعوت دینا ہے۔ داعی اپنے مدعو سے کبھی ناراض اور بیزار نہیں ہوتا خواہ مدعو جتنی مرضی بے رخی اور ناراضی کا اظہا کرے۔مولانا توہین مذہب کی سزا سر تن جدا درست خیال نہیں کرتے ان کے نزدیک یہ سزا قرآن و حدیث کے احکامات سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے اس سزا کو اسلامی قطعا نہیں کہا جاسکتا۔
مولانا کے تصور اسلام کو بھارت جیسے کمپوزٹ کلچر کے حامل ملک کے سیاسی اورسماجی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اقلیت میں ہونے کی بنا پر انھیں اسلام کا ایساتصور سوٹ کرتا ہے جو امن، رواداری اور مذہب کی بنا پر تفریق کو مسترد کرتا ہو۔
ہند پاک ڈایری بھی مولانا کے مذکورہ خیالات و نظریات کا اعادہ ہے۔مولانا لکھتے ہیں کہ ملک کا بٹوارہ ہندووں اور مسلمانوں نے نہیں کروایا۔ بلکہ ہندووں اور مسلمانوں کے کچھ لیڈروں نے کروایا۔ یہ دو فرقوں کے عوام کا مسئلہ نہیں تھابلکہ وہ کچھ لیڈروں کا مسئلہ تھا جنھوں نے عوام کے نام پر اپنی لیڈری کو فروغ دیا(صفحہ48)ان کے نزدیک کشمیر کا مسئلہ ابتدائی طور پر بہت سادہ تھا اور وہ بات چیف کی میز پر حل ہورہا تھا اس کے باوجود پاکستانی لیڈر کیوں اس کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی وجہ مولانا کے نزدیک پاکستان کے لیڈروں کی سیاسی حرص تھی۔ وہ عجیب و غریب طور پر اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ حیدرآباد اور کشمیر کو پاکستان میں شامل کرلیں گے۔(صفحہ 46)
مولانا مذاہب کے مابین مشترکہ نکات تلاش کرنے کو کار لاحاصل خیال کرتے ہیں ان کے نزدیک مذہبی یکسانیت مذہبی رواداری کی ضرورت ہے۔اہل مذاہب کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا راز باہمی اعتراف میں نہیں بلکہ باہمی احترام میں ہے۔یہ کہنے کی بجائے کہ تمام مذاہب ایک اور یکساں ہیں مذاہب کے ماننے والوں کے مابین برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
مولانا سمجھتے ہیں کے موجودہ حالات میں پورے برصغیر کے لیے واحدقابل عمل سیاست وہ ہے جس کو سیکولر سیاست کہا جاتا ہے۔یعنی ریاست اور سیاسی سرگرمیوں کا موضوع و مرکز صرف ان امور کو بنایا جائے جو مشترک دنیاوی امور ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے شہریوں کو تعلیم یافتہ بنانا، ملک کو معاشی طور پر ترقی دینا۔ شہریوں کی خوشحالی اور معاشی آسودگی کے لئے اقدامات کرنا۔ قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کی منصوبہ بندی کرنا، ملک میں امن و امان کی صورت حال ہمہ بہتر بنانے کی کوششیں کرنا اور جدید انفراسٹکچر کی تعمیر وغیرہ۔
مولانا کہتے ہیں کہ مسلمان قیادت نے ہماے معاشرے کا جو ماحول بنایا تھا وہ کیا تھا۔۔ سطحی سیاست آزادی کے کھوکھلے نعرے، ادب و شاعری، داستان امیر حمزہ اور الف لیلی جیسی کہانیوں کی کتابوں کو پرھنا، فرضی قصے کہانیاں سننا اور سناناوغیرہ۔کم وبیش پورا مسلم سماج ہمارے رہنماوں کے پیدا کردہ اسی قسم کے ماحول میں جی رہا تھا۔ گھر کے ماحول سے نکل کر جب میں عربی اور دینی تعلیم کے لئے مدرسہ میں پہنچا تو وہاں بھی عین یہی ماحول تھا۔حتی کہ اس زمانہ میں مسلم رہنماوں نے جدید تعلیم کے نام پر جو ادارے بنائے وہاں بھی حقیقی معنوں میں سائنسی ماحول کا کوئی وجود نہ تھا۔ پہلی بار جب میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ گیا اور وہاں سرسید روم کو دیکھا تو مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ سرسید انیسویں صدی کے نصف آخر میں جب لندن گئے تو وہاں کی سب سے قیمتی چیز جو انھوں نے ہندوستان لانے کے قابل سمجھی وہ قدیم وضع کا ایک صوفہ سیٹ تھا وہاں سے وہ نہ کوئی مشین لائے اور نہ ہی کوئی سائنس کی کتاب۔ اس دور میں پوری دنیا کے لوگ سائنسی ایجادات کرنے میں مصروف تھے اور برصغیر کے لوگوں کے اذہان پر بالکل مختلف چیزیں چھائی ہوئی تھیں (صفحہ 34)
مولانا مسلم سیاسی اور مذہبی قیادت کے زبردست ناقد اور مسلمانوں کی موجودہ معاشی اور سماجی حالت زار کا ذمہ دار اس قیادت کی جذباتیت کوقرار دیتے ہیں