طبقۂ مفکرین اقلیت کا نمائندہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانیت کو کسی عقلی نکتے پر اکھٹا کرنا ناممکن ہے جبکہ کسی جذباتی نکتے پر جمع کرنا نہایت آسان۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب جو بنیادی طور پر انسانیت میں اتحاد اور عالمگیر محبت کا داعی ہے، انسانوں کو جذباتی سطح پر متحد کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس عقل کے تحت پرورش پانے والے ایسے نظام ہائے حیات جن کا منتہائے مقصود کسی عقلی نکتے یا نکات پر معاشرے کی تدوین ہے، منطقی طور پر ناممکن الحصول ہیں۔ مثال کے طور پر ’’فریڈم آف سپیچ‘‘ یعنی ہر ’’انسان کو بولنے کی آزادی ہے‘‘، ایک ایسا عقلی نکتہ ہے جس پر عہدِ حاضر کے دانشور بظاہر متفق نظر آتے ہیں، فی الاصل ناممکن الحصول ہے۔ عین ریاضیاتی منطق کے تحت چند افراد کی فریڈم آف سپیچ اور کروڑوں لوگوں کی فریڈم آف سپیچ میں تصادم پیدا ہوجاتاہے۔ اس سے پیدا ہونے والا سب سے بڑا پیراڈاکس ’’آزادیٔ رائے‘‘ سے متعلق ہے۔ فرض کریں، کل کو پاکستان میں ایک کمیونسٹ پارٹی میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آجاتی ہے ۔ تو وہ چونکہ کمیونسٹ پارٹی ہے سو وہ شاید قراردادِ مقاصد یا آئین میں اسلامی شقوں کو ختم کردے۔ تب عوام میں ’’منبر میڈیا‘‘ کے ذریعے پھر سے کانفلکٹ جنم لے گا جوکہ آزادیِ رائے کے اعتبار سے زیادہ بڑی اکثریت کی صورت ظاہر ہوگا۔ یہ پیراڈاکس کبھی ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ انسانوں کی اپنی ذاتی آرأ پر ہمیشہ چند مخصوص لوگوں یا طبقوں کی آرأ حاوی رہتی ہیں۔ اس لیے کبھی بھی کسی عقلی نکتے پر لوگوں کو متحد نہیں کیا جاسکتا۔
عقل کی بنیاد پر کبھی بھی کوئی نظام نافذ ہو تو وہ چند صاحبانِ عقل کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتاہے فلہذا خود اپنی بُنَت میں وہ اقلیت کی تخلیق ہے جو اکثریت کو قائل کرتی ہے کہ فُلاں فُلاں طریقے سے معاشرہ بناؤ! جمہوریت ہو یا اشتراکیت اِن نظاموں کے خالقین کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اِن نظاموں کو عوام نے مرتب نہیں کیا، خواص نے کیاہے۔ یہیں سے تسلی ہوجاتی ہےکہ اشرافیہ اپنے کھیل کے قوانین خود مقرر کرتی ہے۔ اس کے برعکس مذہب، سائنس کے بقول، نہ کہ مذہب کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ مذہب کے پاس ’’وہ نظام ہوتاہے جو عامۃ الناس نے ازخود بنایا ہوتاہے، کوئی وحی آسمانوں سے نازل نہیں ہوتی‘‘۔ ایسا نظام، نظامِ جمہوریت یا اشتراکیت سے ہزار گنا بہتر ہے کیونکہ عوامی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ طبقۂ مفکرین ہمیشہ اشرافیہ کا یا اقلیت کا نمائندہ ہوتاہے، منطقی اعتبار سے درست رائے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مذہب انسانوں کی عقل کو مخاطب تو کرتاہے لیکن اس لیے کہ انسان جذباتی فیصلوں کے وقت ’’ہیجان اور سچے جذبات‘‘ کے درمیان فرق کرسکیں جبکہ مذہب کی باقی، تمام ترتوجہ فقط انسان کے جذبات پر مرکوز رہتی ہے۔ کیونکہ تمام کی تمام انسانیت کو کسی بھی جذباتی نکتے پر جمع کرنا نہایت آسان ہے۔ کسی کا ایک آنسو دکھا کر، بیک وقت سارے کے سارے انسانوں کو رُلایا بھی جاسکتاہے اور کسی کی ایک مسکراہٹ دکھا کر سارے کے سارے انسانوں کو ایک ساتھ ہنسایا بھی جاسکتاہے۔ چنانہ جب تمام انسانوں کو متفق دیکھنے کا خواب پورا ہوسکتاہے تو کیوں نہ اس عالمگیر توانائی سے فائدہ اُٹھایا جائے اور انسانیت کو صادق رُوحانی کیفیات کے تحت متحد کردیا جائے۔ محبت فاتحِ عالم ہے اور یہ بات بغیر کسی گہری بصیرت کے انسانوں کو روزِ اوّل سے معلوم ہے۔ اس کے برعکس کسی بھی عقلی نکتے پر ، کبھی بھی، کہیں بھی، انسانوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ مذہب انسانی جذبات کی رہنمائی کرتاہے۔اور یہی وجہ ہے کہ شریعت ’’عمل‘‘ اور طریقت، کیفیات کی تشکیل کی میں مصروف رہتی ہیں۔
خیر! اگر یہ جذبات محبت کے ہوں تو مذہب کی جِیت ہوتی ہے اور اگر نفرت کے ہوں تو ہار۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“