پہلے ان دونوں بیانات کا جائزہ لیجئے —
بھارت میں کورونا پھیل نہیں رہا بلکہ پھیلایا جا رہا ہے اس کی تازہ مثال نظام الدین سے ملے چودہ سو سور ہیں .
— راہل کمار ( فیس بک )
نظام الدین میں لوگ چھپے ہوتے ہیں لیکن ماتا ویشنو دیوی مندر میں پھنسے ہوتے ہیں
— پروفیسر خالد مبشر ( فیس بک )
پہلا بیان ارون کمار کا ہے .یہ نام فرضی ہے یا نہیں ، اس سے کویی فرق نہیں پڑتا . اس طرح کے بیانات بلکہ اس سے بھی زیادہ فحش بیانات مسلمانوں کے خلاف سوشل ویب سائٹ پرچھاہے ہوئے ہیں . خالد مبشر نے چھپے اور پھنسے کے فرق کو ظاہر کیا ہے . یہ بات صاف تھی کہ کورونا کے دونوں میں بھی سوشل میڈیا ، گوڈی میڈیا کو ایک بڑی چونکانے والی مسلم مخالف خبر کی ضرورت تھی .اور وہ انھیں آسانی سے نظام الدین کے حوالہ سے مل گیی . بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں نے بھی سیکولرزم کے دروازے کو کھول دیا اور تبلیغی جماعت والوں پر برس پڑے . کیا تبلیغی جماعت میں جاہل لوگ آتے ہیں ؟ یہ نہ بھولے کہ ان میں ڈاکٹر ، انجینئیر اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو شاہانہ منصب پر ہیں . کیا ہندوستان بھر کے مندروں میں کورونا سے دہشت زدہ لوگوں نے پناہ نہیں لی ہے ؟ کیجریوال اور مودی سروے کریں تو حقیقت آشکارا ہو جائے گی . لیکن کیوں کراہیں گے سروے ؟ کیوں لیں گے جائزہ ؟
جب پہلی بار یہ خبر مجھے ملی ، اس وقت بھی میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں سے اتنی بڑی غلطی نہیں ہو سکتی .اب کچھ باتوں کو دیکھئے . حکومت نے اچانک لاک داؤن کا اعلان کیا . تقسیم کے بعد سب سے بڑی ہجرت مزدوروں کی شکل میں سامنے آیی . کیی مزدور راستے میں دم توڑ گئے . یہ ہجرت ابھی بھی جاری ہے . مودی نے معافی مانگ لیا جو سب سے آسان کام تھا . جو مر گئے ؟ جو کورونا کے وائرس اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں ، انکا کیا ہوگا ؟ گاؤں کے دروازے بھی ایسے مزدوروں کے لئے بند کر دے گئے ہیں . اپنے ہی ملک میں یہ پہلی ہجرت ہے اور تاریخ اس ہجرت کے لئے حکمران طبقے کو کبھی معاف نہیں کریگی . لیکن ہجرت کرنے والے مزدوروں سے میڈیا کا کویی زیادہ تعلق نہ تھا .ویسے بھی حکومت سے ملنے والی امداد نے میڈیا والوں کے اندر سے سکھ دکھ کو سمجھنے ، ہمدردی کے احساس ، دردمندانہ جذبات کو ختم کر دیا ہے . اب بھارتی میڈیا کو گرم تندوری خبر کی ضرورت تھی . کیا نظام الدین ، تبلیغی جماعت والوں نے حقیقت میں غلطی کی تھی ؟ میں یہی سوچ رہا تھا . پھر مجھے خیال آیا کہ جب لاک داؤن کا فرمان جاری ہوا تو تبلیغی جماعت کے مرکز کو پولیس تھانے ، ایس پی ڈی ایم کو خبر تو کرنا چاہیے تھی . حالات نازک ہیں .یہ غلطی کیسے ہوئی ؟ پھر سارا معاملہ سامنے آیا .نظام الدین دہلی سے تعلق رکھنے والے تبلیغی مرکز کے مولانا یوسف صاحب نے 25 مارچ 2020 کو انتظامیہ کو ایک خط لکھا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہمرکز سے 1500 افراد باہر بھیج دیے گئے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے قریب 1000 افراد اب بھی وہاں موجود ہیں اور ان کے لئے گاڑی پاس جاری کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی گاڑیوں کی فہرست بھی رکھی گئی تھی لیکن انتظامیہ نے گاڑیوں کے پاس جاری نہیں کیے۔ اس طرح یہ غلط الزام لگایا جارہا ہے کہمرکز کمیٹی نے حکومت کے احکامات پر عمل نہیں کیا .
اب دوسرے سوال پر آئے اورسمجھئے . میڈیا اور حکومت آپ کا ساتھ کیوں دے گی ؟ ہم جس منطق اور دلائل کے ساتھ خود کو صحیح اور سیکولر اور جمہوریت نواز سمجھ رہے ہیں ، ان ہی دلیلوں کی روشنی میں میڈیا اور آر ایس ایس اور حکومت خود کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے .
اب ایک بات اور .آر ایس ایس سپریمو نے کہا تھا ، نیشنلزم کے معنی بدل چکے ہہیں . چھ برس میں لبرلزم ، سیکولرزم کے معنی بھی بدل چکے ہیں .ہم جس سیکولر ہندوستان اور جمہوریت کو آیینی حقوق میں تلاش کرتے ہیں ، انکے پاس یہ آیین منو اسمرتی کی شکل میں ہے . وہ ہندو راشٹر کے لئے سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچے کو توڑ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں . یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کے منی فیسٹو سے بھی جمہوریت اور سیکولرزم کے الفاظ غایب ہو چکے ہیں . تازہ مثال کجریول کی ہے . اننا ہزارے کے مشن سے سیاست کی بنیاد رکھنے والے کجریول اب وہیں پہنچ گئے جہاں امیت شاہ ہیں . کیجریوال نے بغیر تاخیر اور وجہ جانے بغیر پولیس کو اپنی منظوری دے دی .
مسلمانوں نے بھی سوشل ویب سائٹ پر زہر اگلنا شروع کر دیا . میں ذہنی طور پر تبلیغی جماعت والوں سے مطابقت نہیں رکھتا مگر اس وقت ضروری ہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں . سنگھ کی ہزاروں شاخیں ہیں . ہندو مت میں ہزاروں دیوی دیوتا ہیں .انکے مندر بھی پورے ہندوستان میں نظر آییں گے . اچانک لاک داؤن کے بعد بڑے بڑے منادر میں ہزاروں لوگ تو مل ہی جائیں گے . لیکن یہ پھنسے ہوئے لوگ ہیں .تبلیغ والے مسلمان ہیں اس لئے چھپے ہوئے وائرس زدہ دہشت گرد ہیں . اور آخر میں ادب — ہمارے ادیب ان چکروں میں نہیں آتے . وہ وبا کے سنگین دنوں میں وبا پر کہانیاں ، شاعری یا ناولوں کی تلاش میں رہتے ہیں . گول گول گھومتے فلسفوں کے جال انہیں متاثر کرتے ہیں . وہ اس بڑی دنیا سے کنارے رہنا چاہتے ہیں ، جہاں ایڈز ہے ، کینسر ہے ، کورونا ہے اور دنیا کی دوسری حقیقتیں . ان حقیقتوں سے الگ وہ اب بھی ادب کی تعریف و تشریح میں الجھے ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ ان کی سادگی ، ان کی معصومیت پر کتنا بڑا خطرہ منڈرا رہا ہے .
تبلیغی جماعت ہو ، ڈاکٹر کفیل یا ایسے بہت سارے ، افسوس کہ ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں . ایک بڑے بی مشن کو ( جس کی وضاحت میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے ) بے حس ، بے ضرر ، معصوم مسلمانوں کی ضرورت ہے جو انکے آلۂ کار ثابت ہو سکیں .