"۔۔۔ ہوائی اڈے پر پہنچے تو وہی ہو کا عالم تھا۔ ایئر پورٹ خصوصی طور پر صرف پاکستان جانے والے مسافروں کے لیے کھولا گیا ہے۔ جہاز میں کوئِی ڈیڑھ سو افراد کی گنجائش تھی جن میں نصف کے قریب تبلیغی جماعت کے رضاکار تھے۔ ان نیک لوگوں کی صحبت کے البتہ ضمنی اثرات بھی سارے راستے ہمیں بھگتنے پڑے۔ اول تو یہ کہ ہوائی اڈے کا واحد فعال غسل خانہ کسی چوبچے کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں سارے فرش پر ٹخنوں ٹخنوں پانی کھڑا تھا اور کاغذی رومال کے ٹکڑے ہر جانب بکھرے ہوئے تھے۔ ایک بیت الخلا کے دروازے کے نیچے سے بھل بھل پانی آرہا تھا۔ وہاں سے نکلنے والے باریش نوجوان سے، لاونج میں اس کا سبب پوچھا تو بتایا کہ مغربی طرز کے کموڈ پر بیٹھ کر طہارت کی جانب سے وہم رہتا ہے، چنانچہ فرش پر اکڑوں بیٹھ کر متعلقہ مقامات پر مسلم شاور کی دھاریں ماری جاتی ہیں۔ کاغذی رومال بکھیرنے کے سبب نکاس کی نالی کے سوراخ بند ہوجاتے ہیں اور راہ نہ پا کر طبع رواں کے نالے چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی بزرگوں کو منہ ہاتھ دھونے والے بیسن میں پانی کی تیز دھار تلے پاوں دھوتے اور اس کے نتیجے میں آس پاس کئی مربع گز تک پانی کا بھرپور چھڑکاو کرتے دیکھا۔
جہاز میں ہر سمت سے اٹھتی ہوئی فینائل کی بو سے یہ اطمینان ہوا کہ اسے حتی المقدور جراثیم سے پاک کیا گیا ہے۔ مسافر کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ تبلیغی بھائیوں کی ہوائی اڈے سے شروع ہونے والی کارکردگی جہاز میں بھی جاری رہی۔ قطار بنا کر نماز عصر کے لیے وضو تازہ کیا گیا۔ لیکن ایک اور مسافر جو شرعی امور میں کچھ دستگاہ رکھتے تھے، ایک تبلیغی بھائی سے بحث میں لگ گئے۔ انہوں نے جماعت میں ایک نسبتا معمر ساتھی سے گزارش کی کہ اگر وضو قائم ہے تو کافی رہے گا۔ اگر کوئی معذوری ہے توایسے حالات میں تیمم کی رخصت موجود ہے۔ بزرگ نے رسان سے جواب دیا کہ وہ تو ہے لیکن وضو کا الگ سے ثواب ہے۔
اس کے بعد بھائی لوگوں نے نشستوں کی درمیانی گزر گاہ پر قطاریں بنا کر پانچ پانچ چھے چھے کی جماعتوں میں نماز پڑھنا شروع کردی۔ جہاز کا عملہ اعلان کر کے تھک گیا کہ یہ عمل خطرناک ہے اور شرعی رخصت کے مطابق نشستوں پر ہی اشارے سے نماز ادا کرنے کی گزارشات ہوتی رہیں، لیکن یہ غازی، یہ پراسرار بندے کہاں اپنی اور دوسروں کی حفاظت کو خاطر میں لاتے تھے۔ بحث کے شوقین مسافر نے معمر تبلیغی بزرگ کو چھیڑنے کی خاطر کہا کہ باجماعت نماز میں تو شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ اس پر بزرگ نے جھٹ سے بتایا کہ مجبوری کے عالم میں اس سے رخصت ہے۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
غسل خانہ جب چھپڑ یعنی تالاب بن گیا اور استعمال کے قابل نہ رہا تو جہاز کے عملے نے اسے بند کردیا۔ اتنے میں مغرب کا وقت آن پہنچا تو پاکستانیوں کی بالعموم اور تبلیغی بھائیوں کی بالخصوص اپج کا ایک اور نظارہ دیکھنے کو ملا۔ غسل خانہ بند تھا لیکن بھائی لوگ اضافی شرح ثواب پر کہاں سمجھوتا کرتے ہیں۔ چنانچہ اچانک جہاز کے طول و عرض میں تھیلوں سے مشروبات کی دو لیٹر والی بوتلیں برامد ہوئیں جن پر پھوار پھیکنے والی وہ کل لگی ہوئی تھی جو گھروں میں استری کرتے ہوئے وتر لگانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
تبلیغی بھائیوں میں سے ایک اس بوتل سے چھڑکاو کرتا اور دوسرا اس چھڑکاو سے وضو کے فرائض پورے کرتا۔ یہ تو خیر گزری کہ کسی کو اس دوران استنجے کی ضرورت پیش نہیں آئی ورنہ خدا جانے کیا ترکیب آزماتے۔ نماز مغرب میں بھی وہی پرانا التزام، صف بندی سے شرعی رخصت کے زیرِ اہتمام دہرایا گیا۔ جہاز کے عملے کی گزارشات سے ان بھائیوں نے اتنا ہی اعتنا کیا جتنا بعض بد عقیدہ دوست تبلیغی گشت کے دوران گھر کی دہلیز پر دہرائے گئے دعوتی بیان سے کرتے ہیں۔ پرواز پاکستان کے وقت کے مطابق رات دس بجے کے قریب فیصل آباد کے ہوائی ڈگر پر اتری کہ یہی اس کی منزل مقصود تھی۔۔"