لالہ عیسیٰ خیلوی تو ویسے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔وہ اپنے ساتھیوں کے بچھڑ جانے کے غم کو ظاہر نہیں ہو نے دیتےاور اُس غم کو اپنے ’’دِل دریاسمندروں ڈُونگھے ‘‘میں چھُپا لیتا ہے ۔مگر ہمارے ساتھ مسئلہ اور ہے لالہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ محبت وعقیدت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ جُڑی ہَر چیز سے ’’محبت میرا ایمان ہے یارو‘‘والا معاملہ ہے ۔سو لالہ کے ساتھیوں کے بچھڑنے کا غم ہو یا اُن کا کوئی دُکھ سُکھ اپنا لگتا ہے۔
کسی کے بچھڑنا اور ایسابچھڑنا کہ جس نے واپس ہی نہ آنا ہو دیمک کی طرح زندگی کو چاٹ جاتا ہے ۔اورپھر کسی ایسے کا بچھڑجانا جس نے آپ کی زندگی میں خوشیوں ،راحتوں ،لطافت کے رنگ بکھیر ے ہوں ،جس نے آپ کی زندگی کی مسحور کُن بنایا ہو ،پُر کیف بنایاہو مدتوں غم ناک رکھتا ہے ۔اور ایک ایسا ہی آرٹسٹ دوست معروف طبلہ نوازسلامت علی خان گزشتہ برس 13مئ 2020ء کوہم سے ایسے بِچھڑا ہے جس کی جُدائی نے اَدھ مُوا کر دیا ہے ۔
سلامت علی خان کا تعلق ویسے تو گجرات کے علاقے ملک وال سے ہے لیکن ہم ان کا تعلق اپنی رُوح سے سمجھتے ہیں ۔معروف گائیک شوکت علی سلامت علی کے بہنوئی اور خالہ زاد بھائی تھے ۔لالہ کے ساتھ 84ئ میں سنگت کا آغاز ہوا اور پھر یہ تعلق طویل رفاقت میں تبدیل ہو گیا ۔سلامت علی خان 2002ئ میں لندن منتقل ہو گئے تھے اور وہاں اپنا کاروبار شروع کیا اور جلد ہی واپس لوٹ آئے ۔صاحبِ اولا د ہیں اور بچے مختلف جابز کرتے ہیں ۔
سرائیکی کے شہنشاہ ئِ لوک موسیقی لالہ عطائ اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی سٹیج پُرفارمنس میں سلامت علی کا کردار بہت ہی جاندار ہوتا تھا سٹیج پر لالہ کے ساتھ ڈھولک پر جاوید جیدی اور طبلہ پر سلامت علی کی جوڑی گیتوں کے درمیان مختلف شعروں پر جب ’’ہَلالا۔۔۔ہَلالا‘‘سے داد دیتے تو نہ صرف لالہ ترنگ میںآجاتے بلکہ پنڈال بھی ترنگ میں آکر محوِرقص ہو جاتا ۔سٹیج پر بیٹھتے ہی لالہ عیسیٰ خیلوی اپنے ساتھیوں کا تعارف کرواتے تو سب سے پہلے سلامت علی خان کا تعارف کراتے ’’میڈے نا ل طبلے تے ہِن سلامت علی خان ‘‘ ویسے یہ کریڈٹ لالہ کو ہی جاتا ہے کہ اُن سے پہلے میوزیشنز کو سٹیج پر کم ہی بٹھایا جاتا تھا اور تعارف تو دور کی بات تھی ۔لالہ نے نہ صرف میوزیشنز کو سٹیج پر اپنے ساتھ بٹھایا بلکہ اُن کا تعارف بھی ضروری سمجھا ۔یہی وجہ ہے کہ لالہ کے پرستاروں نے اُن کے سازندوں کو بھی سَر آنکھوں پر بِٹھایا ۔
لالہ کے ساتھ ویسے تو بہت سارے سازندوں نے کام کیا مگر جو ٹیم صابر علی ،بابر علی ،سلامت علی ،استاد اختر حسین ،اور مرحوم سوالکھ پر مشتمل تھی نے کام کیا شاید ہی کسی اور نے کیا ہو ۔اِن میں سلامت علی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ لالہ کے قریب ترتھے ۔لالہ نے گائیکی کے دوران جتنا پُر لطف سلامت علی کے ساتھ پُرفارم کیا ہے میرے خیال میں کسی اور کے ساتھ نہیں گزشتہ برسوں ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں لالہ اور سلامت علی خان اکیلے پُرفارم کر رہے ہیں گیت تھا ’’دوروں دوروں سانوں ترساندے او‘‘اس ویڈیو کو جتنا شائقین نے دیکھا ہے وہ ایک ریکارڈ ہے ۔ سرائیکی زبان کے فروغ میں سرائیکی گیتوں کا اہم کردار ہے اور اِن گیتوں کے فروغ کا سہرا لالہ عطا عیسیٰ خیلوی کے سر جاتا ہے ،لالہ نے جب گائیکی کا آغاز کیا تو سرائیکی زبان کے گیتوں کے ایک ذخیرہ موجود تھا مگر اس ذخیرے کو دنیا کے سامنے لانے والا کوئی نہیں تھا ۔
لالہ جی کی خوبصورت آواز نے ان سرائیکی گیتوں کو دنیا میں پیش کیا۔سٹیج پر جہاں لالہ کی مسحور کن آواز نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا وہاں سلامت علی کی طبلہ نوازی نے نے بھی لوگوں کو اپنا معترف کیا ۔لوک ورثہ کا پروگرام آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی لوگ اسی شوق سے سُنتے ہیں جیسے روزِ اول کو۔لوک ورثہ میں سلامت علی نے جس طرح طبلہ نوازی کی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی اس شاندار پرفارمنس نے اس پروگرام کو یاگار بنانے میں بھی اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے ۔ سلامت اور جیدی کی پُرفارمنس اور ’’ہَلا لا۔۔ہَلا لا ‘‘کے شور سے محفل پُرلُطف ہوجاتی تھی لوک وِرثہ کے پروگرام میں ایک گیت ہے ’’میکوں چولا سِواڈے ‘‘آپ اُس میں دیکھیں تو اس کے انترے ’’کھول سَٹاں میں چولے دیاں تَنڑیاں‘‘پر پردیس سے آئی ایک مہمان خاتون پنڈال میں ’’جھُومر‘‘ڈالنے لگ جاتی ہیں ۔سیکورٹی کے اہل کار گھیرا ڈال کر عوام کو ہَٹاتے ہیں لالہ فوری طور پر گیت کو ختم کر دیتے ہیں ۔اسی طرح کے بے شمار گیت ہیں جن میں سٹیج پر سلامت اور جیدی کی ایسی مشترکہ ’’ہُنر مندانہ حرکتوں ‘‘سے محفل کا رنگ دوبالا بعض دفعہ چار بالا ہو جاتا ۔ ۔ سلامت علی کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ہُنر میں یکتااور منفرد تھے ۔محفلوں میں اپنی طبلہ نوازی سے جا ن ڈال دیتے تھے ،روائیتی طبلہ نوازی سے ہَٹ کر پُرفارم کرتے تھے ۔فوک کو اوربھی دلدادہ بنا دیتے تھے.
انہوںنے سرا ئیکی گیتوں میں ’’منفرد ٹھیکے‘‘استعمال کیے ۔بقول افضل عاجز فنِ رِدھم کو ایک نے جہان سے متعارف کرایا ۔جہاں جہاں لالہ گئے سلامت علی تقریباََساتھ ساتھ ہی رہے لالہ کے وفادار ساتھیوں میںان کا شمار کیا جاتا ہے ۔محفلوں میں ایسی جان ڈالتے کہ پردیس میں جہاں لوگ زبان بھی نہیں جانتے تھے وہاں کے گورے بھی لالہ کے سامنے ڈانس کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ سلامت علی نہ ہی سرائیکی تھے اور ن ہی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھتے تھے مگر سرائیکی گیتوں کو جو ردھم انہوںنے دیا سرائیکی گیت امر کردیے ۔رہتی دنیاتک سرائیکی وسیب،سرائیکی موسیقی اور سرائیکی گیت نگاری سلامت علی کے فن کی معترف رہے گی ۔
میں یہ تحریرلِکھ رہا ہوں تو میرا چھوٹا بیٹا رفعت محمود میرے موبائیل پر یو ٹیوب پر 86ءکی ایک لالہ کی ویڈیو کو دوبارہ پلے کر چکا ہے ۔افضل عاجز کمپئیرنگ کررہے ہیں ۔لالہ کو ویلکم کرچکے ہیں اور لالہ عوام سے مخاطب ہیں ’’میں گیت تو پہلوں اپنے ساتھیاں داتعارف ضروری سمجھداہاں ۔۔میڈے نال طبلے تے ہِن سلامت علی خان ‘‘اور سلامت علی خان طبلے کارِدھم بجارہے ہیں ۔اور میرے لیپ ٹاپ کا کی بورڈ میرے آنسوئوں کا سنبھال رہا ہے ۔ میراپیارارب ۔سلامت نے لوگوں کی زندگیوں کو رونق بخشی ،سکون دیا ،میرے اللہ اس کی قبر کو منور فرمانا اس کی آخری زندگی کو پُرسکون بنانا ۔۔۔اس کی لحد پر رحمتیں نازل فرمانا۔
(سلامت علی صاحب کی 13مئ کو برسی ہے)