آج – ٢٣؍ستمبر ٢٠٠٤
معروف پاکستانی شاعر” تابشؔ دہلوی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام مسعود الحسن اور تابشؔ تخلص تھا۔ان کا پہلا تخلص مسعود تھا۔ ۱۱؍نومبر ۱۹۱۱ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ بعد ازاں اپنے نانا کے پاس حیدرآباد، دکن چلے گئے۔ پہلی ملازمت پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف، حیدرآباد ،دکن میں کی۔ بعد میں پطرس بخاری کے توسط سے ۱۹۴۱ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان ، کراچی کے نیوزسکشن سے منسلک ہوگئے۔انھوں نے ۱۹۵۸ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تابش دہلوی نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۶۳ء تک ۲۳سال مسلسل اردو کی خبریں پڑھیں۔ ۱۹۲۳ء سے شاعری کی ابتدا ہوئی۔ فانی بدایونی سے اصلاح لی۔ غزل، نظم ،نعت، قصیدہ اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔ تابش دہلوی کراچی میں سکونت پذیر رہے۔ انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں حکومت پاکستان کا صدارتی ایوارڈ’’تمغۂ امتیاز‘‘عطا ہوا۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’نیم روز‘‘، ’’چراغ صحرا‘‘ ، ’’غبار انجم‘‘،’’تقدیس ‘‘، ’’ماہ شکستہ‘‘، دیدباز دید‘‘(خود نوشت)، ’’دھوپ چھاؤں‘‘۔
۲۳؍ ستمبر ۲۰۰۴ء کو ۹۳ سال کی عمر میں کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:26
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر تابشؔ دہلوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
شاہوں کی بندگی میں سر بھی نہیں جھکایا
تیرے لیے سراپا آداب ہو گئے ہم
—
آئینہ جب بھی رو بہ رو آیا
اپنا چہرہ چھپا لیا ہم نے
—
ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی
کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے
—
شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے
کیا کیجیئے کہ دن ہیں ابھی تک بہار کے
—
غم ہستی سے بے نیاز سہی
اہلِ دل پھر بھی درد مند رہے
—
زندگی مرگِ مسلسل ہے مگر اے تابشؔ
ہائے وہ لوگ جو جینے کی دعا دیتے ہیں
—
سب غم کہیں جسے کہ تمنا کہیں جسے
وہ اضطرابِ شوق ہے ہم کیا کہیں جسے
—
کشاکش غم آزادیٔ و اسیری میں
ہر آشیاں پہ کوئی عالمِ قفس گزرا
—
کیا ارتباطِ حسن و محبت کی ہو امید
وہ جانِ شوق ہم سے کم آمیز ابھی سے ہے
—
ٹوٹ کر عہدِ تمنا کی طرح
معتبر ہم رہے فردا کی طرح
—
جرم نظارہ کی پاتا ہے سزا دل اب تک
اہلِ دل دیکھ لیا اہل نظر دیکھ لیا
—
یہ راز کھول دیا تیری کم نگاہی نے
سکوں کی ایک نظر درد کے بہت پہلو
—
پابندیٔ حدود سے بیگانہ چاہئے
داماں بقدر وحشت دیوانہ چاہئے
—
یوں نقاب رُخِ مقابل سے اٹھی
چشمِ صد نظّارۂ مشکل سے اٹھی
—
باغ میں جوشِ بہار آخر یہاں تک آ گیا
بڑھتے بڑھتے شعلۂ گُل آشیاں تک آ گیا
—
بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو
طلب ہے شرط سکوں کے ہزار ہا پہلو
—
دیکھیے اہل محبت ہمیں کیا دیتے ہیں
کوچۂ یار میں ہم کب سے صدا دیتے ہیں
—
ہر اک داغِ دل شمع ساں دیکھتا ہوں
تری انجمن ضو فشاں دیکھتا ہوں
—
کسی مسکین کا گھر کھلتا ہے
یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
—
تابشؔ ہوس لذتِ آزار کہاں تک
راحت سے یہ غم پھر بھی مرے یار کہاں تک
—
رنج عیشِ ہے باقی اب نہ عیشِ غم تابشؔ
کچھ خبر نہیں مجھ کو رہ گیا ہوں کیا ہو کر
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
تابشؔ دہلوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ