پروفیسر معین الدّین جینا بڑے کی دو کتابیں ”اردو میں بیانیہ کی روایت“اورافسانوی مجموعہ ”تعبیر“ میری نظر سے گزری ہیں۔ پہلی کتاب فکشن بیانیہ کے نظریاتی مباحثہ جبکہ دوسری کتاب‘ایک طرح سے‘ان نظریات کا اطلاقی ثبوت‘بصورت افسانے‘ہیں‘کیونکہ ان افسانوں کامتن بیانیہ کے فنی اور تخلیقی برتاؤ کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔فکشن شعریات میں بیانیہ کی بحث کی طرف توجہ دیں تو بیانیہ کسی بھی فکشن متن کا جوہر ہوتاہے کیونکہ اگرفکشن تخلیق کرنے کے دوران بیان(Narration)اور بیانیہ (Narrative) کاتصورذہن میں واضح نہ ہو تو فکشن نگارموضوع یا واقعات کو فکشن ہیئت اور پلاٹ سازی میں پیش کرنے سے قاصر ہی رہے گا۔بیانیہ کے تعلق سے معین الدّین جینا بڑے اپنی تصنیف”اردو میں بیانیہ کی روایت“ میں جامع انداز سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”کہانی جو نظم یا نظر میں کہی /سنی جائے جو مبنی برواقعات وکردارہو‘ ان واقعات کا اپناایک تسلسل ہو اور وہ کردار گفتار و عمل کے متحمل ہوں‘ پھر چاہئے وہ حکایت‘قصے یا داستان کی شکل میں ہو‘ افسانے‘ ناول اور مثنوی کے روپ میں ہو یا ڈرامے اور فلم کے روپ میں ”بیانیہ“ کہلاتی ہے۔“(ص:7)
فکشن‘کہانی کے رنگ روپ سے ہی قاری کی دلچسپی کا موجب بنتا ہے۔ یہ کہانی کیا ہوتی ہے‘یہ زندگی کی کہانی ہوتی ہے۔لیکن اس کہانی کو فکشن کاروپ دینا ہی فن کاری کہلاتا ہے۔کہانی اور زندگی کے مابین رشتے کے تعلق سے معین الدّین جینابڑے فرماتے ہیں کہ”میرے یہاں زندگی اور فن کے خانے الگ الگ نہیں۔میری افتاد طبع ایسی کسی ثنویت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔میرے نذدیک کہانی‘زندگی کا چہرہ ہے اور زندگی‘ کہانی کی روح۔“(کتاب‘تعبیر:ص‘13)اسی طرح تکنیکی طور پر واقعہ نگاری اور کہانی بُننے کے فن کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”…واقعہ ہر شخص بیان کرسکتا ہے‘ہر شخص کہانی نہیں سنا سکتا‘سانس ہرشخص لے سکتا ہے‘ہرشخص زندگی نہیں جیتا … .سانس لینا تو خیر کوئی بات ہی نہیں‘جیون جیناالبتہ فن کاری ہے۔“(کتاب‘تعبیر:ص 13)
افسانہ نگاری اور فنی رموز سے متعلق افسانہ نگار کے مذکورہ خیالات اور پھر ان کے افسانوں میں ان خیالات کے اطلاقی پہلوؤں پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ پروفیسر معین الدّین جینابڑے کے افسانے فن اور موضوع کے تخلیقی برتاؤ کی ماہرانہ عکاسی کرتے ہیں اور ان میں واقعی زندگی کے واقعات کو کہانی کا فنی روپ دیاگیاہے‘جس کی وجہ سے یہ محض واقعہ نگاری نہیں بلکہ افسانوی فن کاری کا عملی ثبوت فراہم کرتے ہیں۔افسانے کے تعلق سے کئی لوگ اس خیال کے اسیر ہی نظر آتے ہیں کہ یہ کسی ایک واقعہ یا زندگی کے کسی ایک پہلو کی عکاسی کرنے کا نام ہے۔ یہ بات بھی جزوی طور پر صحیح ہے تاہم کلی طور پر دیکھیں تو افسانہ فردسے لیکر سماج کے کسی بھی موضوع یا کئی موضوعات کوکہانی کا حصہ بناسکتا ہے اور بناتا بھی ہے۔یہ صرف کسی ایک واقعہ یا زندگی کے کسی ایک پہلو کے پیش کرنے تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس ضمن میں کئی افسانوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کی موضوعاتی جہات واقعہ کے برعکس زندگی کے فلسفہ یا سماج کے نشیب وفراز تک کو احاطہ کرتے نظرآتی ہیں۔ویسے بھی واقعہ نگاری کے لئے افسانچہ نگاری کافی ہے۔سردست پیش نظر افسانوی مجموعہ”تعبیر“کے چند افسانوں کو ہی پیش نظر رکھیں گے۔ان افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے راقم نے متن کے تجزیاتی اپروچ سے کام لینے کی کوشش کی ہے تاکہ تنقیدی نقطہ نگاہ سے‘ افسانوں کی فنی اور موضوعاتی جہات کا جامع انداز سے جائزہ لیا جاسکے نہ کہ چند معمولی جملے لکھ کر پھر کہانی دہرانے کے روایتی عمل کی پیروی کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افسانے پر بات کرنے کے دوران اس کے فنی خصائص اور موضوعاتی پیش کش پر ہی ارتکاز کرنا مناسب رہتا ہے کیونکہ کہانی تو خود عام قاری بھی پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے پھر اس پر لکھنے کے دوران کیوں کہانی کو دہرایا جائے۔پیش نظر مجموعہ درجہ ذیل دس افسانوں پر مشتمل ہے:
”رِنگ ماسٹر“”گیت گھاٹ اور گرجاگھر“”بھول بھلیاں“ ”ناستک“”تعبیر“”برسورام دھڑکے سے“”نجات۔ 1“”نجات۔2“ ”چاند“”کہانی“تخلیقی‘ موضوعاتی اور فنی تناظر میں دیکھیں توافسانہ”رِنگ ماسٹر“ تخلیقی سطح پر مشاہدہ اور تخیل (Observation and Imagination) کے فنی امتزاج کی دلچسپ عکاسی کرتا ہے‘کیونکہ اس کی پلاٹ سازی‘موضوعاتی برتاؤ اور کردار نگاری کے باہمی فنی ربط اور تخلیقی رنگ آمیزی‘فکری سطح پر کہانی کی ترسیل وتاثر کو دوآتشہ بنادیتاہے۔جس کی وجہ سے یہ افسانہ سطحی قسم کی واقعہ نگاری نہیں رہتا بلکہ مرکزی کردار ’جے چند‘ (رنگ ماسٹر)کی کردارنگاری میں زندگی اورموت کے فلسفے کا فکری بیانیہ بن جاتا ہے۔اور زندگی کا وہ چکر ہے کیا؟ اس کو شکسپیئر اور غالب ؔ کے اشعار سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:
All the world's a stage“
And all the men and women merely players;
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
رنگ ماسٹر جے چند بھی بنیادی طور پر سرکس کا کھلاڑی ہوتا ہے جو تیس سال تک شب وروزشیروں کو نچانچاکر لوگوں کے لئے تماشا دیکھنے کی جمالیاتی مسرت بہم پہنچاتا رہتاہے‘یہاں تک تو وہ ایک رنگ ماسٹر ہی دکھائی دیتا ہے لیکن کہانی اگر سرکس کے کینوس تک ہی محدود رہتی تو یہ افسانہ بھی رنگ ماسٹر کی کردار نگاری میں سرکس کے منظرنامے تک مقید رہ جاتا۔اس کے برعکس افسانہ نگار نے تخلیقی طور پلاٹ کو وسعت دے کر رنگ ماسٹر کی کردارنگاری کو بڑی ہنرمندی سے اس طرح پھیلایا ہے کہ افسانہ زندگی کی کہانی بن گیا ہے۔افسانے کی ابتداء رنگ ماسٹر کے خوف کے علامتی اظہاریہ سے ہوتی ہے۔وہ زندگی کے اس پڑاؤ پر کھڑا ہوتا ہے جہاں موت کی گھنٹی کبھی بھی بج سکتی ہے۔لیکن وہ موت
کے تجریدی خوف کے برعکس کسی اور تشویش میں مبتلا ہوتا ہے۔افسانہ نگار نے ابتداء میں اس کی کیفیت کا خاکہ اس طرح سے کھینچا ہے کہ قاری کی توجہ ایک دم کردار کی ذہنی کیفیت اور بدن کی لاچاری کی طرف چلی جاتی ہے:
”اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا۔اس کی کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ کمرے کی فضا میں بھی ارتعاش پیدا کررہی تھا…
اس نے اسی کو غنیمت جانا کہ اس کا سینہ‘اس کا پلنگ اور اس کا فرش‘تینوں اس وزن کے باوجود صحیح سلامت ہیں۔وہ لیٹے لیٹے‘ اس پتھر کی سل کے نیچے دبا‘صرف اپنی گردن کو موڑ سکتا تھا ہاتھ کو جنبش دے پاتا تھا…“
کردار کی اس اضطراری کیفیت کوبیان کرنے کے بعد پلاٹ میں توسیع ہوجاتی ہے اور زندگی کی کہانی کے ساتھ ساتھ موت کے احساس کا بیانیہ کہیں کہیں مکالماتی انداز اور کہیں کہیں راست بیانیہ میں افسانے کا حصہ بن جاتاہے۔ مرکزی کردار تو جے چند(رنگ ماسٹر) ہی ہے تاہم موضوع کو آگے بڑھانے میں ڈاکٹر‘ گھوش بابو(ماہر فلسفہ)‘جے چند کی بیوی کی کردارنگاری مستحکم رول نبھاتی ہے جبکہ اسطوری سطح پر تتھاگت کی موجودگی اور چار سنیاسیوں کے کردار بھی کہانی کو نئے موڑدینے میں بڑے اہم نظر آتے ہیں۔
مرکزی کردارجے چند کی زندگی عجیب قسم کی پہیلی ہوتی ہے۔ایک دفعہ دوران گفتگو جب ڈاکٹر اسے بھگوان کو ماننے کی بات پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ”لیکن ڈاکٹر میں نہ تو آستک ہوں اور نہ ناستک…!“یعنی نہ تو وہ خدا کے وجود کا اقرار ی ہوتا ہے اور نہ ہی انکاری۔وہ سمجھتا ہے کہ اس وقت سرکس کا ملک ہونے کے باوجود اس کی زندگی تمبو میں ہی گزری ہے‘شاید اسی وجہ سے اسے کبھی بھی بھگوان سے متعلق سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا یا وہ جان بوجھ کرایسا کرتارہا۔ڈاکٹر اس کی نفسیاتی پریشانی سمجھ کر اسے بتاتا ہے کہ”موت آپ کا Obsession بن چکی ہے۔“ یہ سنتے ہی وہ شاید سمجھ جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی تو وہ اسے پوچھتا ہے کہ ”ڈاکٹر صاحب! آپ پوچا پاٹھ اور بھگوان کی باتیں کیوں پوچھ رہے تھے۔“ یہ سنتے ہی ڈاکٹر اسے تمثیلی انداز میں سمجھاتا ہے کہ ”جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے اسی طرح بڑا ڈر چھوٹے ڈر کو کھا جاتا ہے۔“ اس طرح وہ سمجھ جاتا ہے کہ خدا کا خوف انسان کا سب سے بڑا خوف ہے جس کے سامنے موت کا ڈرخود اپنی ہستی کھودیتا ہے۔اس طویل مکالمے کے بعد اس کی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ موت کے خوف کے سایے میں آچکا ہے‘جس کوقبول کرنے کے لئے اگرچہ اس کا ذہن تیار نہیں ہے لیکن اس کی نفسیات نے اب تسلیم کررہی لیا ہے کیونکہ وہ اب بیوی کی طرف دیکھ کرسوچتا ہے کہ بہتر ہے کہ یہ مالا ہی جپتی رہے۔کیونکہ پچھلے کچھ دنوں سے اس کی موت کا وہم اس کی بیوی کے دل میں گھر کرتا جارہا ہے۔اس کے بعد گھوش بابو کا کردار نمودار ہوتا ہے جو فلسفے کاسبکدوش پروفیسر ہوتا ہے۔یہ دونوں گہرے دوست ہوتے ہیں اور اکثر آپس میں گفتگو کرتے رہتے تھے۔ڈاکٹر کی بات سن کر ایک دفعہ گھوش بابو اسے فلسفیانہ انداز میں کہتا ہے کہ”جے چند! آپ کو موت کا Obession ہے اور مجھے زندگی کا۔“اس کے ساتھ ہی جب پروفیسر کہتا ہے کہ ”فلسفے اور سمجھ کا پھیر موت کے دروازے پرآکر ختم ہوجاتا ہے۔اسی لئے موت آج تک موت ہی رہی فلسفہ نہیں بنی۔“یہ سن کر جے چند حیران رہ جاتا ہے یعنی وہ سمجھتا تھا کہ پروفیسر نے زندگی کوسمجھا ہے‘جیا ہے لیکن پھر وہ اپنی ہی ناسمجھی پر اکتفا کرکے چپ ہوجاتا ہے۔
تکنیکی طور پر افسانے کے پلاٹ کی طرف توجہ دیں تو اس کے بعد پلاٹ سازی میں اسطور اور پھر ڈرامائی تکنیک درآئی ہے۔اسطور میں چار سنیاسی اور تتھاگت (مہاتمابدھ)کاقصہ چھیڑا گیا ہے جو کہ بنیادی موضوع کے ایک اہم جز سے جڑا ہوا ہے۔کہتے ہیں کہ وہم کا علاج لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔دراصل وہم ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو انسان کے حوصلے کو زنگ آلود کردیتی ہے۔چار سنیاسی جنگل میں تپسیا کرنے میں محو ہوتے ہیں۔ایک دن انہیں اچانک یہ وہم ہوجاتا ہے کہ اگر ان کی ریاضت پوری ہونے سے پہلے ہی موت آگئی تو پھر وہ ناکام ہی رہے۔یہی وہمی کیفیت جب حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ تتھاگت (بدھ)کے پاس چلے جاتے ہیں۔ ان کی مایوس کن حالت دیکھ کربدھ ان چاروں کو شاکیہ منی(حکمت آمیز نصیحت)سے حوصلہ دیتا ہے۔افسانے کا یہ حصہ داستانی اسلوب کا لطف دیتا ہے۔ اس کے بعد والے حصے‘جو کہ مرکزی کردار کے خواب پر مشتمل ہے‘ کو ڈرامائی تکنیک کے ذریعے پیش کیا گیا ہے جس میں جے چند خواب میں ایک اور سرکس کا نظارہ کرتا ہے اور اس سرکس کے رنگ ماسٹر کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ تو وہ خود ہے۔اس حصے میں ہندو مت کے فلسفہ آواگون (Transmigration)کا پہلو نکلتا ہے کہ انسان ایک چکر کی طرح دنیا میں آتا رہتا ہے۔خواب کے بعد کاحصہ پھر مرکزی کردار کی وہم والی ذہنی کیفیت کی طرف مڑجاتا ہے اورآخرکار اس کی منفی سوچ پر مثبت اثرات پڑجاتے ہیں۔افسانہ دراصل دنیا کو ایک سرکس کی طرح پیش کررہاہے جس میں ہر انسان اپنارول نبھاتا ہے اور اگر انسان کے اندرمنفی خیالات پنپنے لگیں تو پھر زندگی جینے کااحساس مردہ ہوجاتا ہے‘جس طرح مرکزی کردار کی سوچ پر وہم نے منفی اثرات ڈالے ہوتے ہیں۔بقول یگانہ چنگیزی:
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے
وہم کی کیا دوا کرے کوئی
افسانہ نگاری ایک ایسا فن ہے جس میں کبھی کہانی ہی قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور کبھی کبھی کہانی کے تجسس میں کرداروں کافعال کردار اہم رول نبھاتا ہے۔ افسانہ نگار اگر کہانی کو روداد کی طرح پیش کرے تو اس میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق جس طرح سے چاہئے کہانی کا رخ موڑ سکتا ہے لیکن اگر یہ تاریخی یا سماجی نوعیت کی کہانی ہوگی تو اس میں کرداروں کے رویوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے اور افسانہ نگار کرداروں کے مطابق کہانی کو پیش کرنے کا پابند رہتا ہے۔اس قسم کے افسانوں پر بات کرنے کے دوران کہانی کے کرداروں کے ساختیاتی تفاعل(Structural Functions)کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔افسانہ ”تعبیر“ کی کہانی بنیادی طور پر ایک سماجی کہانی ہے‘جو صدیوں سے چلے آرہے دھرم پور کی سماجی ہم آہنگی(Social harmony) اور مذہبی رواداری کی تخلیقی منظر کشی کرتی ہے۔ موضوعاتی طور پرکہانی کی سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں ’دھرم پور‘ چوپال’ چودھری دھرم پال‘قاضی نورالدین‘ مسجد کے محراب کا روشن دیا کی موجود گی بنیادی سورس کی حیثیت رکھتے ہیں۔چودھری دھرم پال ہمیشہ محراب کا دیا روشن کرتا تھا اور کسی بھی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا تھا بلکہ نماز کے بعد مسلمان اپنائیت کا مظاہرکرتے ہوئے دھرم پال کو سلام کرتے رہتے۔افسانہ دھرم پور کی اس قسم کی سماجی ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارے کو دلچسپ اسلوب میں فکشنائز کررہا ہے جس دوران چودھری دھرم پال اورقاضی نورالدین کی کردار نگاری پوری کہانی کو ایک تہذیبی شناخت دینے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ اس کے بعد کہانی کا تخلیقی کینوس روایتی طرز زندگی سے نکل کر جدید ماحول اور نئی سوچ کی طرف مڑجاتا ہے۔ دراصل بستی میں ایک انوکھے قسم کی مندر کی بنیاد ڈالی جاتی ہے جس میں کوئی بھی مورتی نہیں رکھی جاتی بلکہ مندر کے دروازے ہر شخص کی عبادت کے لئے کھول دے جاتے ہیں۔لوگ بھی مندر میں بلا کسی تعصب کے آتے رہتے ہیں لیکن دھرم پور جب ایک گاؤں سے بڑھ کر مہانگر کا روپ دھار لیتا ہے تو یہاں کی زندگی میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔لیکن اس سب تبدیلی کے باوجود ابھی بھی مسجد کے محراب کا دیا ٹمٹما رہتا ہے اور ٹیلے پر موجود بڑے مندر کاکلس بھی جگمگاتا رہتا ہے۔ یعنی اتنی تبدیلی ہونے کے باوجود بھی دھرم پور میں سماجی ہم آہنگی کی روایت مضبوط ہوتی ہے۔
اس کے بعد دھرم پور کی یہ سماجی ہم آہنگی کی روایت کیسے ختم ہوجاتی ہے تو اس کے محرک نئی سوچ کے حامل دوسیاسی کردار بابو جانکی داس اور بابوگووردھن داس ہوتے ہیں۔دونوں اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کی خاطر مندر میں اپنے عقیدے کی مورتیاں رکھنا چاہتے ہیں۔اس طرح سے کہانی اب سماجی ہم آہنگی اور مذہبی روا داری سے نکل کر سیاسی ماحول کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔بس یہی سیاسی منظر نامہ دھرم پور کے صدیوں پرانے روایتی بھائی چارے اور خوشیوں پر شب خون ماردیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دھرم کے نام پر دھرم پورکی خوشگوار فضا ابرآلود ہوجاتی ہے اور آخرکار سیاست کی یہ آگ صدیوں کے بھائی چارے کو پل بھر میں ختم کردیتی ہے جس کی طرف پنچ لائن میں اس طرح سے اشارہ کیا گیا ہے:
”مندر کے ڈھہ جانے کے ساتھ ہی وہ آخری دیا بھی بجھ گیا جو تن تنہا اس رات سے لوہا لے رہا تھا جو صدیوں پر بھاری تھی۔“
ساختیاتی طور پردیکھیں تو افسانے کی پلاٹ سازی‘ کہانی کا موضوعاتی برتاؤ اور کردار نگاری بہترین فن کاری کی عکاسی کرتی ہے تاہم اسلوبیاتی طور پر افسانے کا متن ہندی اور سنسکرت الفاظ سے بوجھل بن گیا ہے۔ اگر کرداروں کے مکالموں تک ہی یہ محدود رہتا تو کوئی قباحت نہیں تھی کیونکہ کرداروں کی زبان اور لہجہ کردارنگاری کے لئے اہم ہوتا ہے تاہم یہ صورتحال وہاں پر بھی نظرآتی ہے جہاں آسان اردو کا استعمال بھی کیا جاسکتا تھا۔
ادبی متن لسانی اور موضوعاتی نظام سے تشکیل پاتا ہے۔ فنی اورموضوعاتی سطح پر متن کے تشکیلی نظام میں افسانہ نگار کا مشاہدہ اور علمی بصیرت کے ساتھ ساتھ فنی برتاؤ کی صلاحیت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ دراصل فکشن میں فارم اور مواد کا اپنااپنا رول ہوتا ہے۔اگر مواد ٹھیک ٹھاک ہے لیکن صحیح فارم میں نہیں ڈالا گیا ہو تو پھرقرأت کے دوران قاری کا تجسس ماند پڑجاتا ہے۔ساختیاتی نظریہ مطالعہ میں قرأت کاطریقہ کار ایک مباحثہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کو مختصراََ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی متن کی قرات اور تفہیم متن کے نظام کے دائرے کے ہی اندر ہونہ کہ متن کچھ اور کہتا ہو اور قاری کی تفہیم کچھ اوربتا رہی ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ افسانہ نگار صرف مشاہدے کی بنیاد پر کوئی کہانی پیش کرتا ہے اور کبھی کبھی وہ مشاہدے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی بصیرت سے افسانے میں اتنی گہرائی پیدا کرتا ہے کہ افسانہ محض مشاہداتی کہانی نہیں پیش کرتا ہے بلکہ اس میں فکروفلسفہ اور حکمت ودانائی کے موتی بھی موجود ہوتے ہیں۔ پیش نظر افسانوی مجموعہ ”تعبیر“ کے افسانوں میں بصیرت افروز کہانیاں بھی ملتی ہیں‘جیسے”رنگ ماسٹر“ ”گیت گھاٹ اور گرجا گھر“”نجات“ اور سماجی مشاہدے کی کہانیاں ”تعبیر“ ”برسو رام دھڑاکے سے“”کہانی“وغیرہ۔افسانہ ”نجات 1-2“ فلسفیانہ نوعیت کی کہانیاں ہیں جن کا مرکزی موضوع انسانی فطرت کے نشیب وفراز اور اعمال کی جزا وسزا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ”سائیں جی‘ شاہ صاحب“ ہیں۔ ہندوؤں کے لئے سائیں جی اور مسلمانوں کے لئے شاہ صاحب۔ تاہم اس کا بنیادی مقصد بستی کے لوگوں کی تحلیل نفسی ہوتا ہے جو کہ وہ روحانی تعلیم سے کرنا چاہتا ہے۔اسی طرح افسانہ”کہانی“ ایک کہانی کارکے تجربات اور احساسات اور اس کے چھوٹے بچے کی فکروسوچ اور پسند کو راست بیانیہ میں دلچسپ کہانی سناتا ہے۔
معین الدین جینا بڑے کے افسانوں کی قرأت سے ظاہر ہے کہ ان کے تشکیلی نظام میں میں فارم اور موادکے برتاؤ کا ماہرانہ خیال رکھا گیا ہے۔ ان کے بیشتر افسانے صرف واقعہ نگاری (Historiography) کے مظہر نہیں ہیں بلکہ فکری سطح پر علمیاتی حقیقت (Epistemological realism) کی بصیرت افروز عکاسی کرتے ہیں۔ان میں فکروفلسفہ اور حکمت آموز افکار کی حامل کہانیاں ہوتی ہیں جو افسانوی ہیئت میں اپنے افسانوی پن سے فن پارہ بن جاتی ہیں اور قاری کوزندگی کے کسی نہ کسی پہلوپرسوچنے کی تحریک دیتی ہیں۔